تربیتِ اولاد
✍️ محمد فرمان الہدی فرمان
_________________
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ڈھیر ساری نعمتوں میں اولاد بھی ایک عظیم نعمت ہے۔ بچہ ہو یا بچی دونوں ہی اپنے والدین کے لیے نورِ نظر اور لختِ جگر ہوا کرتے ہیں، وہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتے ہیں، ان کے اندر اسلام ہوتا ہے؛ لیکن ان کے اچھے یا بُرے، مومن یا کافر اور نیکو کار یا بدکار ہونے میں ماحول اور سماج کا بڑا دخل ہوتا ہے، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں‘‘، اس حدیث میں بچوں کو ایک ایسی مٹی کے مانند بتایا گیا ہے، جس کو جو نقش میں ڈھالا جائے وہ اسی طرح ڈھل جاتے ہیں۔ اب یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے لیے کونسا رُخ اختیار کرتے ہیں؟ اگر ان کی صحیح اسلامی تربیت کی جائے تو پھر ان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے رب کے بلکہ والدین کے بھی فرماں بردار ہوں گے۔
اولاد والدین کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہوا کرتی ہیں۔ ہر مومن و مسلمان نیک اولاد کی چاہت رکھتا ہے اور دعا کرتا ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام نے یہ دعا فرمائی: "اے میرے رب! مجھے نیک اولاد عطا کر”۔ اگر اللّٰہ نے آپ کو اولاد جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ان کی اچھی تربیت کریں، اللّٰہ و رسول کی تعلیمات سے آراستہ و پیراستہ کرائیں۔ بچوں کے لیے ان کا پہلا مدرسہ اپنا گھر ہوتا ہے، اور یاد رکھیں بچے آپ کی نصیحت سے نہیں؛ بلکہ آپ کے عمل سے سیکھتے ہیں، بچوں کو نصیحت سے زیادہ عمل سے سکھایا کریں، مثلاً نماز کی پابندی سکھانے کے لیے خود اس کے پابند بنیں، آپ خود بڑوں کی عزت کریں، لڑائی جھگڑے اور فسادات سے پرہیز کریں، جو بھی اچھے اور نیک افعال و اعمال ہیں وہ آپ پہلے خود کریں، ہر اچھا عمل کر کے دکھائیں تب بچے آپ سے سیکھیں گے۔ آپ اخلاق و کردار میں جیسا اپنی اولاد کو دیکھنا چاہتے ہیں ویسے خود بھی بنیں، یعنی اگر آپ انہیں نیک و صالح بنانا چاہتے ہیں تو پہلے آپ خود ویسے بنیں؛ کیوں کہ بچوں کے لیے آپ ایک آئینہ کے مانند ہیں، وہ جس طرح آپ کو دیکھیں گے اپنا عکس سمجھ کر خود بھی ویسے ہی بنیں گے، آپ خود متقی و پرہیزگار بنیں، آپ خود پنج وقتہ نمازی بنیں اور بچوں کو بھی ساتھ مسجد لے جایا کریں۔ مساجد میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ بچوں کے شور وغل کرنے پر انہیں ڈانٹ ڈپٹ دیا جاتا ہے اور مسجد آنے سے منع کردیا جاتا ہے اور ایسا راقم کا مشاہدہ بھی ہے؛ لیکن آخر ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ ان بچوں کی آوازیں مساجد کی رونق ہوا کرتی ہیں، اگر یہ آوازیں گونجنا بند ہو جائیں تو کوئی بعید نہیں کہ مستقبل میں مساجد خالی نظر آئیں گی، مساجد میں بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے پرہیز کریں۔ شاید آپ نہیں جانتے کہ آپ کا یہ عمل بچوں کے دل میں مساجد کے لیے کتنی نفرت پیدا کر سکتا ہے، مساجد اللّٰہ کے گھر ہیں، بے شک مسجد کا احترام ضروری ہے؛ لیکن اگر بچے شور وغل کرتے ہیں تو انہیں محبت وشفقت سے بھی سمجھایا جا سکتا ہے۔ مجھے یاد آتا ہے میں "مدرسہ فردوس العلوم” لعل گنج میں تھا، غالباً عصر بعد کا وقت تھا، کسی بڑے بچے نے کسے چھوٹے بچے پہ ہاتھ اٹھایا تو اس بچے نے صدر مدرس صاحب "مولانا داؤد صاحب قاسمی” سے شکایت کی، مولانا نے اس بڑے بچے کو بلایا اتفاق سے راقم بھی وہیں کھڑا تھا، مولانا نے اس بڑے بچے سے کہا کہ آپ کے مارنے پیٹنے سے بچے آپ کی عزت نہیں کریں گے؛ بلکہ آپ سے ڈریں گے؛ لہذا اس بات کا خیال رکھیں کہ پہلے آپ بچوں کے ساتھ شفقت کا معاملہ کریں، تبھی بچے آپ کی عزت کریں گے، اور اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے، کوشش کریں کہ بچوں کو محبت وشفقت کے ساتھ سمجھائیں ۔
عصرِ حاضر کی صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ والدین بچوں کی آخرت سے زیادہ بچوں کی دنیا بنانے میں مصروف ہیں، والدین خود اپنی اولاد سے کہتے ہیں کہ؛ بیٹا / بیٹی! سو جائیں کل صبح اسکول جانا ہے، کیا کبھی آپ نے یہ سنا کہ والدین یہ کہتے ہوں کہ: بیٹا / بیٹی! سو جائیں صبح فجر کی نماز ادا کرنی ہے؟ تاخیر سے سوئیے گا تو نماز فوت ہو جائے گی، تمام والدین کا یہی حال ہے الا ماشاء اللّٰہ۔ آپ کے اس عمل سے بچے کیا سمجھیں گے؟ بچوں کے ذہن و دماغ میں یہ بات ثبت ہو جائے گی کہ نماز کی اہمیت نہیں ہے؛ حالاں کہ نماز فرض ہے اور فرض میں گنجائش نہیں ہوتی۔ اگر آپ اپنے بچوں کو اللّٰہ و رسول کی تعلیمات سے دور رکھیں گے تو یاد رکھیں کہ یہ بچے روزِ محشر اللّٰہ سے آپ کی شکایت تو کریں گے ہی اور دنیا میں بھی آپ کے مطیع نہیں بنیں گے، جیسا کہ اکثر والدین کی شکایت رہتی ہے کہ ہمارے بچے ہم سے وفا نہیں کرتے ہیں، ہماری بات نہیں مانتے ہیں، یا ہمیں اہمیت نہیں دیتے ہیں، آخر وہ آپ کی بات کیوں کر مانیں گے؟ آخر وہ آپ سے وفا کیوں کر کریں گے؟ جب کہ آپ خود اپنے مالک حقیقی کے وفادار نہیں ہیں۔ والدین کو اس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، اس کے علاوہ والدین کو زندگی کے ہر پہلو میں مثبت رویہ اختیار کرنا چاہیے! تاکہ ہر طرح کے مشکل حالات میں مایوسی سے بچ سکیں؛ کیوں کہ یہ نہ صرف رب سے قربت کا ذریعہ ہے؛ بلکہ ذہانت، سوچ، اور اعمال کو مؤثر بناتا ہے، اور آپ کی اولاد بھی آپ سے یہی سیکھے گی اور زندگی خوشی کا گہوارہ بن جائے گی؛ کیوںکہ ہر والدین اپنی اولاد کو ہر حال میں خوش دیکھنا چاہتے ہیں، چاہے وہ دنیاوی خوشی ہو یا اخروی؛ اسی لیے والدین کو گھر میں دینی ماحول فراہم کرنا چاہیے اور اپنی اولاد کو کم از کم اتنی دینی تعلیم ضرور دلائیں کہ وہ حرام و حلال کی تمیز کر سکیں، اپنی نسل کو دین دار بنا سکیں، صحیح اور درست انداز میں قرآن پڑھ سکیں اور پڑھا سکیں، نکاح پڑھا سکیں اور آپ کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے بھی اہل ہوسکیں۔ اگر اس طرح دینی تربیت کی جائے تو ان شاء اللّٰہ ہماری اولاد دین سے قریب تر ہوں گی، اس کے علاوہ بچوں کو علم و فن کی تعلیم دیں؛ تاکہ وہ سماجی مسائل کو سمجھیں اور ان کے حل کے لیے مؤثر طریقوں کو تلاش کریں، ان سب کے علاوہ زندگی میں صلہ رحمی سیکھنا بھی انتہائی ضروری ہے؛ کیوں کہ یہ وہ ہتھیار ہے جو ہمیں پل صراط پر گرنے سے بچا سکتا ہے؛ لیکن آج کل گھروں کا جو ماحول دیکھنے کو ملتا ہے وہ یوں ہوتا ہے کہ مائیں اپنے سسرالیوں کی برائی میں ہوتی ہیں اور غیبت و چغلی کو اپنا شیوہ بنا لیا جاتا ہے اور یہی آپ سے آپ کے معصوم نو نہالان سیکھتے ہیں اور اس معصومیت بھری عمر میں بھی افراد خاندان سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اور بھی کئی برائیاں ہیں جو تربیتِ اولاد میں بہت خلل پیدا کر رہی ہیں؛ لیکن معمول سے زیادہ طوالت ہونے کی وجہ سے راقم انہیں باتوں پر اکتفا کرتا ہے، امید ہے ان باتوں پر عمل کیا جائے گا، تو ان شاء اللّٰہ اولاد کی نیک دینی تربیت ہوگی۔