۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

مشتاق نوری

ملت واحدہ کی شکست کا مسئلہ

✍️ مشتاق نوری

___________________

فتح و شکست دو حریفوں کے مقدر کی بات ہے۔کسی کی فتح تو کسی کی شکست ہونی ہی ہے۔فتح عروج کا، شکست زوال کا دروازہ کھولتی ہے۔شکست و ریخت ایک بری نفسیاتی کیفیت ہے جس میں انسان کا اپنا کچھ بچتا نہیں ہے۔فتح غالب ذہنیت کی دریافت کرتی ہے۔اس  میں سب کچھ اختیار میں آ جاتا ہے۔اس فتح و شکست کے چھوٹے بڑے ہونے سے کیا فرق پڑتا یے یہ الگ موضوع ہے۔تاہم شکست کا فتح سے کوئی مقابلہ نہیں۔

یہ دور محض مذاہب کا نہیں، بلکہ مختلف تہذیبوں کے تصادم کا بھی ہے۔آج یہ بات اکثر سنی جاتی ہے کہ فلاں مذہب کا وجود خطرے میں ہے۔اس میں صداقت بھی ہے۔مذہب کے زوال کا مطلب ہے اس کے ماننے والوں کا ذہنی و قلبی ڈھانچے میں تبدیلی آجانا۔پہلے احساسات و جذبات میں اتھل پتھل واقع ہوتی ہے پھر رفتہ رفتہ اذہان کی وادیوں میں نئے معبد تعمیر ہوتے ہیں۔یہی فکری عروج و زوال کی ٹرننگ پوائنٹ ہے۔خارج میں کلیسا کو مسجد یا مسجد کو میکدہ بنانے میں پہلے ذہنی قبلہ تبدیل ہونا اہم ہے۔

یہ دور کسی تہذیب کے زوال کا، تو کسی کے عروج کا دور ہے۔مگر کوئی بھی تہذیب یوں ہی مٹ نہیں جاتی۔اس کی بربادی میں اہل تہذیب کی غیر دانشمندانہ پیش قدمی، غیر حکیمانہ اصول و ضابطے اور عاقبت نااندیشانہ مسائل کے ساتھ عوامی لاپرواہی و سرد مہری کا دخل بھی ہوتا ہے۔
اس میں وہی مذہب اپنی تہذیب کے ساتھ وجود برقرار رکھے گا جو عائلی و فروعی قسم کے مسائل میں الجھے بغیر پیش قدمی جاری رکھے گا۔حقانیت و روحانیت کے ساتھ اس کے دعات و مبلغین میں مرتبۂ کمال کا خلوص اور انتہا درجے کی جد و جہد ہوگی۔

دین و سنّیت کی کامیابی یہ نہیں کہ آپ چند لوگوں کو اہنا ہم خیال و ہم نوا بنا لیں۔اور ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد قائم کر کے اپنی اذان شروع کر دیں۔امت سازی و و ملی اسٹیٹس کی بحالی کے لیے انسان کو فل پروف پلان اور مستقبل ساز لائحۂ عمل تیار کر کے افرادی قوت کو تنظیمی شکل دے کر  مخلصانہ جد و جہد کرنا ہوگی۔جب ہی نتیجہ خیز حالات ممکن ہیں۔سب اپنی اپنی ڈفلی بجائیں، اپنا اپنا راگ چھیڑیں یہ کب ہو سکتا ہے کہ اس سے امت کو فائدہ پہنچے؟

دعات و مبلغین کی کثرت کے باوجود دنیا کا ایک بڑا حصہ اسلام کی آفاقی دعوت سے محروم ہے۔یا پھر دعوت پہنچی بھی تو وہ نبوی طریقۂ دعوت کے نقش و عکس سے یکسر خالی تھی۔داعیان اسلام قرآن کی حکمت و تزکیہ کے اوصاف کمال سے لبریز کردار پیش کرنے میں ناکام رہے۔دلوں کی دنیا گھن گرج خطابات سے نہیں، خوف خدا سے لبریز قال اللہ والی نرم و نازک گفتگو سے فتح ہوتی ہے۔مگر افسوس کہ آج دین کے حصار میں بیٹھا ہر شخص چند کتب پڑھ کر اپنا الگ مسئلہ لے کر بیٹھا ہے۔اکابرین علما فقہا کے اقوال پر خود کو راجح و مرجح جانتا ہے۔تعلقات خدا و رسول کے کمزور ہوتے لمحات میں، دینی جذبات کے سرد پڑتے حالات میں پند و نصائح سے مملو قول لین قول حسن قول معروف کے راستے ہی دین کی موثر دعوت ممکن ہے۔خطبا کا شور تو بس ماحول گرمانے کا ذریعہ ہے۔یہ کام مخلص علما ہی کر سکتے ہیں۔

یہ بہت عام سی بات ہے کہ ابتدائی درجے کے طلبہ کو بنیادی معلومات (basic knowledge)ہی بتائی سکھائی جاتی ہیں۔ایسا نہیں ہوتا کہ نحو کی ابتدائی کتاب کے بجاۓ کافیہ شرح جامی پڑھایا جاۓ۔یہ عقل سے دور کی بات ہوگی۔

ہماری مجالس و محافل کے وعظ و بیان اور مساجد کے خطاب کی ناکامی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے واعظ و خطیب "کلموا الناس علی قدر عقولھم” کی رعایت نہیں کرتے۔خانقاہ کا شیخ اپنی مجلس میں تصوف و معرفت کی باریکیاں سمجھا رہا ہے۔جمعہ کا خطیب منبر پہ نور اور ہدایت کے مختلف لغوی و شرعی معانی گنا رہا ہے۔جب کہ یہ دونوں ہی اپنے غیر محل میں ہونے کے سبب بے فائدہ ہیں۔بلکہ بعض اوقات مضر صحت ہیں۔مرض کچھ علاج کچھ۔نزلہ و بخار کے مریض کو کورونا کا antidote پر لکچر دینا عالم و عارف کی نہیں،جاہل کی علامت ہے۔
سامعین کی اکثریت کو نماز کی ضروری مسائل کا علم نہیں۔مسنون وضو کا طریقہ نہیں معلوم۔ایسے مخاطبین و سامعین کو معرفت و طریقت کی لطیف باتیں بتانا، نور و ہدایت کے معانی سمجھانا کہاں کا انصاف ہے۔

اسی طرح عوام الناس کے سامنے باغ فدک کا مسئلہ اٹھانا، افضلیت کا اشو کھڑا کرنا، معاویہ کی صحابیت پر تنقید کرنا، جنگ صفین کے دونوں گروہوں کے حالات پر بے باک تبصرہ کرنا، نئے سرے سے مسئلہ کذف کا باب کھولنا، ایمان ابو طالب پر تحقیق در تحقیق کے بعد مباحثہ چھیڑنا، مشاجرات صحابہ کو کریدنا یہ سب وہ مسائل ہیں، عوامی سطح ذہن جس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔یہ مسائل خواص تک رکھے جائیں۔ان مسائل کو اسٹیج کر کے تفرقہ و گروہ بندی کی صورتحال تو پیدا کی جا سکتی ہے، اتحاد و اصلاح کی سبیل نہیں نکالی جا سکتی۔اس سے فائدہ کچھ بھی نہیں، نقصان بہت۔

ہم آپ جیسے لوگ وقت کی رفتار اور اس کی چال کے دیرپا اثرات سے غافل ہوں گے مگر تاریخ ان چیزوں سے قطعا غافل نہیں۔آج ملک بھر میں افضلیت کے ایک غیر مطلوبہ مسئلہ کو اشو بنا دیا گیا۔اس کی آگ اتنی تیز تھی کہ سارے حلقہ بگوشان جھلسنے لگے۔یکے با دیگرے بے خطر اس دنگل میں کود پڑے۔سوال یہ ہے کہ کیا یہی وہ مناسب وقت تھا کہ ایسے مسئلہ کو سوشل میڈیا پر ہوا دیا جاۓ؟کیا ہمارے سماجی، سیاسی، تہذیبی و فلاحی مسائل حل ہو چکے؟

تاریخ کی نظروں میں یہ اہم نہیں کہ آپ ۲۱ ویں صدی کے ربع اول میں کس کس مسئلہ کے ساتھ محاذ آرا تھے۔تاریخ کے صفحات پر موٹے موٹے حروف میں ڈیجیتل پرنٹ کے ساتھ لکھا جاۓ گا کہ جب ہندوستان میں درگاہی سماج اور علما طبقہ کے مابین افضلیت کا مسئلہ نزاعی بنا ہوا تھا، دونوں باہم دست بہ گریباں تھے ایسے وقت میں ایک پرچی والا ہندو بابا عرب امارات فتح کر رہا تھا۔بھگوا سنسکرتی کی دہائی دے کر ہنومان چالیسا پڑھ پڑھ کر سنا رہا تھا۔
وہ عرب خطہ جس میں اصنام پرستی کے سارے نشانات کھرچ کھرچ کر پیغمبر نے مٹا دیئے تھے آج اسی خطے میں پھر سے اصنام پرستی کے مظاہر برپا کیے گئے۔کیا یہ علماۓ امت کے لیے غور و فکر کا موضوع نہیں؟ امارات کے شیوخ و عوام بت پرستانہ ماحول سے بغل گیر ہو رہے ہیں کیا یہ ہمارے لیے باعث قلق و کلفت نہیں؟اسلام کے کسی بھی مسلک، کسی بھی فرقے کے لیے اس سے زیادہ برا وقت اور کیا ہوگا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے وہ سب کچھ ہو رہا جس کی ذرا بھی گنجائش وہ ایک دوسرے کو دینے کے روادار نہیں۔

دوبئی کے بڑے عہدوں پر بیٹھے شیوخ پرچی والے بابا کی گاڑی کی ڈرائیونگ کر کے افتخار محسوس کر رہے ہیں۔اپنی لگژری گاڑی میں گھما رہے ہیں۔بالکل ہائی پروفائل انداز میں شاستری کو اعلی پروٹوکول دیا گیا ہے۔امارات کا شاہی مہمان بنایا گیا ہے۔
اگر اس کا عشر عشیر بھی ہمارے کسی عالم یا پیر کو مل جاۓ تو اس کے مریدین شور مچا دیں فاتح عرب امارات، شیر عرب، خطیب عرب، مہمان عرب۔یہاں جلسے پہ جلسہ کر کے لوگوں کے کان پھاڑ ڈالیں کہ بھیا ہمارے ہی شیخ یا ہمارے ہی مولانا صاحب فاتح عرب ہیں۔اسے قبول کرو ورنہ خیر نہیں۔

آج ہم میں سے زیادہ لوگ یہ کہ کر اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں کہ یہ عرب امارات والے یہودی النسل ہیں، یہ نبی کے باغی ہیں، دین سے جی بھر گیا ہے۔وغیرہ۔کیا ایسی باتیں کر کے ہماری ذمے داری ختم ہو جاتی ہے؟ اگر شیوخ عرب دین سے اوب گئے ہیں تو دینداری کی دعوت کہاں ہے؟ اگر مذہبی مغایرت کے باوجود مودی جیسا کٹر مسلم مخالف لیڈر عرب کی توحید پرست زمین کو ہندو اصنام پرستی کے لیے ہموار کر سکتا ہے تو ہمارے خانقاہی شیوخ اور سیاسی قیادت نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟ انہوں شیوخ کے دل و دماغ میں اسلام کو رچا بسانے کا نظم کیوں نہیں کیا؟ پیغمبر اسلام کی تعلیمات کو عام کیوں نہیں کیا گیا؟

آپ کو خبر ہے کہ یہ عرب امارات جو آج نئی نئی بلند بانگ عمارات کے لیے مشہور ہے اس کی بڑی آبادی کو پیغمبر کی سیرت اور عقائد اسلام کا ذرا بھی علم و یقین نہیں۔دین کے ہر فرقے کے لیے یہ شرمناک شکست ہے کہ اکیسویں صدی میں جب انڈیا سیکولرازم سے منہ موڑ کر ہندو سنسکرتی اور دیودی دیوتاؤں کی طرف رجوع کر رہا ہے ایک ایسے وقت میں کروڑوں علما و صوفیہ کے ہوتے عرب لبرلزم اور سیکولرازم سے بغل گیر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔بلکہ اسلام بیزاری کا عنصر زیادہ غالب ہے۔
یہ مودی کی لیڈرشپ اور ہندو تہذیب کی فتح کا آغاز باب ہے۔ابھی بتوں نے پاؤں پسارے ہیں کل کتنی زمین مانگیں گے وقت بتاۓ گا۔اور یہ شکست ہے ہر بالغ نظر فقیہ عالم کی،ہر متکلم کی،ہر جماعت کی، ہر مسلک کی، ہر فرقے کی۔شکست آخر شکست ہوتی ہے۔ملت واحدہ کی شکست، ٹکڑوں خانوں ذاتوں میں بٹے کروڑوں معبودوں کے پجاریوں کی فتح پر منتج ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: