✍️ شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز)
____________________
جمعہ کے روز ۱۳؍ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام ۸۸ سیٹوں پر دوسرے مرحلے کی پولنگ کا مجموعی فیصد ۶۴ رہا ۔ یہ فیصد تقریباً پہلے مرحلے جیسا ہی ہے ۔ ووٹنگ ڈالنے والوں کا جو ش وخروش نہ پہلے مرحلے میں دیکھا گیا اور نہ ہی اس مرحلے میں نظر آیا۔ کم ووٹنگ فیصد کا سبب کیا ہوسکتا ہے ؟ اس سوال پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جیسے عام جنتا نے الیکشن اور ووٹنگ کے نظام میں دلچسپی لینا چھوڑ دیا ہے ۔ ایسا کیوں؟ اگر اس سوال پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اب لوگوں کو سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں پر بہت زیادہ یقین اور بھروسہ نہیں رہ گیا ہے ۔ عدمِ بھروسہ کا سبب یہ ہے کہ ملک میں ترقی کی رفتار سست بلکہ ٹھپ سی پڑی ہوئی ہے ، امیدواروں نے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے ہیں ۔ ہر الیکشن میں امیدوار لوگوں کے دروازے تک پہنچتے ہیں ، ان سے وعدے کرتے ہیں لیکن منتخب ہونے کے بعد وعدے سمیٹ کر ایوانوں میں اونچی اونچی کرسیوں پر براجمان ہو جاتے ہیں ، اور لوگوں کے دروازے پر آئندہ واپسی پانچ برس بعد ہی ہوتی ہے ، دوبارہ ووٹ مانگنے کے لیے ۔ یہ تو کہا جاتا ہے کہ الیکشن میں ووٹنگ کا فیصد کم ہوا ، یا کم ہو رہا ہے لیکن مذکورہ اسباب پر کبھی غور نہیں کیا جاتا ۔ کیا کبھی یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ امیدواروں نے الیکشن سے پہلے جو وعدے کیے تھے الیکشن جیتنے کے بعد انہوں نے وہ وعدہ یا وعدے پورے کیے یا نہیں ؟یا کتنے وعدے پورے کیے اور کتنے وعدے پورے نہیں کیے؟ نہیں ، ان سوالوں پر کبھی غور نہیں کیا جاتا جب کہ ووٹنگ کے فیصد میں کمی کے لیے وعدوں کا پورا نہ کرنا ایک اہم سبب ہے ۔ اور اب تو وعدے بھی نہیں کیے جارہے ہیں ۔ الیکشن کے دو مرحلے ہوچکے ہیں نہ ملک کی ترقی کی بات کی گئی ہے اور نہ ہی ترقی کے منصوبے بتائے گیے ہیں ، بس بات ’ مسلمانوں‘ کی ہی کی جارہی ہے ۔ بی جے پی کے لیڈروں نے بالخصوص وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے دستِ راست امیت شاہ نے الیکشن کو ’مسلمان بنام ہندو‘ بنادیا ہے ۔ جمعہ کے روز امیت شاہ نے جو تقریر کی کیا اسے کسی الیکشن کی تقریر کہا جاسکتا ہے ! انہوں نے سیدھے سیدھے کہا کہ کانگریس ملک میں مسلم پرسنل لاء لانا چاہتی ہے ! کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا کانگریس اس ملک میں مسلم پرسنل لاء نافذ کرسکتی ہے ؟ اس سوال کا جواب ’نہیں‘ کے سوا اور کیا ہوگا ۔ مسلم پرسنل لاء کو تو یہ مودی سرکار خْتم کررہی ہے ۔اس نے جس یکساں سول کوڈ( یوسی سی) کے نفاذ کا اعلان کیا ہے وہ ’ ہندوکوڈبِل‘ کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ انتخابی جلسوں میں اس طرح کی تقریر کا مطلب سیدھے سیدھے ملک کے دو فرقوں کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کرنا اور فرقہ وارانہ دراڑ ڈال کر ووٹ حاصل کرنا ہے ۔ وزیراعظم مودی تو کئی دنوں سے یہ اعلان کرتے پھررہے ہیں کہ اگر کانگریس کی حکومت بنی تو ہندوؤں کی ملکیت اور ان کی عورتوں کے سونے چاندی کے زیورات سب چھین کر مسلمانوں میں بانٹ دے گی ! کیا یہ ملک کی ترقی کا اعلان ہے ؟ بالکل نہیں یہ فرقہ وارانہ بنیاد پر ووٹروں کو تقسیم کرنے کی کوشش ہے ۔ پی ایم مودی نے جمعہ کے روز یہ بھی کہا ہے کہ کانگریس اوبی سی ریزرویشن چوری کرکے مسلمانوں کو دینے کی سازش کررہی ہے ! سچ یہی ہے کہ بی جے پی ،مودی ، امیت شاہ اور نڈا نے اس الیکشن کو نہ ترقی سے جوڑا ہے ، نہ ترقی کے منصوبوں سے ، اس الیکشن کو ’ مسلمان بنام ہندو‘ بنادیا ہے ۔ یہ ایک افسوس ناک امر ہے ۔ ظاہر ہے کہ ملک کے لوگ کب تک ہندو اور مسلمان کے نام پر ووٹ دیں گے ! لوگ عاجز اور بیزار ہوچکے ہیں ۔ اگرووٹنگ کا فیصد بڑھانا ہے تو امیدوار جیتنے کے بعد وعدے پورے کریں اور حکومتیں ترقی کے منصوبے بنائیں اور منصوبوں پر عمل کریں ، ہندو اور مسلمان نہ کریں ۔