Slide
Slide
Slide

دہر میں اک چراغ تھا نہ رہا

✍ مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)

____________________

آہ! چند لمحوں پہلے ایک روح فرسا خبر موصول ہوئی۔ کیفیت یہ ہے کہ!!!!!

دیر سے بیٹھا ہوں ہاتھوں میں لیے اپنے قلم
کیا لکھوں، کیسے لکھوں، دل پر ہے طاری شامِ غم

عظیم مُرَبّی و مُزَکّی، باکمال مشفق قائد و رہنما، عربی و اردو ادب و زبان کے بلند پایۂ مصنف، اداریہ نویس، کالم نگار، ادیب و شاعر، سابق امیرِ محترم وحدتِ اسلامی ہند، جناب عطاء الرحمن وجدیؔ صاحب (سہارنپور)! ہم جیسے اور بھی کئی بے شمار سوگواروں کو غمزدہ و روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے داعیٔ اجل کو لبیک کہتے ہوئے، آخرت کی منزل کی طرف رواں دواں ہوگئے۔

إنَّا لِلّٰہِ وَإنَّا إلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ”إنَّ لِلّٰہِ مَا أَخَذَ، وَلَہ‘ مَا أَعْطٰی، وَکُلُّ شَیْءٍ عِنْدَہ‘ بِأَجَلٍ مُسَمّٰی، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ”۔

خبر وفات نے دل کو بے حد مجروح کردیا ہے، حقیقتاً مولانا کے انتقال کی خبر سے دل بے انتہاء مضطرب ہے، نہ معلوم کتنی دیر کلمہ استرجاع زبان پر رہا اور آنکھوں سے آنسوؤں کا سلسلہ جاری رہا۔ آنکھیں اب بھی اشکبار ہیں اور آپ سے جڑی لا متناہی یادوں کا سلسلہ ہے جو فی الوقت ذہن و قلب میں تازہ ہوکر موجیں مار رہا ہے۔ آپ کی دینی و ملّی، اسلامی و ادبی تحریروں و تصانیف نے کارکنانِ تحریکِ اسلامی اور اُمَّت مسلمہ کے دلوں میں مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں زندگی کی رمق و حرارت پیدا کی ہے۔ لیکن آخر کار زندگی آپ سے بھی وفا نہ کرسکی اور اپنے ربّ حقیقی کو پیارے ہوگئے۔ آپ کے داغ مفارقت سے ہر دردمند دل اور ہر ذہن جو آپ سے واقف رہا ہے، مبتلائے رنج و الم ہے۔ ؎
آعندلیب مل کے کریں، آہ وزاریاں
تو ہائے گل پکار، میں چلاؤں ہائے دل

مولانا عطاء الرحمٰن وجدی

آپ کی صحت اور بیماری کی خبریں پل پل موصول ہوتی رہیں۔ آپ کے دم حیات سے ہم جیسوں کا دل فخر سے لبریز رہتا رہا۔ علم میں اس قدر وسعت اور گہرائی تھی کہ انسان حیرت و استعجاب میں انگشت بدنداں رہ جاتا! ایک طویل عرصے سے ہم آپ کی قائدانہ صلاحیتوں، آپ کے قلم سے نکلی زندہ تحریر سے شاداں رہے، آپ کی گہر باری اور لَذّت گفتار سے ہم شادابی محسوس کرتے رہے، آپ نور و بصیرت کا سراپا مجسم، علم و عمل کا کوہ گراں تھے! یہ حقیقت ہے کہ جب سے آپ کی تحریروں کے مطالعے کا آغاز کیا اس وقت سے آپ ہی کے تحریروں و تصانیف سے لفظوں کی نیاز پائی ہے۔ آپ کی تحریریں اختصار کے باوجود بہت عمدہ، معنیٰ خیز، دل نشین و دل پذیر اور چشم کشا ہوا کرتی رہی ہیں۔ آپ کی تحریریں و تصانیف اردو ادب و زبان کا نایاب اور منفرد اثاثہ بھی ہیں۔

اپنی عمر طبعی گزار کر اور علالت کے شدائد کو جھیل کر گناہ اور معصیت سے پاک صاف ہوکر مبارک دن بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوگئے، یہ بھی آپ کے عنداللّٰہ مقبول ہونے کی ایک نشانی ہے۔ مولانا محترم خاموش مزاج، متواضع اور صاحبِ بصیرت شخص رہے ہیں۔ اخلاص و استقامت فی الدین آپ کی کتابِ زندگی کے نمایاں ابواب رہے ہیں۔ آپ کے زیرِ سایہ بڑے قیمتی اہل علم افراد تیار ہوئے ہیں۔

مولانا محترم! دیانتدارانہ اصولوں کے پابند اور عزم و حوصلے کی علامت رہے ہیں۔ عجز و انکساری میں اپنی مثال آپ رہے، مولانا! اسلامی اجتماعیتوں اور دینی جماعتوں کی سرگرمیوں کے ضمن میں خود اپنے اندر ایک مکمل و زریں تاریخ رہے ہیں، جنہیں اگر سنہرے حرفوں سے بھی لکھا جائے تو بھی مولانا کی ان خدمات کا ہم حق ادا نہیں کرسکتے ہیں۔

چند روز قبل ہمارے بہت ہی عزیز مربی و مزکی رہنما داعی جناب جمیل احمد صدیقی صاحب نے ایک بار مولانا محترم کی عاجزی و انکساری کا واقع پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ جب آپ پر وحدتِ اسلامی ہند کی امارت کا بار ڈالا گیا تو زار و قطار روئے جس کی وجہ سے طبیعت خراب ہوگئی انہیں ایک قریبی رفیق کے مکان میں 3 گھنٹے تک آرام کروایا گیا جب تک آپ کی طبیعت میں افاقہ محسوس نہیں کیا گیا اس وقت تک رفقائے تحریکِ اسلامی مولانا کی نصیحت و تذکیر سے مستفیض نہ ہو پائے۔

یہ بھی پڑھیں:

مولانا محترم تحریکی ذہن و زندگی کے امام رہے ہیں، دقیق سے دقیق اور مشکل سے مشکل مسائل بڑے سہل اور عام فہم اسلوب میں حل کرنے اور معمورین کے ذہن نشین کرانے کا ملکہ رکھتے رہے ہیں۔ مولانا محترم نے جتنا پڑھا، لکھا اور دنیا کے سرد و گرم حالات سے جو تجربات حاصل کئے انہیں اپنے عزیزوں، رفقاء و کارکنان اور قارئین تک منتقل کرنے کا مخلصانہ اور دردمندانہ جذبہ رکھتے رہے ہیں۔ ؎
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

مولانا کی مفارقت سے تحریکِ اسلامی ایک عظیم اور عبقری شخصیت سے محروم ہوگئ ہے۔ آپ کی وفات اسلامی، تحریکی، ملی اور قومی سطح پر ایک عظیم سانحہ ہے، جس نے اسلامی تحریکات کو یتیم کر دیا ہے۔ حق شناس، خدا ترس، اور عالم باعمل شخصیتیں جب رخصت ہوتی ہیں، تو صرف ان کے اپنے ہی نہیں، بلکہ زمانہ بھی ان کی جدائی پر ماتم کرتا ہے۔ اسی لئے مولانا کی مسلمانانِ ہند کے تئیں خدمات کا اعتراف کرنے والا ہر فرد، آپ کے ربّ حقیقی کی طرف سمت سفر باندھنے پر آبدیدہ ہے۔

اسلامی تحریک سے تادمِ واپسیں نہ صرف اس سے وابستہ رہے، بلکہ اس کے امیر و قائد بننے کا شرف بھی آپ کو حاصل رہا۔ وحدتِ اسلامی ہند کے ماہنامہ ترجمان ”وحدتِ جدید” کے مدیر مسؤل کے فرائض انجام دیئے، سالہا سال تک اس کی ادارتی ذمّہ داری ”تصریحات” کے عنوان سے بحسن و خوبی نبھاتے رہے۔ "تصریحات” یا دیگر مضامین بڑی محنت، عرق ریزی اور اس میں اثر آفرینی کے لیے آہ سحر گاہی کے بعد ہی آپ کوئی تحریر گویا خون جگر سے لکھا کرتے۔ اللّٰہ ربّ العزّت کی توفیق سے انھوں نے بلند پایہ تصنیفی و تالیفی خدمات انجام دیں۔ مولانا کی متعدد تصانیف ہیں جس سے لوگ مستقبل میں استفادہ کرتے رہیں گے (ان شاء اللّٰہ)۔ ان کی تصنیفی و تالیفی خدمات سے احقاق حق اور ابطال باطل کا جو فریضہ ادا ہوا، اس سے علمائے حق کا طبقہ ہمیشہ احسان مند رہے گا۔

مولانا محترم کی دینی و ملّی خدمات ناقابل فراموش ہیں اور تاریخ کے دامن پر انمٹ نقوش کی طرح ہمیشہ ثبت رہیں گی۔ ان کی تحریر و تدریس کے ذریعے انسان سازی کا جو کام ہوا ہے، وہ باطل قوتوں کے تابوت میں ہمیشہ کے لیے آخری کیل گاڑتے رہیں گے۔ پسِ دیوارِ زنداں آپ کی ادبی و شاعرانہ صلاحیتوں سے زنداں کے ساتھی محظوظ ہوتے رہے ہیں۔ آپ کے شاعری مجموعے بھی طباعت کے مرحلے سے گزر چکے ہیں۔

قدرت جسے بڑا بنانا چاہتی ہے، یا جس سے انقلابی، تعمیری اور تجدیدی کام لینا چاہتی ہے، تو اسے ابتلاء و آزمائش اور مصائب کی بھٹیوں میں تپاتی ہے، جس کا ذکر کتاب اللّٰہ میں نظر آئے گا۔

کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اِتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ "ہم ایمان لائے” اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ (سورۃ العنكبوت: 2)

مولانا کی زندگی بھی ان آزمائشوں سے گزری، اور ان آزمائشوں نے ان کی شخصیت کو مزید نکھارا اور مضبوط کیا۔ مولانا کو بھی اسلام کے احیاء کے ضمن میں انجام دینے والی سرگرمیوں کے نتیجے میں بارہا قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑی۔ اپنی زندگی کے طویل قیمتی لمحات کو پابند سلاسل بھی گذارا۔ وہاں بھی آپ نے تعلیم و تربیت، درس و تدریس کے ذریعے کئی افراد کو غلبۂ دین کی سعی و جہد کے لئے تیار کیا۔

آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک لمبے عرصے سے رکنیت کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ جماعت اسلامی میں قد آور شخصیت کے ساتھ ساتھ شوری کے رکن رہتے ہوئے اپنی خدمات پیش کرنے کی سعادت بھی مولانا کے حصّے میں آئی۔ جماعت اسلامی کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے والوں میں پیش پیش رہے، جس کا اعتراف جماعت اسلامی کے ماہانہ رسالہ "زندگیٔ نو” نے بھی اپنے حالیہ ایک شمارے میں کیا ہے۔ لمبے عرصے تک جماعت اسلامی سے وابستہ رہنے کے بعد فکری و نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر موجودہ جماعت اسلامی ہند سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس کے علاؤہ "تحفّظ بابری مسجد کمیٹی” کے سربراہ رہتے ہوئے آپ کی سعی و جہد قابل قدر رہی ہیں۔ آپ کا تعلق جس سرزمین سے رہا ہے وہ علم و فن کا عظیم الشان گہوارہ رہا ہے، جسے ہم سہارنپور کے نام سے جانتے ہیں۔ جہاں مسلمانوں کے بڑے بڑے دینی و علمی تعلیمی ادارے قائم ہیں، وہاں اختلافی و کشیدہ ماحول میں آپ نے بحیثیتِ حکم نمایاں کردار ادا کیا ہیں۔ مولانا کی کتاب زیست کے بے شمار اوراق ہیں، جن کا احاطہ فلحال اس تعزیتی پیغام میں کرنا مشکل ہوگا، حقیقتاً ہم ایک تجربۂ کار و نڈر رہنما سے محروم ہوگئے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ! اُمَّت مسلمہ کو ان کا نعم البدل عطاء فرمائے۔

مولانا محترم کارکنانِ تحریکِ اسلامی میں اعتماد پیدا کرنے کی مہارت رکھتے ہوئے انہیں کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہونے دیتے تھے۔ وضع داری اور شائستگی ان کا شیوہ رہا ہے۔ مولانا نے علم کے نور سے ہم جیسے ناقص المطالعہ لوگوں کی زندگی کو علم کی شمع سے منور کیا۔ وہ دین کا روشن چراغ تھے جن سے بے شمار دینی مشعلیں روشن ہوئیں۔

الحمداللّٰہ! اللّٰہ تعالیٰ نے رشد و ہدایت کے ان مراکز کے ساتھ ہمیں نسبت عطاء فرمائی۔ مولانا محترم سے مستفیض ہونے کے زرین مواقع فراہم ہوئے، ساتھ ہی ساتھ مولانا کے ساتھ کئی اسفار کے مواقع بھی زندگی کا روشن باب رہے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہمارے اُن سے مستفید ہونے کا وقت بہت قلیل رہا، آپ سے مزید استفادہ کرنے کی بہت تمنا تھی لیکن افسوس اب وہ تمنا دل کے کسی کونے میں محض ایک خواب بن کر رہ جائے گی، لیکن آپ کی خدمات کو ہمیشہ سنہرے حرفوں سے لکھا جائے گا۔ اللّٰہ آپ کی نیکیوں کو قبول فرمائے، آپ کی خدمات کو، آپ کے علمی، ادبی، تحریری، تقریری، سماجی، ملّی اور جملہ رفاہی کارناموں کو شرفِ قبولیت عطاء فرمائے۔

رنج و الم کی اس گھڑی میں اپنے مرحوم راہنما کی اسلامی، دینی و ملّی خدمات کو خراج تحسین و تعزیتِ مسنونہ پیش کرتے ہیں، آپ کی رحلت پر ہم دلی رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ کے اہل خانہ اور تمام پسماندگان، متعلقین و مُتَوَسِّلِیْن، اَحْفاد و مُنتَسِبِین کے رنج و غم میں برابر کے شریک ہیں اور ان سے دلی تعزیعت اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے صبر جمیل کے لئے دعاگو ہیں۔

مولانا جیسے نیک و صالح اہل علم اور باعمل متحرک نفوس صدیوں میں اس روئے زمین پر آتے ہیں۔ ان کی خدمات، تحریریں اور یادیں ہمیشہ ہمارے دلوں اور یادوں کی دنیا میں زندہ رہیں گی۔ اللّٰہ ربّ العالمین! آپ کی دینی و ملّی خدمات کو شرفِ قبولیت عطاء فرمائے۔ اللّٰہ ان کی عظیم خدمات کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطاء فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ اللّٰہ ربّ العزّت! مولانا کے حسنات قبول فرمائے اور سیئات سے درگزر فرمائے، جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔ (آمین ثمّ آمین یا ربّ العالمین)

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: