مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال
مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال

مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال ✍️ معصوم مرادآبادی _______________________ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی سے متعلق سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر ہے۔ یونیورسٹی میں مٹھائیاں تقسیم کی گئی ہیں اورعلیگ برادری کے ساتھ عام مسلمانوں نے بھی اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا […]

ٹرمپ کی جیت کے بعد۔!
ٹرمپ کی جیت کے بعد۔!

ٹرمپ کی جیت کے بعد۔! از:ڈاکٹرسیدفاضل حسین پرویز ___________________ ڈونالڈ ٹرمپ توقع کے مطابق دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔ وہ 1897سے لے کر اب تک تاریخ میں ایسے دوسرے صدر ہیں، جو متواتر دوسری میعاد کے لئے منتخب نہ ہوسکے تھے۔ ٹرمپ گذشتہ الیکشن ہار گئے تھے، اور 2024کا الیکشن جیت گئے۔ اس سے […]

مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں
مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں

– مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں ✍️محمد نصر الله ندوی ___________________ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چندر چوڑ نے جاتے جاتے مدرسہ بورڈ کے حوالہ سے اہم فیصلہ دیا،مدرسہ ایکٹ 2004 پر فیصلہ سناتے ہوئے انہوں نے جو کچھ کہا،وہ بہت معنی خیز ہے،انہوں نے ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے فیصلہ کو پوری طرح […]

اسلام پور کو ضلع بنانے کا دیرینہ عوامی مطالبہ: ضرورت اور حکومت سے اپیل

✍️محمد شہباز عالم مصباحی

علاقائی صدر:آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ
(شمالی بنگال و سیمانچل یونٹ)

_____________________

ملک عزیز کو آزاد ہوئے 75سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ کیا عوام سے کیے گئے وعدوں کے مطابق ریاست اور ملک ترقی کے میدان میں پیش رفت کر رہے ہیں؟ اسلام پور سب ڈویژن کے عوام تاحال حکومت کی جانب سے کافی محرومیوں کے شکارہیں۔ اسلام پور سب ڈویژن کے باشندگان ایسا ہی سوچتے ہیں۔ ترقی تو بہت دور کی بات ہے ، گذشتہ اور موجودہ حکومت نے یہاں کی سر زمین کو مختلف طریقوں سے استحصال کا میدان بنا لیا ہے۔ یہاں کے لوگ ایک عرصے سے مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اسلام پور کو آئین کے مطابق ایک آزاد ضلع اور ایک آزاد پارلیمانی حلقہ قرار دیا جائے۔ اسلام پور سب ڈویژن کے عوام کے اس اہم مطالبے کو تاحال نظر انداز کیا جارہاہے،جبکہ یہ ایک ضروری،دیرینہ اور انتہائی عوامی مطالبہ ہے۔
15 اگست 1947کو جب ملک آزاد ہوا تو بنگال اورپنجاب تقسیم ہوگئے جس سے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے،زمین چھوڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ رہنے پر مجبورہوئے جن میں اسلام پور اور دیناجپور کے لوگ بھی شامل ہیں۔ بنگال دو حصوں میں تقسیم ہونے کے بعد اس کا مشرقی حصہ مشرقی پاکستان بنا جو موجودہ بنگلہ دیش ہے،جبکہ مغربی حصہ بنام مغربی بنگال آزاد ہندوستان کا حصہ قرار پایا۔ 1947 میں جب بنگال تقسیم ہوا۔ایک طرف، مالدہ پورے جنوبی بنگال کے ساتھ مغربی دیناجپور ضلع کے ساتھ تھا اور دوسری طرف، جلپائی گوڑی، دارجلنگ اور 1950 میںضلع کوچ بہارتھے ۔ اس کے نتیجے میں مغربی بنگال آزاد ہندوستان میں تقسیم ہوگیا۔ منقسم مغربی بنگال کو متحد کرنے کا حکم برقرار رکھنے کے لیے ریاستی تنظیم نو کا کمیشن 1955 میں قائم کیا گیا تھا۔ موجودہ اسلام پور سب ڈویژن اور دارجلنگ ضلع کے پھانسی دُوا تھانے کے 19 موضع کو بہار سے مغربی بنگال میں ضم کردیا گیا۔ اس وقت لاکھوں لوگوں نے بہار سے مغربی بنگال کے ساتھ وابستگی کے خلاف احتجاج کیا اور بہت سے معقول خدشات کا اظہار کیا جن خدشات کو کمیشن نے قبول کیا اور کمیشن نے سفارش بھی کی،لیکن ان سفارشات پر کوئی دھیان نہیں دیا گیا۔
ملک کی جنگِ آزادی میں یہاں کے لوگ پیچھے نہیں رہے، لیکن تقسیم کے دوران اسلام پور سب ڈویژن کے لوگوں کو سب سے زیادہ قربانیاں دینی پڑیں۔ ملک کی آزادی کی جد و جہد سے لے کرزمین کی جد و جہد تک، کسانوں کی تحریک ،زمین داروں کے ظلم کے خلاف لڑائی میں ہر جگہ اسلام پور سب ڈویژن کے عوام سب سے آگے رہے ہیں۔ مہاتما گاندھی سے لے کر سبھاش چندر بوش، بابو راجندر پرساد، خان عبدالغفار خان اور بہت سے لیڈر یہاں پہنچ چکے ہیں۔
ہم اسلام پور سب ڈویژن کو ضلع کیوں بناناچاہتے ہیں؟ 25 اکتوبر 1956 کو ایک نوٹیفیکیشن جاری ہوا۔ 56.96 مربع میل کے رقبے پر محیط تمام منتقل شدہ علاقوں کے کل 19 موضع دارجلنگ ضلع میں شامل کیے گئے۔ نوٹیفیکیشن نمبر SRO-2473 تھا جس کا اطلاق یکم نومبر سے ہوناتھا،لیکن اگلے دن دارجلنگ ضلع سے ہٹا کر سابقہ مغربی دیناجپور ضلع میں شامل کرنے کا سرکاری نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا جس کا سرکاری جی او نمبر 3875 مورخہ 2-11-1956 ہے۔ اس کے ٹھیک تین سال بعد 20 مارچ 1959 کو دریائے مہانندہ کے شمالی حصے کے کل 19 موضع جوتقریبا 56.96 مربع میل کے رقبے پر محیط تھے، دوبارہ ضلع دارجلنگ میں شامل کر دیے گئے جس کا جی او نمبر 20 مارچ 1177/1959 ہے۔اور پھر یکم اپریل 1992کو سابقہ مغربی دیناجپور ضلع کو تقسیم کرکے موجودہ اسلام پور سب ڈویژن کو شمالی دیناجپور کو دے دیا گیا ۔دوسرے لفظوں میں انتظامیہ نے اسلام پور سب ڈویژن کے لوگوں کو پالتو جانور کے طور پر استعمال کیا تاکہ ان کا بھر پور استحصال کیا جا سکے۔ نتیجے کے طور پر یہاں کے لوگ جو بہار سے منتقل ہوکر اس بنگال میں آئے اورجو ایک ہی زبان بولتے اور ایک ہی ثقافت رکھتے ہیں ، دو اضلاع میں تقسیم ہوگئے ۔ ایک حصہ سابقہ مغربی دیناج پور اور دوسرا حصہ دار جلنگ ضلع میں تقسیم کیا گیا جس کے نتیجے میں یہاں کے لوگوں کی زبان اور ثقافت بحران کا شکار ہوگئی ہے۔اس بحران سے بچنے کے لئے تمام منتقل شدہ علاقوں کو ایک الگ ضلع دے کر ایک ہی ضلع میں رکھناہوگا تاکہ یہاں کی علاقائی زبان اور ثقافت کوانفرادی طور پر بچایا جا سکے۔
دوسری بات: اسلام پور موجودہ اتر دیناج پور ضلع کا ایک ذیلی ڈویژن ہے۔اس کاصدر مقام رائے گنج ہے۔اس ضلع کے ایک سرے سے دوسرے تک کا فاصلہ 200کلو میٹر ہے۔رائے گنج صدر مقام سے آخری گاؤں کا فاصلہ 165کلو میٹر ہے۔اسلام پور سب ڈویژن سائز اور آبادی کے لحاظ سے رائے گنج سے بہت بڑا ہے۔صرف منتقل شدہ علاقوں میں 16لاکھ سے زیادہ ووٹرزہیں۔ اسلام پور سب ڈویژن میں ووٹرز کی تعداد تقریبا12لاکھ ہے۔ رواں سال میں اس میں اضافہ ہوا ہے۔ مستقبل میں اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ترقی کے اعتبار سے یہ ڈویژن سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔اس سب ڈویژن میں کوئی یونیورسٹی نہیں ہے۔آزادی کے وقت میں بھی اعلی تعلیم کے لئے یہاں کے لوگوں کوبہار کے پورنیہ،پٹنہ یا کولکاتا جانا پڑتا تھا۔آج بھی یہ صورتِ حال نہیں بدلی ہے۔کوئی میڈیکل کالج نہیں ہے۔حالانکہ مرکزی حکومت نے ایمس میڈیکل کالج بنانے کا وعدہ کیا تھا،لیکن اتر دیناج پور کے لوگوں کو کم تر سمجھ کر ریاستی حکومت نے یہ سہولت نہیں دی۔آج اگر اس علاقے کا کوئی شخص شدید بیمار ہوجائے تو اسے نارتھ بنگال میڈیکل کالج یا رائے گنج میڈیکل کالج یا کولکاتا کے کسی میڈیکل کالج میں لے جانا پڑتا ہے جو کہ کافی وقت طلب اور مہنگا ہے۔میڈیکل سہولت کے علاوہ اس علاقے میں مرد وخواتین کے تناسب کے اعتبار سے پرائمری اسکولز اور کالجز بھی نہیں بنائے گئے ہیں۔تعلیم چھوڑنے والوں کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔اسلام پور سب ڈویژن اساتذہ کی بھرتی میں فیصد کے لحاظ سے رائے گنج سے بہت پیچھے ہے۔
اسلام پور سب ڈویژن میں کوئی بڑی صنعت تیار نہیں ہوتی ہے۔قومی شاہراہ نمبر 34اس شہر کے اوپر سے گزرتی ہے۔یہ ڈویژن ایک ایسی جگہ پر واقع ہے جس سے پورا شمال مشرقی ہندوستان سڑک اور ریل کے ذریعے جڑا ہوا ہے، لیکن یہاں ایک بڑا ریلوے اسٹیشن بھی نہیں ہے۔بہار کے کشن گنج ریلوے جنکشن پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔کوئی بھی اہم ٹرین اسلام پور کے الواباڑی ریلوے اسٹیشن پر نہیں رکتی۔
تعلیم کے عدم فروغ،صنعت یا روزگار کی کمی کی وجہ سے اس خطے کے بہت سے لوگوں کو روزانہ کام کے لئے مہاجر مزدوروں کے طور پر ہندوستان کے دوسرے حصوں میں جانا پڑتاہے۔ جناب حافظ عالم شیرانی آزاد ی کے بعد ہمارے ضلع کے پہلے وزیربنے۔ وہ اس پسماندہ ضلع کی اصل صور ت حال کو اپنی وزارت کے دور میں سمجھتے تھے۔ اپنے وزارتی دور میں انہوں نے اسلام پور سب ڈویژن کے پانجی پاڑہ میں چمڑے کی صنعت کے لئے زمین حاصل کی،مگربعد کے مراحل میں وہاںاس صنعت کی کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی ۔ اس صنعت کو ترقی دینے کے لیے دالکولہ میں ایک ٹرک ٹرمینس بنانے کی کوشش کی گئی ،لیکن اگلے مرحلے پروہ کوشش نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی۔
تیسری بات: یکم نومبر 1956ء کو ریاستی تنظیم نو کمیشن کی سفارش کے مطابق پورے اسلام پور سب ڈویژن اور پھانسی دُوا تھانہ کے 19موضع کوبہار کے کشن گنج سے کاٹ کر مغربی بنگال کے ساتھ ملادیاگیا جس کارقبہ 759مربع میل ہے ۔ سرکاری تخمینوں کے مطابق اس دوران تقریبا 2,77,288مر د اور خواتین مغربی  بنگال میںہجرت کر گئے جس کی وجہ سے اس علاقے کے لوگ دونوں طرف سے متاثر ہیں۔۔ قوم کاغلبہ ، ترقی پر، اور ترقی، زبان کی ترقی پر منحصر ہے۔ بہار سے آنے والے لوگوں کی زبان اور ثقافت بنگال سے مختلف تھی۔ اس کے علاوہ جو لوگ 1956میں بہار سے اس بنگال میں شامل ہوئے وہ 1955مین لینڈ ریفارمزایکٹ کے نفاذ سے شدید متاثر ہوئے۔حکومت نے اس وقت اعلان کیا کہ ان زمینی اصلاحات کے ذریعے بے زمین ، کھیت مزدوروںکوزمین الاٹ کی جائے گی۔۔1956میں بہار کے لوگ بنگال میں شامل ہونے سے پہلے خوف زدہ تھے اور بہت ساری زمینیں بیچ دی تھیں،پھر مغربی بنگال حکومت نے 1955کے ایکٹ کی پیروی کرتے ہوئے بہت سی اراضی ضبط کرلیں جس کی وجہ سے بہت سے زمیندار کے ساتھ ساتھ بہت سے غریب کسان لوگ بے زمین ہوگئے۔ زمین کا کچھ حصہ لوگوں کو پٹہ کے طور پرملا اور کچھ زمین مقامی لوگوں نے کاشت کی ۔1980اور1990کی دہائیوں میں ان تمام منتقل شدہ علاقوں میں چائے کے باغات تیار کرنے کی کوششیں کی گئیں۔کلکتہ سمیت مختلف جگہوں سے بڑے بڑے سرمایہ دار چائے کے باغات لگانے کے لیے زمین حاصل کرنے کے لئے آئے۔ لینڈمافیا، بروکرسرکل میں شامل ہو گئے۔ انتظامیہ کو آلۂ کار کے طور پراستعمال کرتے ہوئے مختلف طریقوں سے لوگوں پر جھوٹے مقدمات عائد کیے گئے جس کی مزاحمت کے لئے ایک تنظیم TASSOکے نام سے تشکیل دی گئی ، سینکڑوں لوگ جیل گئے۔ بابو بلے اور آرتھ بولے نے زمین، خاص زمین، پٹہ والی زمین، کھتیان والی زمین ، تیستا کمانڈ ایریا ہر جگہ اپنے پنجے گاڑ لیے اور ہرجگہ چائے کے باغات بنائے ۔ اس طرح تمام منتقل شدہ علاقوں میں تین ہزار چائے کے باغات تیار کیے گئے۔ جو کھیت کی زمینیں تھیں اب وہ چائے کے باغات ہیں۔
تیستا منصوبہ جوکہ زراعت کے لئے شروع کیاگیاتھا، بے سود ہوگیا۔ اس میں چالیس ہزار ہیکٹر زمین کسانوں کے ہاتھ سے بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھ میں چلی گئی ۔ نیاضلع بنانے کے لیے آئین کے مطابق اصل فیصلہ صرف ریاستی حکومت ہی لے سکتی ہے۔ اس معاملے میں مرکزی حکومت کاکوئی کردار نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی بنگال میں کل 23موجودہ اضلاع ہیں ۔گزشتہ سال وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کابینہ کی میٹنگ میں فیصلہ کیاتھا کہ اس ریاست میں مزید 7اضلاع بنائے جائیں گے۔ شمالی 24پرگنہ ضلع کو اچامتی ، بشیرہاٹ ضلع میں تقسیم کیاگیاہے۔ باکوراضلع کو بشنوپور ضلع میں تقسیم کیاگیا۔ جنوبی 24پرگنہ ضلع کو سندربن ضلع میں تقسیم کیاگیا۔ نادیہ کورا ناگھاٹ ضلع میں تقسیم کیاگیا۔ مرشد آباد کو تین اضلاع میں تقسیم کیا گیاہے:کنڈی اور بہرام پور۔انتظامی حکمرانی کے پیش نظرپہلے ہی ہمارے شمالی دیناجپور ضلع میںاسلام پور کو پولیس ضلع کے طور بنادیا گیاہے۔ ریاست کی آبادی دن بہ دن بڑھ رہی ہے ۔ ریاست کی کل آبادی 10کروڑ ہے.ہر ضلع میں کم ا زکم موجودہ آبادی 45لاکھ ہے۔ترقی کی رفتار کو بڑھانے کے لئے پورے ملک میں بھی اضلاع کی تعداد میں اضافہ ہواہے۔2011میں اضلاع کی تعداد 605تھی۔ فی الحال یہ تعداد745ہے۔اسلام پور سب ڈویژن کی اتنی بڑی آبادی کی ضروریات اور اس کی ہمہ جہت پسماندگی کو دور کرنے کے لئے ضلعی تقسیم ضروری ہے۔ اگر انتظامیہ کو صحیح طریقے سے چلانا ہے اور ایمرجنسی سروسز کوبھی درست انداز میں فراہم کرناہے توہمیں اسلام پور کو بہ طور ضلع بناکر حکومت کو دینا ہوگا۔
چوتھی بات:  وہ لوگ جنہوں نے اپنی زبان ، ثقافت ، سرزمین اور سب کچھ کسی ریاست کی سالمیت کے تحفظ کے لیے قربان کردیا۔ اس علاقے کو ضلع نہ بنانا بہت ناانصافی کی بات ہے۔ جبکہ ہندوستان میں پنجاب اورمغربی بنگال کو 1836کے ایکٹ کے تحت یہ حق حاصل ہے کہ یہ دونوں ریاستیں مرکزی حکومت کی منظوری کے بغیر نئے اضلاع کا اعلان کرسکتی ہیں۔ہندوستانی آئین کے مطابق ایک خطہ کی اپنی ثقافت اور کم سے کم مسائل کوضلع کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 244(A)کے مطابق ایک مخصوص کمیونٹی کو انسانی زندگی کے حوالے سے ریزرویشن مل سکتا ہے۔ ہم لوگ ایک مخصوص کمیونٹی’’ سورجاپوری برادری ‘‘کے طور پرپہچانے جاتے ہیں ۔ لیکن آزادی کے 75سال بعد بھی کسی حکومت نے ہمیں کم سے کم اپنی پہچان نہیں دی۔
اسلام پور سب ڈویژن کو ضلع بنانے کا یہ مطالبہ کوئی نیا مطالبہ نہیں ہے۔ 21مئی 1959کو جب آنجہانی ڈاکٹر بدھان چندر رائے نے اسلام پور کو سب ڈویژنل شہر قرار دیا تو انہوں نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ انفراسٹرکچر تیار ہونے کے بعد پورے منتقل شدہ علاقے کو ہیڈ کوارٹر کے طور پر ایک نیا ضلع قرار دیا جائے گا۔ پھر گنگا میں سے بہت سا پانی بہہ گیا۔ اسلام پور سب ڈویژن کے سیاسی بازی گروں نے علاقہ فروش سیاست قبول کرلی ہے۔1985سے یہاں کے لوگ حکومت سے اپیل کر رہے ہیں کہ حکومت نے اس مطالبے کولے کر جو وعدہ کیاتھا، اسے پورا کرے۔ اس کے ساتھ 6ستمبر 1990 میںپارلیمنٹ کے اند دارجلنگ کے ایم پی عزت مآب اندر جیت کھلانے اسلام پور کوتمام منتقل شدہ علاقوں کے ضلع کے طور پربنانے کا مطالبہ کیا جس کا سوال نمبر4934مورخہ 6/9/1990 ہے۔اس سوال کے پیش نظرمرکزی وزارت داخلہ نے مغربی بنگال کے اس وقت کے وزیراعلیٰ جیوتی بوسو کو خط لکھاجس کا خط نمبرDO-S1602/21/90 SR ہے۔خط کے جواب میں ریاست کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اگلے مرحلے میں اسلام پور کو نیا ضلع قرار دیا جائے گا۔
مارچ 1992میں اسلام پور کونیا ضلع بنانے کے حوالے سے ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیاگیا۔ سماعت 31مارچ کوہوئی تھی۔ ہائی کورٹ نے اسلام پور کو ضلع قرار دینے کا دعویٰ قبول کرلیا،لیکن ریاستی حکومت کی جانب سے کوئی عمل در آمد نہیں ہوا،بلکہ ریاستی حکومت رائے گنج کو ضلع بنانے کے لئے جانب دار نظر آئی۔
اس قدیم مطالبہ کے لئے کچھ لوگ انفرادی یا اجتماعی طورپر جدوجہد کرتے رہے ہیں جیسے ایڈوکیٹ نجیب کی زیر قیادت سورجاپور ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن،باسط اور پشارول کی ٹرانسفر ایریاپیپل آرگنائزیشن (TAPO)،کرشنالال اور سبھاش چکربتی کی قیادت والی فیڈریشن آف اسلام پور ٹریڈرز آگنائزیشن ،آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ(شمالی بنگال و سیمانچل یونٹ) اور مسرورعالم کی رضاکمیٹی سمیت مختلف علاقائی تنظیمیں اپنے محدود اختیارات کے مطابق اس جدوجہد کو جاری رکھی ہوئی ہیں ۔ بنیادی طور پر جو لوگ اس جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں وہ سیاسی افراد یاکسی سیاسی پارٹی کے شراکت دار نہیں ہیں اور نہ وہ کسی سیاسی اقتدار میں ہیں۔
انجام کار اسلام پور کی سرزمین پر یہ لڑائی پھر شروع ہو گئی ہے جس کے لئے نئی نسل مکمل پرعزم ہے۔ وہ اپنے ماضی کی تاریخ اور محرومیوں کی تاریخ اپنے سامنے رکھتے ہوئے  اپنے مستقبل کے لئے فکر مند ہے۔ اس علاقے کے سابق ایم ایل اے علی عمران رمز(وکٹر) بھی قانون ساز اسمبلی کے اندر اور باہربھی اس مطالبے کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کراتے رہے ہیں ۔
یہ لڑائی پارٹی وابستگی سے قطع نظر تمام لوگوں کی ہے۔ہماری اپیل ہے کہ اسلام پور کی ہر سطح کے لوگ اس تحریک میں متحد ہوں۔ اسلام پور کے ایم ایل اے جناب عبد الکریم چودھری نے ایک اعلی انتظامی میٹنگ میںموجودہ وزیر اعلیٰ کی توجہ اسلام پور کو ضلع بنائے جانے کی طرف مبذول کرائی۔ لیکن وزیر اعلیٰ نے توجہ نہیں دی۔ ہماری ٹیم نے جناب کریم صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ یہ لڑائی کوئی ایک سیاسی پارٹی یا تنظیم نہیں لڑ سکتی۔ یہ لڑائی عوام کی لڑائی ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری ریاستی حکومت نے علی پور دوار، کالنگ پونگ، جھار گرام اورمغربی بردوان کو نئے اضلاع کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کا مزید نئے اضلاع بنانے کا بیان کبھی کبھار سامنے آتا ہے۔ بہرحال ریاستی وزارت داخلہ نے عوام پر حکومت کرنے کے لیے ریاست کو پولیس اضلاع میں تقسیم کیاہے۔ اسلام پور بھی اس میں شامل ہے۔ اس اسلام پور سب ڈویزن کے تحت پانچ بلاکس ہیںجو بالترتیب اسلام پور، چوپڑا، گوال پوکھر، چکلیہ اورکر ن دیگھی ہیں۔ دالکولہ اور اسلام پور میونسپلٹی اس سب ڈویژن کے تحت ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ کرن دیگھی کو سب ڈویژنل ہیڈکوارٹر اور اسلام پور کو ضلع بنایا جائے۔ اگر اسلام پور ضلع بنتاہے تو نو تشکیل شدہ ضلع ، علاقائی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکے گا۔ اس کے علاوہ انتظامیہ اس علاقے کی زبان اور ثقافت کا بھر پور تحفظ کر سکے گی۔
ہمارا مطالبہ یہ ہے:
٭ اسلام پور سب ڈویژن کو فوری طور پر ضلع بنایا جائے۔
٭ کرن دیگھی بلاک کو سب ڈویژن بنایا جائے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: