✍️ شکیل رشید، ایڈیٹر ممبئ اردو نیوز
____________________
آج میں دو بہت ضروری باتوں کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا ۔ پہلی بات بقرعید کے موقع پر حصے والی قربانی کے تعلق سے ہے ۔ اِن دِنوں جس مسلم محلے اور گلی میں نکل جائیں ، دور دراز کے سفراء مدارس رسیدیں لیے بیٹھے مل جائیں گے ، اور لوگ رسیدیں کٹاتے ہوئے بھی نظر آ جائیں گے ۔ اچھی بات ہے کہ بہت سارے مدارس ، قربانی کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا کر ، اُن افراد کی مشکلات ، جو قربانی کروانا تو چاہتے ہیں ، لیکن قربانی کے لیے ضروری سہولیات سے محروم ہیں ، یا جو بکرا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں یا جو پورا جانور نہیں خرید سکتے ، رفع کر دیتے ہیں ۔ اللہ رب العزت اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے انجام تک پہنچانے والے سفراء کو اور مدارس کے ذمہ داروں کو جزائے خیر دے ، آمین ۔ اب آتے ہیں حصے والی قربانی کے بھاؤ کی طرف ۔ ان دنوں کہیں کہیں ایک حصہ 1800 میں ہے تو کہیں کہیں 1600 سو میں ۔ بعض ادارے 1400 میں بھی حصہ دے رہے ہیں ! کسی کی نیت پر کسی بھی طرح کا شک کیے بغیر یہ سوال پوچھنا چاہوں گا کہ کیا مہنگائی کے اس دور میں حصے کی یہ رقومات کسی بھی طرح مناسب لگ رہی ہیں؟ اگر 1800 فی حصہ کا حساب لگایا جائے تو ایک جانور 12600 میں پڑتا ہے ۔ کیا واقعی جانور اتنے سستے ہو گیے ہیں؟ سفراء دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اڈیشہ ، بہار یا مغربی بنگال میں قربانیاں کراتے ہیں ۔ بھئی کیا یہ ریاستیں ملک سے باہر ہیں ! مہنگائی سب جگہ ، پورے ملک میں یکساں ہے ۔ کچھ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بنگال میں سفید گوشت کراتے ہیں ! تو سوال یہ ہے کہ کیا تمام مدارس کی قربانیاں مغربی بنگال میں ہوتی ہیں؟ اور ایک بنگال میں کتنے سفید گوشت کی قربانیاں ممکن ہیں ! یہ سوال غور کرنے کے ہیں ۔ یہ سوالات میں نے اس لیے اٹھائے ہیں کہ میرے سامنے کئی شکائتیں آئی ہیں ، کئی لوگوں نے اس تعلق سے کچھ معلومات دی ہیں ؛ ایک مثال پیش ہے ۔ یو پی کے ہمارے ایک عالم دوست ہیں ، اُن کے مدرسے میں بھی قربانی کا نظم ہے ، وہ بات چیت کے دوران بتانے لگے کہ : ’’ بہت پہلے جو جانور لائے گیے تھے وہ تو کافی سستے پڑے لیکن اُن پر بھی فی حصہ 3000 روپیے سے کم کی لاگت کا آنا ممکن نہیں ہے ، اور بعد میں جو جانور لائے گیے وہ مہنگے پڑے اور بہت کھینچ تان کر ان پر 3500 روپیہ حصہ لگایا گیا ۔‘‘ وہ الہ آباد کے ایک مدرسے کا قصہ سنانے لگے کہ وہاں 1600 روپیہ حصہ ہے ! تحقیق کے لیے انہوں نے اپنے ایک شاگرد کو وہاں بھیجا تو پتہ چلا کہ جو جانور لائے گیے ہیں وہ بہت مدقوق ، کمزور اور لاغر ہیں اور دو سال کی عمر کا کوئی جانور نہیں ہے ، اور اگر دو سال میں ایک دن کم کا بھی کوئی جانور ہو تو قربانی نہیں ہوتی ، یعنی قربانی کرا کر بھی کچھ حاصل نہیں ہوپاتا ۔ انہوں نے الہ آباد ہی کے ایک مفتی صاحب سے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ تو جواب ملا ، کیا کریں لوگ مانتے ہی نہیں ۔ بعد میں پتہ چلا کہ مفتی صاحب کے مدرسے میں بھی اسی طرح کے جانور ہیں ، 1600 والے ۔ قربانی سال میں ایک بار کرنا ہوتی ہے تو کیوں نہ ساری احتیاط کو برتتے ہوئے یہ فریضہ ادا کیا جائے؟ فربہ اور صحت مند جانوروں کی قربانی کا حکم ہے ، تو کیوں نہ اس حکم کی تعمیل کی جائے ؟ پیسہ بھی جائے اور قربانی کا فریضہ ادا تک نہ ہو ، کیسی افسوس کی بات ہے ! ایک بات اور کرنا تھی لیکن پہلی بات ہی نے پورا کالم لے لیا لہذا اس پر کبھی آئندہ بات کریں گے ، موضوع ہی ایسا ہے کہ بات کرنا ضروری ہے ۔ موضوع جان لیں ؛ مسلم تنظیموں ، جماعتوں اور اداروں میں کرپشن ، بے ایمانی اور بدعنوانی ۔ دلچسپ کہہ لیں یا انتہائی افسوس ناک کہہ لیں پر یہ سچائی ہے کہ کرپشن ، بدعنوانی اور بے ایمانی میں ایسے ایسے لوگ ملوث ہیں کہ جان کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں ۔ ذمے داران بھی لوٹ پاٹ سے آنکھیں پھیرے رہتے ہیں ؛ شاید اس لیے کہ ان کے ہاتھ بھی صاف نہیں ہیں ۔ اللہ مسلم تنظیموں ، جماعتوں اور اداروں کو لُٹیروں سے محفوظ رکھے ، آمین ۔