شکر گزار بنیں اور ناشکری سے بچیں!
از قلم: محمد قمر الزماں ندوی
اللہ تعالیٰ نے بندے کو شکر گزار بننے کو کہا ہے اور ناشکری سے بچنے کی تاکید کی ہے ، حکم ربانی ہے اور میرا شکر گزار بنو اور ناشکری مت کرو ۔ دوسری جگہ فرمایا: اگر شکر گزار بنو گے تو میں ضرور تمہارے لیے نعمتوں میں اضافہ کروں گا اور اگر ناشکری کروگے تو یاد رکھو! میری پکڑ بڑی سخت ہے ۔
حدیث شریف کے مطابق شکر گزار دل اور ذکر والی زبان اگر کسی انسان کو مل جائے تو وہ بہت ہی قیمتی اور سعادت مند انسان ہے ۔ انسان کو ہر وقت خدا کی نعمتوں کا اسحضار کرکے خدا کا شکر بجا لانا چاہیے ۔ بلکہ اگر کوئی انسان کسی پر احسان و کرم کرے اور وقت پر اس کے کام آئے یا وقت پر اس کا ساتھ دے تو اس بندے کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے اور ان کے لیے دعائیں کرنی چاہیے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے ،، جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا ۔۔۔
لیکن انسان کی فطرت اور طبیعت میں ناشکری اور احسان فراموشی کی عادت عام ہے ، انسان خدا کا ناشکرا ہوتا ہے ، نعمتوں اور رحمتوں کو بھول جاتا ہے اور وقتی امتحان اور پریشانی کو یاد کرکے بے چین نظر آنے لگتا ہے ۔ انسان کی اسی فطرت کو قرآن مجید میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان ناشکرا ہے ، انسان جلد باز ہے ۔ کہیں کہا گیا کہ اکثر لوگ شکر گزار نہیں ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ
یہ بھی پڑھیں:
ایک بار حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رح اپنی بیٹی کے گھر ملنے گئے ، اتفاق سے صاحبزادی کے دانت میں درد اور تکلیف تھی اور وہ درد سے بے چین تھی ۔ علیک سلیک کے بعد مفتی صاحب نے بیٹی سے خیرت معلوم کی ۔ تو بیٹی نے کہا ابا دانت میں درد اور تکلیف بہت ہے ، آگے بولی ابا یہ دانت کا معاملہ بھی عجیب ہے ، بچپن میں نکلتا ہے تو تکلیف دیتا ہے اور اخیر عمر میں جب ٹوٹتا ہے تو بھی تکلیف دیتا ہے ۔ صاحب زادی کی زبان سے یہ جملہ سننا تھا کہ مولانا سخت ناراض ہوئے اور فرمایا بیٹی ! یہ تو تم کو یاد رہا کہ دانت کے نکلتے وقت بھی تکلیف ہوئی اور اب بڑھاپے میں جب ٹوٹ رہا ہے تو تکلیف ہورہی ہے ۔ لیکن درمیان کے پچاس ساٹھ سالوں میں ان دانتوں سے خدا کی کتنی نعمتوں کو استعمال کیا اور مزہ لے لے کر کھایا اس کو تم بھول گئی ۔۔ صاحب زادی کو فورا اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اپنے اس جملہ پر نادم ہوئی ۔۔۔۔ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رح کی تربیت کا اپنا انداز تھا ، اولاد سے محبت اور شفقت اپنی جگہ ، لیکن اگر اولاد کی زبان سے کوئی ایسا جملہ نکلے جو خدا کو ناراض کرنے والا ہو تو فورا متنبہ کرنا چاہیے ۔
یہاں ہم ایک اور واقعہ کا ذکر کریں گے۔ جس سے معلوم ہوگا کہ انسان مثبت اور منفی فکر کی بنیاد پر الگ الگ زاویہ سے اپنی زندگی کے بارے میں سوچتا ہے ۔ مثبت فکر کا انسان شکر گزار بن جاتا ہے اور منفی سوچ کا انسان ناشکرا بنا رہتا ہے اور مزید الجھن میں اپنے کو ڈال لیتا ہے ۔ اس لیے سب سے پہلے فکری زاویہ کو درست کرنا چاہیے ۔۔۔۔۔ بہر حال اس واقعہ کو سنئے اور مثبت اور منفی دونوں کردار کو ملاحظہ کیجئے۔
ایک مشہور مصنف نے اپنے مطالعے کے کمرےمیں قلم اٹھایا اور ایک کاغذ پر لکھا : گزشتہ سال میں، میرا آپریشن ہوا اور پتا نکال دیا گیا، بڑھاپے میں ہونے والے اس آپریشن کی وجہ سے مجھے کئی ہفتے تک بستر کا ہو کر رہنا پڑا ۔ اسی سال میں ہی میری عمر ساٹھ سال ہوئی اور مجھے اپنی پسندیدہ اور اہم ترین ملازمت سے سبکدوش ہونا پرا۔ میں نے نشرو اشاعت کے اس ادارے میں اپنی زندگی کے تیس قیمتی سال گزارے تھے ۔ اسی سال ہی مجھے اپنے والد صاحب کی وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا ۔ اسی سال میں ہی میرا بیٹا اپنے میڈیکل کے امتحان میں فیل ہو گیا، وجہ اس کی کار کا حادثہ تھا جس میں زخمی ہو کر اُسے کئی ماہ تک پلستر کرا کر گھر میں رہنا پڑا، کار کا تباہ ہوجانا علیحدہ سے نقصان تھا۔
صفحے کے نیچے اس نے لکھا : آہ، کیا ہی برا سال تھا یہ!!!
مصنف کی بیوی کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ اُس کا خاوند غمزدہ چہرے کے ساتھ خاموش بیٹھا خلاؤں کو گُھور رہا تھا ۔ اُس نے خاوند کی پشت کے پیچھے کھڑے کھڑے ہی کاغذ پر یہ سب کچھ لکھا دیکھ لیا ۔ خاوند کو اُس کے حال میں چھوڑ کر خاموشی سے باہر نکل گئی ۔ کچھ دیر کے بعد واپس اسی کمرے میں لوٹی تو اس نے ایک کاغذ تھام رکھا جسے لا کر اُس نے خاموشی سے خاوند کے لکھے کاغذ کے برابر میں رکھ دیا ۔ خاوند نے کاغذ کو دیکھا تو اس پر لکھا تھا۔
اس گزشتہ سال میں آخر کار مجھے اپنے پتے کے درد سے نجات مل گئی جس سے میں سالوں کرب میں مبتلا رہا تھا ۔ میں اپنی پوری صحت مندی اور سلامتی کے ساتھ ساٹھ سال کا ہو گیا۔ سالوں کی ریاضت کے بعد مجھے اپنی ملازمت سے ریٹائرمنٹ ملی ہے تو میں مکمل یکسوئی اور راحت کے ساتھ اپنے وقت کو کچھ بہتر لکھنے کیلئے استعمال کر سکوں گا ۔ اسی سال ہی میرے والد صاحب پچاسی سال کی عمر میں بغیر کسی پر بوجھ بنے اور بغیر کسی بڑی تکلیف اور درد کے آرام کے ساتھ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ اسی سال ہی اللہ تعالیٰ نے میرے بیٹے کو ایک نئی زندگی عطا فرما دی اور ایسے حادثے میں جس میں فولادی کار تباہ ہو گئی تھی مگر میرا بیٹا کسی معذوری سے بچ کر زندہ و سلامت رہا ۔
آخر میں مصنف کی بیوی نے یہ فقرہ لکھ کر تحریر مکمل کی تھی کہ : واہ ایسا سال، جسے اللہ نے رحمت بنا کر بھیجا اور بخیرو خوبی گزرا۔
وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ ﴿٧٣﴾ "اور بے شک تیرا رب تو لوگوں پر فضل کرتا ہے لیکن ان میں سے اکثر شکر نہیں کرتے” (سورة النمل)