۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

تابندہ نقوش

✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

_________________

حضرت مولانا بدر الحسن قاسمی، سابق استاذ دار العلوم دیو بند وسابق مدیر الداعی، درجنوں اداروں، تنظیموں کے ذمہ دار اور رکن،حال مقیم کویت کا شمار علمی، ادبی اور فقہی شخصیات میں ہوتا ہے، اللہ رب العزت نے انہیں، عربی، اردو زبان وادب پر تقریری وتحریری قدرت دی ہے، فقہ پر ان کی نظر گہری ہے اور اس موضوع پر بھی ان کے مقالات مطبوعہ شکل میں موجود ہیں، انہوں نے اپنے تجربات ومشاہدات کوبھی قلم بند کیا ہے، جو مطبوع اور مقبول ہے، بیٹے ماں اور شریک حیات کی جدائی پر ان کی کتاب ”اشکوں سے بھرا دامن زخموں سے بھرا سینہ“ قارئین کی آنکھوں میں اشکوں کی برسات لے آتی ہے، اور دل وہ ٹیس محسوس کرتا ہے جو زخموں سے بھرنے کی صورت میں فطری طور پر پیدا ہوتی ہے، تحریر میں جو اثر ہے، وہ قارئین کو اثر انگیز کرکے اثر پذیر کر دیتا ہے، ان کی کتاب ”چند نامور علماء“ بھی خاصے کی چیز ہے، اس تمہید کا حاصل یہ ہے کہ فقہ کے ساتھ مولانا کو شخصیات، خاکے، سوانحی خاکے اور تعزیتی نوٹس لکھنے میں خاصی مہارت حاصل ہے اور قارئین کو ان کتابوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے ان میں عبرت وموعظت کے بھی بڑے سامان ہیں، جسے قرآن کریم میں ”لعبرۃ لاولی الابصار اور لعلھم یتفکرون“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

”تابندہ نقوش“ حضرت مولانا دامت برکاتہم کی تازہ تصنیف ہے، جس میں کم وبیش نوے شخصیات پر قلم اٹھایا گیا ہے، کم وبیش اس لیے کہ بعض حضرات پر دو، تین قسطوں میں بھی بات رکھی گئی ہے، ان شخصیات میں زیادہ تر ہندوستانی علماء، مشائخ، محدثین، مفکرین اور دیگر حضرات ہیں،بیرون ملک کے جن علماء اور فقہاء پر مولانا نے قلم اٹھایا ہے، ان میں زیادہ تر فقہ وفتاویٰ کی عالمی شخصیات ہیں،وہ ہم جیسے ہندوستانی علماء کے لئے تو دریافت کی حیثیت رکھتا ہے، اور ہماری معلومات میں بیش بہا اضافہ کرتا ہے، ان مضامین کی درجہ بندی کی جائے تو ان میں سوانحی خاکے، خاکے اور وفیات پر تاثراتی نوٹس ہیں، سوانحی خاکوں میں ذاتی تاثرات بھی ہیں، اور سوانحی احوال وکوائف بھی، جو خاکے ہیں ان میں سوانحی مواد کم تر ہے، تاثرات اور تعلقات کی روداد کا عنصر زیادہ ہے، تعزیتی نوٹس وفیات پر گواس کتاب میں کم ہیں، لیکن ہیں، ان میں سوانحی مواد غائب، تاثرات کم تر اور تعلقات کا ذکر بھی ضمنا ًمذکور ہے، آخر الذکر قسم کے مضامین میں قاری تشنگی محسوس کرتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ کاش مرنے والے پرکچھ اور لکھا جاتا، عبد القادر شمس، کلیم الدین سلطان پوری، قاری امیر حسن وغیرہ کو پڑھتے وقت یہ احساس کچھ زیادہ گہرا ہوجاتا ہے ۔حضرت مولانا بہت مشغول ومصروف رہتے ہیں، یہ مضامین انہوں نے کیف ما اتفق جمع کر دیا ہے، ان میں کوئی ترتیب ملحوظ نہیں ہے، نہ تاریخ ولادت کی، نہ تاریخ وفات کی اور نہ ہی حرف تہجی کی، یقیناً حضرت مولانا کا مقام ومرتبہ وہ ہے کہ جس طرح ترتیب دیدیں وہی رَوِش بن جائے، اور جہاں کھڑے ہوجائیں وہیں سے صف شروع ہوجائے، لیکن علمی دنیا میں جو کتابیں عموماً ترتیب دی جاتی ہیں ان میں یہ تین طریقے ہی رائج ہیں، ایسا ممکن ہے کہ مولانا کے ذہن میں شخصیات کی عبقریت وعظمت کے حوالے سے کوئی ترتیب ہو،جسے اصطلاح میں معہود ذہنی کہتے ہیں، لیکن قاری کے لیے حضرت مولانا کے معہود ذہنی تک پہونچنا آسان نہیں ہے۔
ظاہر ہے ہر مصنف کو اس کا حق ہے کہ وہ اپنے طریقے سے کتاب ترتیب دے، وہ جو کچھ پیش کرتا ہے، وہ اپنے مطالعہ اور مشاہدہ پر مبنی ہوتا ہے، دوسرے کے علم سے مصنف استفادہ کرسکتاہے، لیکن ضروری نہیں کہ وہ اس کی فکر وسوچ کا حصہ بن جائے، دا رالعلوم کے قضیہ نا مرضیہ اور ان سے جڑی شخصیات پر جو تبصرے ہیں، ظاہر ہے وہ سب بالکل حرف بحرف صحیح نہیں ہیں، جیسالکھا گیا ہے، ان میں یقیناً مولانا کے مطالعہ ومشاہدہ کا بڑا دخل ہے، لیکن بعض مندرجات صرف ”شنیدہ“ پر مبنی معلوم ہوتے ہیں۔ طالب علمانہ ”دیدہ“ ان حقائق سے کہیں کہیں میل نہیں کھاتے۔

مفتی ثناء الہدی قاسمی
زیر تبصرہ کتاب کا سر ورق

کتاب کا پیش لفظ خود مولانا کے قلم سے ہے، جس میں انہوں نے ان مضامین کے شان ورود کا ذکر کیا ہے، کتاب کی بڑی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مولانا نے بڑے لوگوں کی جو علمی غلطیاں رہی ہیں،ان پر لکھے گئے مضامین، نیز اسکو کتاب کے آخر میں بہتر اور تحقیقی انداز میں آشکارا کیا ہے،مولانا کا واضح موقف ہے کہ ”اذکرو محاسن موتاکم“ کی معنویت اپنی جگہ، لیکن جن افکار وخیالات سے ملت کو نقصان پہونچنے اور گمرہی کا خطرہ ہو، اسے مرنے کے بعد بھی طشت از بام کرنا چاہیے تاکہ امت ان کے غلط خیالات ونظریات سے محفوظ ومامون رہ سکے، کتاب کے آخر میں مختصر سوانحی خاکہ بھی ہے، جس سے مولانا کی متنوع خدمات اورملی، تعلیمی وتنظیمی امور میں بحیثیت عہدیدار اور ارکان ان کی سر گرمیوں سے ہماری واقفیت ہوتی ہے۔کتاب کے ایک فلیپ پر مولانا عبد الباسط ندوی نے مختصر میں مولانا اور ان کی تحریروں کی خصوصیات کا ذکرکیاہے، دوسرے فلیپ پر اسی کتاب سے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی جدید علم کلام کی خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے، سرورق سادگی اور پُرکاری کا عمدہ نمونہ ہے، پانچ سو برانوے(592) صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت پانچ سو برانوے انتہائی مناسب ہے،کمپوزنگ انظار الحق قاسمی اور یار علی کی، طباعت عالم پرنٹرس اینڈ پبلیشر نے کی ہے اور ناشر المعہد العالی امارت شرعیہ ہے، ملنے کے پتے نصف درجن سے زائد درج ہیں، زیادہ چکر نہ لگانا پڑے اس کے لیے آسان سی بات ہے کہ المعہد العالی ہی سے منگوا لیجئے۔نور اردو لائبریری حسن پور گھنگھٹی، بکساما، ویشالی 844122بھی کتاب کے حصول میں آپ کی مدد کر سکتی ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: