Slide
Slide
Slide
ظفر امام قاسمی

جامعہ تحسین القرآن للبنات گسترہ

ابھی ننھا سا پوداہے،بڑا ہوگا تو پھل دےگا

✍️ ظفر امام قاسمی

دارالعلوم بہادرگنج، کشن گنج بہار

_________________________

      23/فروری 2024؁ء بروز جمعہ جامعہ تحسین القرآن للبنات گسترہ پورنیہ بہار کے سالانہ امتحان میں بطورِممتحن شرکت کی سعادت نصیب ہوئی، یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ محض ہماری مصروفیت کا خیال رکھتے ہوئے ادارہ کے مہتمم حضرت مولانا و مفتی دانش انور صاحب قاسمی مدظلہ العالی نے جمعہ جیسے عام تعطیل کے دن ادارے کے نونہالوں کا امتحان رکھا، اس پر حضرت کا میں بےحد شکر گزار ہوں، ساتھ ہی میں اُن طالبات و طلبہ کو بھی دادِ تحسین پیش کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنے کھیل کود اور دیگر تفریحی مشغولیات کو بالائے طاق رکھ کر بنا چیں بہ جبیں ہوئے نہ صرف یہ کہ شریکِ امتحان ہوئے؛ بلکہ پوری مستعدی اور تندہی کے ساتھ وہ آغازِ سحر سے لیکر شام ڈھلے تک مدرسے کی چہار دیواری کے اندر جٹے اپنے ادارے کے مہتمم کے اشارۂ چشم کے تابع بنے رہے۔
       مجھ ناچیز کے ساتھ بطورِممتحن شرکت کرنے والوں میں میرے کرم فرما اور دیرینہ محسن جناب حضرت مفتی عبدالغنی صاحب قاسمی مدرس مدرسہ صفات العلوم اورا نندنیاں، برادرِ بزرگوار جناب حضرت مفتی عبدالباری صاحب قاسمی صدر مدرس مدرسہ حزب المسلمین پوناس اور سرپرستِ محترم جناب ماسٹر مسرور انجم صاحب مدرس  دارالتربیہ والتعلیم للبنات کوہِ طور ہانڈی بھاسہ کے اسماءِ گرامی قابلِ ذکر ہیں، جن طالبات اور طلبہ کا امتحان مجھ ناچیز سے متعلق تھا، مجموعی اعتبار سے انہوں نے بہترین انداز میں اپنے جوابات دئے،آسان صرف ہو کہ آسان نحو، اردو زبان کی کتابیں ہوں کہ اَدعیۂ ماثورہ، ناظرہ قرآن ہو کہ نورانی قاعدہ کے قواعد، ہر ایک فن میں ان کی یادداشت قابلِ دادتھی، میں نے ان سے کئی کئی سوال کئے جن کے انہوں نے تشفی اور تسلی بخش جواب دئے، جوابات میں ان کی دادِ ہمت دیکھ کر میں عَش عَش کر اٹھا، مجھے ان کے جوابات میں ادارے کے مہتمم کا دیرینہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا ہوا نظر آیا اور یہ خیال یقین بن کر دل کے نہاخانوں میں گھر کر گیا کہ جب تک چٹائیوں پر بیٹھ کر نغمۂ قرآنی اور زمزمۂ یزدانی سے اپنے چمنِ دل کو آراستہ کرنے والی طالبات اور طلبہ کی یہ جماعت اِس کائناتِ اَرضی پر موجود رہےگی، تب تک اِسلامی تشخصات و امتیازات پر کوئی آنچ نہیں آسکتی۔
     گُسترہ گاؤں کا محلِ وُقوع خالص بدویانہ ہے، لڑکیوں کے مدارِس کی تو بات چھوڑئے، اس دیہی علاقے میں لڑکوں کے معیاری مدارس کی بھی خاصی کمی ہے، جس کی وجہ سے علاقے کے بچوں کا دینی تعلیم سے واسطہ نسبتاً کم ہے، مختصر تعداد میں لڑکے تو پھر بھی دُور دراز کے علاقوں میں جاکر دینی تعلیم کے زیور سے کسی طرح آراستہ ہوجاتے ہیں؛ مگر بےچاری لڑکیاں اِس تعلیم سے محروم رہ جاتی تھیں، اور پھر یہ حرماں نصیبی اُن کی زندگی کو محیط ہوتی تھی۔
     لڑکیوں کی اس حرماں نصیبی پر حضرت اقدس الحاج مفتی محمددانش انور صاحب قاسمی مدظلہ العالی کی گہری نظرتھی، عرصے سے آپ کے دل میں اپنے علاقے کی بچیوں کے لئے کچھ کر جانے کا جذبہ موجزن تھا، ہمیشہ آپ اس فکر میں مستغرق رہتے کہ کس طرح قوم کی ان بیٹیوں کو جہالت کی آماجگاہوں سے نکال کر علم و عرفاں کی گلستانوں تک پہونچایا جائے،کس طرح ان کے وجود کی کثافت کو علمی آبشاروں کی پھواروں سے زائل کیا جائے اور کس طرح ان کے زنگ آلود سینوں کو علومِ اسلامیہ کے لئے صیقل کیا جائے، اس کے لئے آپ کے دل میں طرح طرح کی تدبیریں آتیں،مگر پھر اگلے ہی مرحلے میں ساری تدبیریں بےدم ہوجاتیں، آخر کار آپ کو اس سلسلے میں مکتب کا قیام سب سے کارگر اور مؤثر ہتھیار نظر آیا اور آپ نے معہدتحسین القرآن کے نام سے 2011؁ء میں ایک مکتب قائم کیا۔
   شروع میں معہدتحسین القرآن بچوں کے لئے قائم کیا گیا تھا؛ مگر جیسا کہ میں نے درج بالا سُطور میں رقم کیا کہ اس علاقے میں لڑکیوں کے مدارس کی بالکل نایابی تھی، اس لئے گارجین حضرات کے تقاضے، بڑوں کے مشورے اور تعلیمی نظام کو اَرفع و اَکمل کرنے کے لئے اس معہد تحسین القرآن کو 6/جولائی 2022؁ء کو باضابطہ مدرسة البنات کا نام دے دیا گیا، اب یہ ادارہ جامعہ تحسین القرآن للبنات کے نام سے جانا جاتا ہے، تاہم ادارے میں اب تک لڑکیوں کے ساتھ چھوٹے بچوں کی بھی آمد و رَفت جاری ہے۔
    محض توکل علی اللہ پر قائم اس ادارے کے پاس اب تک نہ کوئی ذاتی زمین ہے اور نہ ہی اپنا کوئی مکان، حضرت مفتی صاحب کے بڑے بھائی کی اَدھوری عمارت پر ادارہ کا نظام چل رہا ہے، شروع میں ادارہ وہاں سے کچھ فرلانگ دُور ایک دوسرے مکان میں چل رہا تھا کہ اچانک ایک دن مالِکِ مکان نے کہہ دیا کہ: اَب آپ دوسری جگہ دیکھ لیں، میں اب اپنے گھر کو آباد کروں گا“ اور اس کے لئے مفتی صاحب کو محض پانچ دن کا وقت دیا گیا، یہ سن کر مفتی صاحب کے رونگٹے کھڑے ہوگئے، آپ کے پیروں تلے زمین کھسک گئی، اب کریں تو کیا کریں، جائیں تو کہاں جائیں؟ نہ کوئی پناہ ہے اور نہ کوئی پناہ گاہ، مفتی صاحب وہاں سے اٹھے، ٹوٹے من کے ساتھ گھر آئے اور دو رکعت نماز پڑھ کر پوری الحاح و زاری کے ساتھ اللہ کے سامنے اپنا دستِ سوال دراز کیا، دورانِ دعا آپ کا دل کرچیوں میں بکھرگیا، اس کے بعد آنکھوں میں آنسوؤں کا بند باندھ کر آپ اپنے گاؤں کی طرف نکلے اور جن سے جو کہا، ہر ایک نے آپ کی بات پر لبیک کہا، آپ کو پریشان دیکھ کر آپ کے بڑے بھائی نے آپ سے کہا: مفتی صاحب گھبرانے کی ضرورت نہیں، فی الحال میرا ارادہ اپنی اس ادھوری عمارت کو آباد کرنے کا نہیں ہے،آپ جب تک چاہیں اس گھر کو مرمت کرکے اپنے ادارے کے لئے استعمال کریں“ یہ سنتے ہی آپ کی جان میں جان آئی، بےساختہ آپ کی پلکیں ربِ بےنیاز کی چوکھٹ پر ادائیگئ شکر کے لئے جھک گئیں، تب سے اب تک آپ کا ادارہ اسی مکان میں چل رہا ہے۔
    مگر مفتی صاحب کی نفاست کے کیا کہنے کہ ابھی اس مکان کو ادارے کے لئے موزوں بھی نہیں کہا جا سکتا اس کے باوجود مفتی صاحب کا ہر کام نہایت منظم اور مستحکم انداز میں ہوتا ہے،آپ کے پاس نہ کوئی عملہ ہے اور نہ کوئی کارندہ، آپ تنہا ہی ادارے کی دیکھ ریکھ بھی کرتے ہیں اور ایک منظم انداز میں ادارے کو نئی سمت دے رہے ہیں، اور کیوں نہ ہو کہ حضرت مفتی صاحب بذاتِ خود ایک علمی شغف رکھنے والے نفیس شخصیت کے مالک انسان ہیں، خدائے ذوالجلال نے آپ کو اپنے بےبہا خزینہ سے علم و فن کا ایک وافر حصہ عطا کیا ہے، آپ جہاں زبان و بیان کے تاجور ہیں وہیں قلم و قرطاس کے شہسوار بھی، آپ کی شاعری جہاں فصاحت و بلاغت کے ساگر میں ڈوبی ہوتی ہے، وہیں آپ کے نثرپاروں میں سیلِ رواں کی جھلک نظر آتی ہے، آپ کی علمی قابلیت کے لئے اتنی شہادت کافی ہے کہ فتاوی کی شہرۂ آفاق اور مرجعی کتاب ”فتاویٰ تاتارخانیہ“ پر جب ہندوستان کے مفتیوں کی اولین صف میں شامل شاہی مرادآباد کے صدر مفتی حضرت الاستاذ مفتی شبیر احمد صاحب قاسمی نے تخریج و تعلیق کا کام شروع کیا تو اُس وقت حضرت مفتی دانش صاحب بھی اُسی درسگاہِ افتاء کے خوشہ چیں تھے، درجنوں کے ان باصلاحیت طلبہ میں حضرت الاستاذ کی نگاہِ انتخاب جن خوش نصیب طلبہ پر پڑی ان میں ایک نام حضرت مفتی دانش صاحب کا بھی تھا، آپ نے نہایت محنت اور کاوِش کے ساتھ اس وَقیع کام کو انجام دیا، آج بھی فتاوی تاتارخانیہ کے” اظہارِ تشکر“ والے کالم میں مفتی دانش صاحب کا نام جلی حرفوں میں درج ہے، اور اِن شاء اللہ اس وقت تک درج رہےگا جب تک یہ سورج چاند رہےگا، میں اس بات سے قطعی لاعلم تھا، ابھی ستمبر 2023ء کے مہینے میں ٹھیکری باڑی کے سیمینار کے موقع پر جب آپ نے مجھے اس بات سے آگاہ کیا تو جہاں میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا وہیں درمیانِ کلام مفتی صاحب یہ کہتے ہوئے کہ: اپنے پاس یہی تو ایک سرمایہ ہے “ خود کو روہانسا ہونے سے نہ روک سکے۔
      آپ بیک وقت ایک کامیاب مدرِّس بھی ہیں اور تجربہ کار مربی بھی،عرصے تک آپ نے آسام سے لیکر سیمانچل کے نامور ادارہ جامعہ حسینیہ مدنی نگر کشن گنج میں تدریسی خدمات انجام دیں، اس عرصے میں ابوداؤد و طحاوی شریف، شرح تہذیب ودروس البلاغہ، سلم العلوم و میبذی، شرحِ جامی و کافیہ اور عربی زبان و ادب کی دیگر کتبِ متداولہ آپ کے زیرِ درس رہیں، آپ کا درس اس قدر شاندار اور پُراَثر ہوتا کہ طلبہ کی جماعت اس سیل رواں میں بہتی چلی جاتی، آپ کی باتیں شیرینی اور شگفتگی کا ایسا مرقع ہوا کرتیں کہ سماعت عش عش کر اٹھتی، آپ کا علمی اور دلگداز بیان مجھ ناچیز کو بھی بارہا سننے کا موقع ملا ہے اور ہر بار میری آنکھوں نے اَشکوں کے موتی پرویا ہے، اپنے علاقے کے جن چند علماء کا علمی تفوق اور عملی کمال میرے دل میں پیوست ہے ان میں ایک نام حضرت مفتی محمد دانش انور صاحب قاسمی کا بھی ہے، خدا آپ کو سلامت رکھے۔
      الغرض جامعہ تحسین القرآن للبنات ابھی اپنے دور کے آغاز ہی میں ہے، ابھی اس کے پاس اپنا ذاتی مکان بھی نہیں ہے، اس کے باوجود ادارے کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ سینکڑوں طالبات اس چشمۂ فیض سے سیراب ہو رہی ہیں، یہ سب حضرت مفتی صاحب کے اِخلاص اور آپ کے جذبۂ کمال کا ثمرہ ہے، ادارے میں امسال 135 طالبات زیرِ تعلیم رہیں جن میں سے اَٹھارہ بیس طالبات ہاسٹل میں مقیم تھیں، ان طالبات کو سنوارنے کے لئے آٹھ معلمین و معلمات کی شبانہ روز کی محنت کارفرما رہی۔
     طالبات کا کثیر تعداد میں ہونے کی وجہ سے شام ڈھلے جاکر امتحان کا سلسلہ ختم ہوا؛ مگر ابھی ایک کڑی باقی تھی اور وہ مسابقہ کی کڑی تھی، مجھے کہیں اور جانا تھا اس لئے میں نے معذرت کرلی،پھر بھی چھوٹی عمر کی طالبات کا مسابقہ میرے لئے نصیبے میں آیا،یہ چند طالبات تھیں جن کے حفظ سورة کا مجھے جائزہ لینا تھا،بحمداللہ ان چھوٹی طالبات نے نہایت اچھوتے انداز میں تلاوتِ قرآن کا مظاہرہ کیا،اس فرع میں شامل حضرت مفتی صاحب کی منجھلی صاحبزادی جویریہ مریم کسی عذر کی بناء پر غیر حاضر تھی،جس کا ایک دن کے بعد ویڈیو کالنگ کے ذریعے جائزہ لیا گیا،ننھی سی جویریہ مریم کی قرأت سے سماعت جھوم اٹھی،جویریہ مریم نے دوسری پوزیشن حاصل کی،بڑی طالبات اور طلبہ کے مسابقے کے لئے حکم حضرت مفتی عبدالغنی صاحب قاسمی اور حضرت مفتی عبد الباری صاحب منتخب ہوئے، یہ مسابقہ کئی فروعات پرمشتمل تھا، میں نے بھی کچھ طالبات کے پروگرام سنے، ہائے! کیا لاجواب انداز تھا ان کا، امتحان لینے کے بعد جو خوشی ملی تھی طالبات کے اس مسابقتی پروگرام نے میری اسی خوشی کو دوبالا کردیا، ان ٹھیٹھ دیہاتنوں کے عمدہ تقریری مواد، دلنشیں انداز، ٹھوس ادائیگی اور قابلِ داد ہمت نے مجھ پر گہرا اثر کیا، اگلے دو دن کے بعد ادارہ کی جانب سے ایک انعامی پروگرام کا انعقاد کیا گیا، جس میں اکابرین کے ہاتھوں سے ان تمام طالبات کو حسبِ مراتب گراں قدر انعامات سے نوازا گیا، جس نے پورے سال ایک بھی غیر حاضری نہیں کی؛ یا کافی حد تک سبق کے ناغہ سے بچنے کے لیے حاضری کا اہتمام کیا۔
    امتحان کے اس موقع پر حضرت مفتی صاحب کی جانب سے شاندار اور پرلطف ضیافت کا بھی اہتمام کیا گیا، انواع و اقسام کے لذیذ کھانوں سے ہماری خوب آؤ بھگت کی گئی، جس کی لذت اب تک زبان کے ایک گوشے میں موجود ہے۔
   دعا ہے کہ اللہ پاک حضرت مفتی صاحب کی محنت کو قبول فرمائے، ادارے کو دن دوگنی رات چوگنی ترقیات کی دولت سے سرفراز کرے، رمضان بعد نئی جگہ پر ادارے کا  کام کرنے کا ارادہ ہے، اللہ پاک اس کو بارآور بنائے، اور اس کے فیض سے عالم کو فیض یاب کرے۔ آمین

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: