کیا ہے غزوۂ ہند کی حقیقت؟
✍️ آفتاب رشکِ مصباحی
شعبہ فارسی، بہار یونیورسٹی، مظفرپور
______________
دنیا میں خیر و شر اور امن و فساد کا بازار ہمیشہ گرم رہا ہے۔ لیکن انسانوں کی بڑی آبادی خیر اور امن کے ساتھ زندگی گزارتی چلی آئی ہے۔ پوری تاریخ انسانی میں ایک دن کیا، ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا کہ انسانی آبادی کی اکثریت نے کبھی خیر اور امن کے مقابلے میں شر اور فساد کو پسند کیا ہو۔ انسان فطرتاً خیر اور امن پسند واقع ہوا ہے اور اسی طرح زندگی گزارنا پسند بھی کرتا ہے۔ ہاں! بسا اوقات اسے کچھ ایسے اقدام کرنے پڑ جاتے ہیں جو بظاہر قتل و قتال نظر آتے ہیں، مگر قیام امن اور انسانی فلاح و بہبود کے لیے وہ ناگزیر ہوتے ہیں۔ ایسے اقدامات ہر مذہب اور ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ لا اِن آرڈر کی درستگی کے لیے مجرم کو سزا دینا اور اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنا شر و فساد نہیں ، بلکہ سراپا عدم و انصاف ہے ہے۔ اسلام اسی خیر و صلاح اور قیام امن ِ انسانی کے لیے جہاد کو ایک سبب اور ذریعہ کے طور پر بیان کرتا ہے۔ انسانی سماج میں شر و فساد اور ظلم عام کرنے کے لیے نہیں، بلکہ ظلم و طغیان اور شر و فساد کے خاتمہ کے لیے کیا جانے والا اقدام جہاد ہے۔ چناں چہ اسلامی تاریخ میں خود پیغمبر اسلام علیہ السلام نے اپنے دور کے موجود ظلم و فساد کے خلاف جہاد کیا، صحابہ کو جہاد پر بھیجا اور جہاد سے متعلق احکام بیان کیے۔ بلکہ آنے والے وقتوں کے احوال بھی بیان کیے۔ ہاں! یہ اور بات ہے کہ پیغمبر کی طرف منسوب کر کے بعض لوگوں نے اپنے مطلب کی باتیں بھی بیان کیں جسے عامی لوگوں نے پیغمبر کی بات اور حدیث سمجھ لیا۔ اور بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ پیغمبر علیہ السلام نے کوئی بات کسی خاص پس منظر میں کہی جسے چالاک لوگوں نے اپنے مزاج و مقصد کے مطابق بیان کر کے سماج میں انتشار و افتراق کی فضا ہموار کرنے کی خوب کوشش کی۔ ایسی ہی چیزوں میں سر فہرست ’’ غزوۂ ہند‘‘کا نام لیا جا سکتا ہے۔ جسے بنیاد بنا کر بعض شدت پسندوں اور سیاسی چال بازوں نے ہندوستان جنت نشان کے اکثریت والی آبادی کو یہاں کی سب سے بڑی اقلیت مسلم کمیونیٹی کے خلاف ماحول بنانے کی کوشش کی ۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نیز عوامی مجلوسوں کے سہارے اتنا پروپگنڈہ کیا گیا کہ مانو کل پرسو ہی میں یہاں کے مسلمان یہاں کی اکثریت کا خاتمہ کر دیں گے۔ اس طرح کے مسلسل پروپگنڈے کا اثر یہ ہوا کہ اکثریت طبقہ کی ایک بڑی آبادی کسی حد تک مسلاموں کو اپنا دشمن اور غزوۂ ہند کا جہادی سمجھنے لگی۔ ایسے میں ضرورت تھی کہ یہاں کی اکثریت کو بھی اور خود بعض بھٹک رہے مسلم نوجوانوں کی درست تفہیم کے لیے بھی غزوۂ ہند کے موضوع پر کھل کر لکھا جائے اور بولا جائے تاکہ اس کی حقیقت سے لوگ واقف ہوں اور کسی بھی پروپگنڈے کے شکار ہو کر نہ اپنا نقصان کریں ، نہ ملک عزیز بھارت کو کوئی زک پہنچائیں۔
مبارک باد کے مستحق ہیں خسرو فاؤنڈیشن کے کنوینر جناب ڈاکٹر حفیظ الرحمن صاحب جنھوں نے اہل علم و دانش کے مضامین جمع کر کے خسرو فاؤنڈیشن نئی دہلی سے اسی سال 2024ء میں بیک وقت دو الگ الگ زبانوں ہندی اور اردو میں ایک بہترین کتاب: کیا ہے غزوۂ ہند کی حقیقت؟ شائع کی ۔ اس وقت میرے پیش نظر اس کتاب کا اردو ورزن ہے۔ 78/ صفحات پر محیط یہ کتاب پیش لفظ اور اخیر میں خسرو فاؤنڈیشن کے تعارف کے علاوہ آٹھ مضامین پر مشتمل ہے۔ پہلا مضمون ڈاکٹر محمد فاروق خان کی کتاب : جہاد و قتال: چند اہم مباحث – سے بطور تلخیص غزوۂ ہند کی روایات کا جائزہ کے عنوان سے ہے جس کی ترتیب و تلخیص ذکوان ندوہ صاحب نے کی ہے۔ اس مضمون میں دینی تعلیمات کا منبع قرآن و حدیث کو بتایا گیا ہے۔ مزید یہ وضاحت کی گئی ہے کہ قرآن تمام تر شک و شبہات سے پاک ایک لاریب کتاب ہے ، مگر احادیث کا معاملہ اس سے قدر مختلف ہے۔ قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری رب کائنات نے خود اپنے ذمۂ کرم پر لے رکھی ہے جس کی وجہ سے اس میں ایک حرف کی تبدیلی یا رد و بدل کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن احادیث کے ذخائر میں یہ امکان بہر حال موجود تھا کہ لوگ اپنی باتیں بھی پیغمبر علیہ السلام کی طرف منسوب کر کے بیان کر جائیں اور بعد کے لوگ انھیں حدیث سمجھ بیٹھیں اور اہل علم جانتے ہیں کہ احادیث کے ساتھ ایسا ہوا بھی ہے۔ لیکن دین کے مآخذ چوں کہ یہی قرآن و حدیث ہیں اس لیے اللہ نے ایسا نظام برپا کیا کہ پیغمبر کی حدیث اور دوسروں کی ملاوٹ کو واضح طور پر الگ کیا جا سکے۔ چناں چہ نقد و جرح اور اسماء الرجال کا علم عام ہوا جس کی بنیاد پر ذخائر احادیث سے ایسی تمام باتوں کو الگ کیا گیا جو قرآن کی واضح تعلیمات یا مزاج رسول کے خلاف تھیں۔غزوۂ ہند سے متعلق اس مضمون میں پانچ روایتوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ جن میں درمیانی تین حضرت ابو ہریرہ سے، پہلی حضرت ثوبان سے جب کہ آخری کعب سے مروی ہے۔راویوں کے حالات پر گفتگو کرتے ہوئے مضمون نگار نے ان ساری روایتوں کو ناقابل دلیل قرار دیا ہے۔ مزید ان روایتوں میں جو الفا ظ آئے ہیں ان کا تاریخی اور جغرافیائی تجزیہ کرتے ہوئے اور انھیں دینی مزاج و تعلیمات کے متضاد قرار دیتے ہوئے بھی ناقابل التفات ٹھہرایا۔
دوسرا مضمون اے فیض الرحمن کا غزوۂ ہند : ایک تجزیاتی مطالعہ کے عنوان سے ہے۔ اس مضمون میں یہ بتایا گیا ہے کہ 2003ء میں غزوہ ہند کے نام پر ہندوستانی تحقیقاتی ایجنسی نے ہندوستان کی تین ریاستوں بہار، اترپردیش اور گجرات میں چھاپے مارے۔ اور پھر اسی زمانے سے غزوۂ ہند کا تصور یہاں کے ہندو قوم پرستوں کے ذہنوں پر سوار ہو گیا جس کا اظہار وقتا فوقتا وہ اپنے بیانوں، تحریروں میں کرتے رہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ ان کا الرٹ رہنا بے بنیاد بھی نہیں تھا۔القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس کے بیانوں اور بعض ہندوستان دشمن تنظیموں کے ذریعہ کیے جانے والے اقدامات نے یہاں کی اکثریت کو چوکنا ہونے پر مجبور کیا۔مگر یہاں کے مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے ملک عزیز بھارت سے ٹوٹ کر محبت کی ہے، یہاں کے باشندوں سے انھیں پیار ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لاکھ مذہبی لبادے میں انھیں شر و فساد اور غزوۂ ہند کے نام پر اکسایا گیا ، لیکن بھارت کے مسلمانوں نے اس طرح کی بے بنیاد باتوں کی طرف کبھی توجہ ہی نہیں کی۔ اور نہ یہاں کے مسلمان کبھی اس طرح کی چیزوں میں ملوث ہو سکتے ہیں جس کا اعتراف خود وزیر اعظم ہند شری نریندر مودی اور جناب راج ناتھ سنگھ کو بھی ہے۔
اگلا مضمون جناب وارث مظہری کا ہے۔ انھوں نے غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کا ضعف واضح کرتے ہوئے اس طرح کی چیزوں کو نام نہاد جہادی گروہ کا اسلام پر ظلم قرار دیا ہے۔ آج جب کہ نہ صرف ہند و پاک ، بلکہ پوری دنیا جمہوری طرز زندگی اور آپسی خیر سگالی کے ساتھ جی رہی ہے ایسے میں مذہب کے نام پر ، جہاد کے نام پر کسی ملک کے امن عامہ کو تباہ کرنے کی بات جو لوگ بھی کر رہے ہیں وہ خوارج کی طرح ہیں جن کے متعلق پیغمبر علیہ السلام کی یہ پیشین گوئی ہے کہ وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ گویا وارث مظہری نے اپنے مضمون کے ذریعہ یہ واضح کرنی کی کامیاب کوشش کی ہے کہ اس طرح کی فکر رکھنے والے لوگ اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ مزید تاریخی اعتبار سے بھی انھوں نے یہ بات کہی ہے کہ اگر کسی اعتبار سے غزوۂ ہند والی بات تسلیم بھی کر لی جائے تو وہ آج سے چھ سات سو سال پہلے ہو چکا ہے۔ موجودہ زمانے میں تو اس کا اطلاق کسی صورت درست نہیں ہو سکتا۔ مفتی اطہر شمسی نے غزوۂ ہند کو قرآنی تصور قتال کے مغائر بلکہ متصادم قرار دیتے ہوئے اس پورے قضیہ ہی کو موضوع اور فرضی بتایا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اسلام میں جنگ ہمیشہ دفاعی رہی ہے، اقدامی جنگ کا اسلام میں کوئی تصور ہی نہیں ہے جب کہ غزوۂ ہند سے متعلق روایات میں اقدامی جنگ کی بات کی گئی ہے۔ مولانا کلب رشید رضوی نے موجودہ ہندوستان میں غزوۂ ہند کی فضا کو ٹی وی میڈیا کا پروپگنڈہ بتاتے ہوئے کچھ نام نہاد ٹی وی پر آنے والے مسلم علما کی مجرمانہ خاموشی کا نتیجہ ٹھہرایا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ہمارے کچھ لوگ بنا کسی تیاری کے ٹی وی پر چلے جاتے ہیں اور اسلام کی درست ترجمانی نہیں کر پاتے جس کا فائدہ دوسرے لوگ اٹھا کر یہاں کی اکثریت کو مسلمانوں کے خلاف کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اس لیے وہ لوگ جو کسی ایسے موضوع پر بات کرنے کے لیے جائیں جس کا ادنی تعلق بھی اسلام سے ہو تو نہایت تحقیقی طور پر بھرپور مطالعہ کے ساتھ جائیں اور مضبوط بات ہی رکھیں۔
عبد المعید ازہری صاحب اپنے مضمون: غزوۂ ہند کا انتظار کس کو ہے؟ میں لکھتے ہیں کہ میں نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامک یونیورسٹی جامع ازہر مصر سے تعلیم حاصل کی ہے وہاں کبھی کسی استاد سے ہندوستان میں غزوۂ ہند سے متعلق کوئی بات نہیں سنی۔ حالاں کہ اگر مستقبل میں یہاں کسی ایسی جنگ کی بات کہیں بھی کسی اسلامی ذخیرے میں ہوتی وہ وہ ضرور اس کا کبھی نہ کبھی ذکر کرتے ۔ انھوں نے یہ بھی صراحت کی ہے کہ جن لوگوں کا بھی یہ نظریہ ہے وہ ان کا اپنا سیاسی نظریہ ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہند و پاک کو امن و امان سے رہنے دینا نہیں چاہتے ہیں۔ وہ یہاں کے زمینی مسائل تعلیم، سیاسی و معاشی استحکام اور تجارتی مشارکت جیسے ایشوز سے ہٹا کر لوگوں کو غزوۂ ہند جیسے بے تکی چیزوں میں الجھا کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جن مخصوص گروہ کے لوگ اس کی وکالت کر رہے ہیں انھوں نے دوسروں کو کیا خود مسلمانوں کو ٹکڑوں میں بکھیر رکھا ہے۔ وہ اسلام کی صوفیانہ روایت: بقائے باہم کے خلاف نفرتوں کو بڑھاوا دینا چاہتے ہیں جن سے بہر حال سب کو بچنا چاہیے۔
ڈاکٹر روشیکا اروڑہ جن کی زندگی نے تین بر اعظموں: امریکہ، یوروپ اور ہندوستان کی فضا کو گہرائی سے دیکھا ہے۔ پہلی بار وہ ’’سیگرڈ گیمز‘‘ نامی ہندوستانی ویب سیریز کے ذریعہ غزوۂ ہند کی اصطلاح سے واقف ہوئیں۔ اس کے بعد انھوں نے اس حوالے سے تحقیقات شروع کی تو انھیں معلوم ہوا کہ یہ باضابطہ ہندوستان کے خلاف شازش کے طور پر مذہبی نقطہ نظر سے بعض عناصر استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے ذریعہ انتہا پسند تنظیمیں تشدد کو بھڑکانا چاہتے ہیں۔ حالاں کہ حدیث کی چھ مستند ترین کتابوں میں سے پانچ کتابوں میں غزوۂ ہند کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ ایک میں ہے اور وہ بھی ضعیف اور کمزور روایت ہے۔ گویا غزوۂ ہند ایک جھوٹی داستان کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انھوں نے مزید لکھا کہ بحیثیت ہندو میں اس نظریہ سے کبھی بھی خوف زدہ نہیں ہوئی اور نہ مجھے کسی قسم کا کوئی خطرہ محسوس ہوا۔ انھوں نے اس پروپگنڈے کو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے نفرت کا ذریعہ بتایا جو بہر حال ہندوستان کے لیے بہتر نہیں ہے۔ انھوں نے مزید اس بات پر زور دیا ہے کہ ہم دوسروں کی بنائی نفرتی جال کے شکار ہو کر خود کہاں جا رہے ہیں اور اپنا اور اپنے ملک کا کتنا نقصان کر رہے ہیں اس پر غور کرنا ہمارا اولین فریضہ ہونا چاہیے۔ اخیر میں خسرو فاؤنڈیشن کا تعارف کراتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے لکھا کہ ہندوستان جو کبھی خیر سگالی اور آپسی بھائی چارے کی مثال تھا نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ یہاں محبت کی جگہ نفرتوں ڈیڑے ڈالنے شروع کر دیے۔ ایسے میں ضرورت تھی ایک ایسے ادارے کی جو اپنی مطبوعات کے ذریعہ یہاں کی فضا کو پھر سے محبت آگیں کر سکے۔ ہندوستان کو پھر سے محبتوں کے گیت گانے اور تمام ہندوستانیوں کے درمیان محبت کو عام کرنے کی غرض سے خسرو فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیا تاکہ اس کے ذریعہ صالح مواد لوگوں تک پہنچے اور ایک خوش گوار فضا پھر سے ہموار ہو سکے۔ چناں چہ اب تک یہاں سے کئی اہم ایسی ہی کتابیں شائع ہو کر قارئین سے داد تحسین وصول کر چکی ہے اور مستقبل میں بھی ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہےگا۔ 78/ صفحات کی یہ کتاب نہایت دیزہ زیب اور خوب صورت انداز میں شائع ہوئی ہے۔ جس کی قیمت 100/ روپیے ہے۔ جسے آپ خسرو فاؤنڈیشن نئی دہلی سے حاصل کر سکتے ہیں۔