کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں!
✍️ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
________________
کئی روز ہوئے، رحیل کارواں شروع ہوچکا ہے، حج وزیارت سے بہرہ مند ہونے والے قافلے قطار اندر قطار اپنے وطن کی جانب پرواز کررہے ہیں، ہجر وفراق کے دن کاٹ رہے ہم جیسے حرماں نصیب ان نگاہوں کو ہی حسرت اور رشک سے ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہیں جن نگاہوں نے بہت کچھ دیکھا ہے، اور اپنی آنکھوں میں بیت اللہ کی رونق اور دربار نبوت کا نور بسا لائے ہیں، تمام حجاج کرام کو حج مبارک، یعنی از سر نو زندگی کا آغاز مبارک! اللہ تعالی آپ کے حج کومقبول ومبرور بنائے اور آپ کو ہمیشہ شاداں و مسرور رکھے، آپ جو فکر ونظر اور عشق ومحبت کی سوغات بانٹیں گے وہ اپنی افادیت اور اثر پذیری میں زمزم اور کھجوروں کی سوغات سے کہیں بڑھ کر ہے:
زائرانِ کعبہ سے اقبالؔ یہ پوچھے کوئی
کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ حقیقت ہے کہ سفرِ حج جسم وجان سے بڑھ کر روح کی لطیف پرواز کا نام ہے، یہ کوئی معمولی سفر نہیں، بلکہ ایک ایسا مقدس، بابرکت اور عاشقانہ سفر ہے جس کی ہر ہر ادا دل اور روح کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے، یہ روحانی سفر نہ صرف انسان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتا ہے بلکہ اس کے دل میں اطمینان، سکون، اور اللہ کی محبت کا جذبۂ بیکراں پیدا کر دیتا ہے،حج کی تیاریوں کے لمحات ایک عجیب سی خوشی اور نامعلوم سی بے چینی میں لپٹے ہوتے ہیں، سامان کی ترتیب، احرام کی خریداری، اور مسائل وفضائل کی کتابیں تیار کرتے ہوئے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں، ہر لمحہ بیت اللہ کی زیارت کی امیدوں میں گزرتا ہے، یہ تیاریاں انسان کے دل میں اس بات کا یقین پیدا کرتی ہیں کہ اللہ نے اپنے خاص بندہ کے طور پرمجھے منتخب کرلیا ہے، سفر کا دن آتا ہے تو دل کی کیفیت بیان سے باہر ہوتی ہے، طیران گاہوں پر دیگر عازمین حج کے ساتھ مل کر احرام باندھنے کا منظر ایک عجیب سی وحدت ویگانگت اور روحانی مسرت کا احساس دلاتا ہے، سفید لباس میں ملبوس یہ قافلہ ایک عظیم روحانی تجربہ کے لیے تیار ہوتا ہے، جہاں دنیا کی تمام تفریقات مٹ جاتی ہیں، احرام کی سادگی اور پاکیزگی دل کو سکون اور روح کو تازگی وبالیدگی بخشتی ہے۔
بلد امین کی جانب سفر کرتے ہوئے دل ونگاہ قابو میں نہیں رہتے، عرفان محبت سے جو سرور حاصل ہوتا ہے، وہ انسان کو ایک نئی دنیا میں منتقل کردیتا ہے، جہاں خوشبو ہی خوشبو ہے، نور ہی نور ہے، خانہ کعبہ کی پہلی جھلک دل کو گرما دیتی ہے، اور آتش عشق کی لو تیز کر دیتی ہے، آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں، اور دل سجدہ ریز ہواجاتا ہے، زبان پر صرف ایک ہی دعا ہوتی ہے: ٫”اے اللہ! مجھے اپنے گھر کی بار بار حاضری نصیب فرما، اور اسے قبول فرما”، یہ لمحہ انسان کو اللہ کی بے پایاں محبت اور رحمت کی چادر میں لپیٹ لیتا ہے۔
قدم قدم پر "لبیک اللھم لبیک” (حاضر ہوں ،اے اللہ !میں حاضر ہوں )کی صدائیں ایک عجیب سی روحانی کیفیت پیدا کرتی ہیں، طواف وسعی کے ہر چکر کے ساتھ رقت اور جھکاؤ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، یہ لمحات انسان کو اللہ کے قریب تر کر دیتے ہیں، جہاں وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے اور رحمتوں کی بے کراں وسعتوں میں کھو جاتا ہے، منیٰ کی راتیں انتظار کی تیز آنچ کو اور ہوا دیتی ہیں، میدان عرفات میں سفید جامۂ احرام میں ملبوس لاکھوں عازمین کا جمع ہونا، دعاؤں اور التجاؤں میں محو ہوجانا، اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کا رونا، تڑپنا اور گڑگڑانا، ایک ایسا منظر پیش کرتا ہے جو دل و دماغ کو بدل کر رکھ دیتا ہے، اور یاد میدان حشر کی دلا جاتا ہے، وقوف عرفہ کا دن حاجی کی زندگی کا سب سے مقدس دن ہوتا ہے، جہاں وہ اپنے رب کی بے پایاں رحمت اور محبت کو بہت پاس سے محسوس کرتاہے ، مزدلفہ کی رات، کھلے آسمان تلے، زمین پر لیٹے ہوئے، اللہ کی قربت کا ایک انوکھا احساس دلاتی ہے، یہ رات دنیا کی تمام رنگینیوں سے دور، اللہ کی رحمتوں کے سائے میں گزرتی ہے، دل کی گہرائیوں میں یہ احساس جاگزیں ہوتا ہے کہ ہم اللہ کی پناہ میں ہیں، اور وہ ہمیں اپنی محبت اور رحمت سے نواز رہا ہے،شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل ایک علامتی جنگ ہے جو ہر مسلمان اپنے اندر کے شیطان اور نفس کے خلاف لڑتا ہے، یہ عمل حاجی کو یہ یقین دلاتا ہے کہ اللہ کی راہ پر قائم رہتے ہوئے ہر برائی پر قابو پایا جا سکتا ہے، یہ لمحات حاجی کی روحانی طاقت اور استحکام کا باعث بنتے ہیں، مدینہ منورہ کی زیارت، حج کے سفر کی روحانی تکمیل ہے، مسجد نبوی میں داخل ہوتے ہی دل کی کیفیت بدل جاتی ہے، حضور اکرم ﷺ کے روضۂ مبارک کی زیارت، اور عشق وادب کی ملی جلی کیفیات کے ساتھ رندھی ہوئی آواز میں”السلام علیک أیھا النبی!” کا نذرانۂ عشق ومحبت پیش کرنا دل کی گہرائیوں میں جذبہ عقیدت ومحبت کو ابھار دیتا ہے، یہ زیارت حاجی کو نبی کریم ﷺ کی محبت، امت کے ساتھ آپﷺ کی شفقت، مرتبۂ شفاعت اور تعلیمات نبوی کی یاد دلاتی ہے۔
حج کی تکمیل کے بعد جب حاجی واپس اپنے وطن کی جانب روانہ ہوتا ہے، تو دل اداس ہوتا ہے لیکن اس میں ایک روحانی توانائی موجزن ہوتی ہے،اس مقدس فریضہ کی ادائیگی کے بعد حاجی کی زندگی میں ایک دور رس اور طویل المیعاد روحانی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے، حج کے بعد حاجی کی ذمہ داریاں نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی اور معاشرتی سطح پر بھی بہت بڑھ جاتی ہیں، ان ذمہ داریوں کا مقصد خود حاجی کو اپنی اعلیٰ درجہ کی روحانی کیفیت کو برقرار رکھنا اور اپنے تجربات کو معاشرہ کی بہتری کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے، حج کے دوران حاجی اللہ کے قریب تر ہوتا ہے، اور اس قدر یاد الٰہی میں سرشار ہوتا ہے کہ اس کے لیےخود کو گناہوں سے پاک رکھنا آسان ہوتا ہے، لیکن جب غلاف کعبہ کے مسحور کن جلوے نگاہوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں، اور دنیا کی ظلمتیں اپنی اتھاہ وسعتوں کے ساتھ اس پر اپنے سائے دراز کرتی ہیں، اس وقت اس کا اصل امتحان ہوتا ہے، اس وقت اس کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ نور کے جھرمٹ سے نکلنے کے بعد بھی خود کو نورانی وربانی بنائے رکھے، جان وایمان عزیز ہوں تو طواف کوئے جاناں سے خود کو محفوظ رکھے، اپنی پرہیز گاری اور پاکیزگی کو زنگ یا گھن لگنے سے بچائے، اسے چاہیے کہ وہ اپنے اعمال و اخلاق میں نیکیوں اور حسنات کا اضافہ کرے، نہ کہ جو کچھ کمایا تھا اسے گنواتا رہے۔
حاجی جس طرح دوران حج مناسک کی ادائیگی میں بسا اوقات خود کو بہ ظاہر خطرے میں ڈال کر بھی عزیمت پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے،اسی طرح حج کے بعد بھی اسے اسلامی تعلیمات پر سختی سے عمل پیرا رہنا چاہیے، اس کے گھر کا ماحول، اس کے یہاں کی تقریبات، اس کے معاملات، اس کی اخلاقیات سب گواہی دیں کہ ان صاحب نے حج کیا ہے، وہ صورت حال نہ ہو جو ایک مزاحیہ بصری تراشہ video clip میں بیان کی گئی ہے کہ ایک صاحب حج کے بعد کرانے کی دکان پہ تشریف لائے، دکان دار سمجھا حساب بے باق کرنے کو آئے ہیں، اس نے تعریف کے پل باندھ دئیے اور حج کی قبولیت کی دعائیں دینے لگا، لیکن جب حساب کا رجسٹر کھلا تو حاجی صاحب نے فرمایا: بس اس لیے زحمت دی کہ سردست میرے نام کے ساتھ’حاجی‘ لکھ دو، ابھی تو حج سے سبک دوش ہوا ہوں، بھاری اخراجات کے بعد اب کچھ مزید خرچ کرنے کی پوزیشن میں نہیں، ان شاء اللہ جلد ہی حساب کردوں گا، دکان دار نےسر پکڑ لیا کہ اب تو اس سند یافتہ دین دار کا کھلے عام مؤاخذہ بھی نہیں کرسکتا ورنہ خود ہی معتوب ہوجاؤں گا۔
دوران حج جو اخلاقی تعلیمات دی گئی تھیں، ان میں بطور خاص قول وفعل میں بے حیائی اور بے جا جنگ وجدل سے بچنے کا حکم تھا،اور "خیر الزاد التقوی” کہہ کر بہترین توشہ تقوی کو قرار دیا گیا تھا، جس کے ایک معنی یہاں استغنا کے بھی کئے گئے ہیں؛ اس لیے خلق خدا سے بے نیازی کی کوشش اور صرف رب کریم سے نیاز مندی اور حاجت طلبی کی ادا بھی ایک حاجی کی بڑی کامیابی ہے، اسے اپنے اہل و عیال، دوستوں، اور سماج کے افراد کے ساتھ حسن سلوک میں پیش پیش رہناچاہیے، جھوٹ، غیبت، مال حرام کی آلودگی اور دیگر برائیوں سے پرہیز کرنا حاجی کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہیں، حج کے دوران حاجی کو صبر وانتظار اور تحمل کا درس دیا جاتا ہے، حج کے بعد بھی اسے ان محمودو مطلوب صفات کو برقرار رکھنا چاہیے، مشکلات اور پریشانیوں میں صبر و برداشت سے کام لینا اور اللہ پر بھرپور توکل کرنا حاجی کا ایک اہم فریضہ ہے، ایثار ورحم دلی اس کے علاوہ ہیں، اسی طرح حج کے بعد حاجی کو دوسروں کے حقوق کا خاص خیال رکھنا چاہیے، کسی کا حق مارنا یا ظلم کرنا حج کی روح کے خلاف ہے، حاجی کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے حقوق کی پاسداری کرے اور معاشرہ میں انصاف اور عدل کو فروغ دے، حضرت حسن بصریؒ سے پوچھا گیا: حج مبرور کیا ہے؟، انہوں نے فرمایا: "أن تعود زاهدًا في الدنيا راغباً في الآخرة” (التبصرۃ لابن الجوزي: 263/2) (یہ کہ آپ دنیا سے بے رغبت اور آخرت کے طالب بن جائیں)، بعض سلف صالحین سے منقول ہے کہ”نیکی کا ثواب یہ بھی ہے کہ اس کے بعد مزید نیکیوں کی توفیق ملے”، نہ کہ بقول غالب:
رات پی زمزم پہ مے اور صبح دم
دھوئے دھبّے جامۂ احرام کے
حاجی کو چاہیے کہ وہ اپنے حج کے تجربات، اس سے حاصل ہونے والے علم ومعرفت اور شعوروآگہی کو دوسروں تک متنقل کرے، حج کے دوران سیکھے گئے اسباق اور عبرت و نصیحت کی باتوں کو اپنے خاندان اور معاشرے کے لوگوں تک پہنچائے تاکہ وہ بھی ان سے استفادہ کر سکیں، اور بجائے اس کے کہ وہاں کے انتظامات وغیرہ کے مثبت ومنفی پہلوؤں پر بہت زیادہ گفتگو کرکے اپنا وقت ضائع کرے، اسے اللہ تعالیٰ کی عظمت ومحبت، کعبہ کی حرمت ،مدینہ کی برکت اور مقامات مقدسہ اور وہاں کی روحانی فضاؤں کا ذکر جمیل کرتے رہنا چاہیے۔
حج مسلمانوں کی وحدت اور بھائی چارے کا مظہر ہے، دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں، جہاں وہ رنگ و نسل، زبان و قومیت کی تفریق کیے بغیر ایک ہی لباس احرام میں ملبوس ہوتے ہیں، یہ منظر ایک عالمی برادری کی تصویراور تصور پیش کرتا ہے، جہاں تمام مسلمان ایک ہی مقصد کے تحت جمع ہوتے ہیں، اور وہ ہے اللہ کی رضا حاصل کرنا، اس اجتماع کے ذریعہ مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعلقات اور رشتے بناتےہیں اور ایک دوسرے کی ایمانی صفات سے تاثر اور ان کی ثقافت و روایات سے واقفیت حاصل کرتے ہیں، جو ان میں محبت اور احترام کے جذبات کو فروغ دیتا ہے،حج کا عالمی اجتماع مسلمانوں کا تشخص اجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، دنیا بھرسے مختلف ممالک کے مسلمان اس اجتماع میں شریک ہوتے ہیں، یہ منظر عالمی برادری کو اسلام کی حقیقی تعلیمات اور مسلمانوں کے امن پسند رویہ سے آگاہ کرتا ہے، اس سے بین الاقوامی سطح پر اسلام کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے اور مسلمانوں کا ایک مثبت اور متحد چہرہ دنیا کے سامنے آتا ہے، اس جذبۂ وحدت کو باقی رکھنا اور اجتماعی مزاج کے ساتھ زندگی گزارنا حج کا اہم پیغام ہے، اور حجاج کرام اس فکر ونظر کے سفیر وترجمان ہیں:
عرب کے سوز میں سازِ عجم ہے
حرم کا راز توحیدِ اُمَم ہے