دین اور مسلمان (قسط ۲)
محمد عمر فراہی
سلطنت عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد مسلم ریاستوں میں مقبول ہو رہے جدید لبرل لادینی سرمایہ دارانہ نظام سیاست کے خلاف اس دور کے علماء کرام نے شروع میں کچھ فکری مزاحمت کرنے کی کوشش تو ضرور کی مگر جب قومیں عسکری طور پر زوال پزیر ہو جائیں تو ان کا بیانیہ خواہ وہ سچائی پر ہی کیوں نہ مبنی ہو اسے قبولیت حاصل نہیں ہوتی ۔
جیسا کہ شاعر مشرق نے کہا کہ
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
یہی وجہ ہے کہ بعد کے علماء کی اکثریت نے خود یہ دلیل دیتے ہوۓ اس لادینی طرز نظام کو تسلیم کر لیا کہ اس نظام میں بھی مسلمانوں کو دین پر عمل کرنے کی آزادی ہے ۔آگے اس کی بھی وضاحت ہوگی کہ سرمایہ دارانہ نظام کے علمبرداروں اور داعیوں نے جب خود اس طرز سیاست کو اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک وغیرہ کے ذریعے نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے دین کے طور پر غالب کرنے کا جال بچھا رکھا ہے تو وہ اسلام یا کسی اور مذہب کو دین کے طور پر آزادی کیسے دے سکتے ہیں ؟
علامہ نے ملت اسلامیہ کے انہیں شکست خوردہ دانشوروں سے مخاطب ہوتے ہوۓ کہا ہے کہ
دیو استبداد جمہوری قبا میں پاۓ کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
برصغیر کی تقریبا سو سالہ انگریزی دور حکومت میں جو قیادت پروان چڑھی جب وہ بھی جمہوریت کے آزادی ،انصاف اور مساوات کے فریبی نعروں کا شکار ہوئی تو اقبال نے ان کو مخاطب کیا کہ
وہ شکست خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کی کیا ہو رہ رسم و شاہ بازی
یا انہیں یوں بھی مخاطب کیا کہ
ملا کو جو مسجد میں ہے سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الااللہ
ترکی میں کمال اتاترک کی لادینی تحریک پر افسوس کیا کہ
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
افغانی ملاؤں کے تعلق سے کہا کہ
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو
جزیرۃ العرب کے آج جو حالات ہیں اقبال نے اس تبدیلی کو محسوس کرتے ہوۓ سو سال پہلے ہی کہا کہ
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز یمن سے نکال دو
روۓ زمین پر صرف ملاؤں کی ایک ہی قوم ہے جو ابھی تک اصل دین پر ہے ورنہ اٹھارہویں صدی کے مغربی یلغار کے سامنے نہ صرف مسلم سلطنتیں ڈھ گئیں ،جدید ترقی اور ٹکنالوجی سے آراستہ تحریک مغرب نے ملت اسلامیہ کے جہاندیدہ افراد کو بھی یوں مرعوب کیا کہ ملت کا ہر دانشور مغرب کی نظر سے اسلام کی تشریح کرنے لگا اور وقت کے اسلامی اسکالر وحیدالدین خان https://www.youtube.com/watch?v=nSLf0wQ-PWw اور غامدی https://www.youtube.com/@GhamidiCIL نے قرآن و حدیث کے حوالے سے مغرب کی اس لادینی تحریک کو مسلمانوں کیلئے باعث نعمت قرار دیا ۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ مسلم سلطنتوں کا زوال اتنا تباہ کن نہیں تھا جتنا ملت اسلامیہ کے علماء اور اہل دانش کے فکری زوال نے ملت کو نقصان پہنچایا اور وہ فرقوں میں تقسیم ہو گئی ۔جیسا کہ ماضی میں تاتاریوں کی یلغار سے ایران اور بغداد تباہ ہو کر بھی دوبارہ آباد ہوۓ تو اس لئے کہ وہ عسکری طور پر کمزور ہوۓ تھے فکری طور پر نہیں ۔ اور اس کا اثر یہ ہوا کہ خود اس طاقتور تاتاری قوم کے حکمرانوں نے اسلام کی آغوش میں پناہ لے لی ۔
اقبال نے انہیں کے تعلق سے کہا ہے کہ
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
اس کے برعکس جدید مغربی انقلاب کے بعد ملت اسلامیہ نہ صرف کئی ریاستوں میں بٹ گئی فکری طور پر بھی مسلمانوں کے فرقے اور ان کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد اور امارت وجود میں آ گئی ۔میں نے اپنے مضمون میں قاضی اطہر مبارکپوری کے حوالے سے لکھا تھا کہ یہ حکومت ،ریاست اور امارت کی برکت تھی کہ آخری مغل حکمراں کے دور میں سواۓ دو فرقوں کے تیسرے فرقے کا وجود نہیں تھا یا اگر تھا بھی تو سواۓ ایک مسجد کے دوسرے کسی فرقے نے اپنی الگ مسجد کی بنیاد رکھنے کی جرات نہیں کی ۔جیسا کہ آج ماشاءاللہ جمہوری آزادی کی برکت سے دیوبندی ، بریلوی ، اہل حدیث قادیانی، شیعہ ،بہائی، بوہرا اور مہدوی فرقے کی الگ الگ مسجدیں ہیں اور ہر شخص کو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد اور فرقہ بنانے کی آزادی ہے ۔ان مسجدوں کے علاوہ ہر فرقے کے اندر بھی اور فرقے پیدا ہو رہے ہیں اور ان کے اندر آپسی نظریاتی اختلاف اتنے گہرے ہیں کہ جس طرح ایک فرقہ دوسرے فرقے کو گمراہ ،کافر اور منہج سے منحرف قرار دے رہا ہے کچھ اہل دانش کا خیال ہے کہ اگر انہیں ہتھیار دے کر آزاد چھوڑ دیا جاۓ تو خوارج کی طرح یہ خود آپس میں لڑ کر ختم ہو جائیں گے ۔اللہ بھلا کرے مودی حکومت اور ہندو تحریکوں کے خوف کا کہ یہ فرقے کسی حد تک اپنی اوقات میں ہیں ۔
یعنی اٹھارہویں صدی میں مسلم علماء کے فکری زوال نے عام مسلمانوں کے اندر سے دین کا جو مفہوم بدلا اس کے بھیانک اثرات ہماری عبادات پر تو پڑے ہی ہیں تہذیبی اور ثقافتی زوال نے اس قوم کو فتنہ ارتداد کی دہلیز پر کھڑا کر دیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری
نوٹ :-سوچا تھا کہ نماز اور زکواۃ کے نظام میں آنے والے بگاڑ پر اس موضوع کو ختم کر دوں گا لیکن لکھتے لکھتے دل میں آیا کہ جب تک ہم دین کو سیاسی طور پر سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے کسی بھی موضوع کا خلاصہ مشکل ہے ۔