لوک سبھا میں سانس
از قلم: شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
لوک سبھا میں گزشتہ دس برسوں کے دوران اپوزیشن جس ڈپریشن میں تھی ، اُس پر جو مایوسی طاری تھی ، اُسے پیر یکم جولائی کے روز راہل گاندھی نے رفع کر دیا ۔ صدر جمہوریہ کے خطاب پر ، اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ، اظہار تشکر کرتے ہوئے راہل گاندھی نے جو خطاب کیا ، ایک سطر میں اسے ’ حکمراں جماعت کو دھونا ‘ کہا جا سکتا ہے ۔ ’ دھونا ‘ سے مراد سچ کو اس انداز سے رکھ دینا ہے کہ جِس کو یا جنہیں ’ دھویا ‘ جا رہا ہے وہ تلملاتے اور شکایت کرتے رہ جائیں ۔ جس نے بھی اُس دن کی لوک سبھا کی کارروائی دیکھی ہے ، وہ وزیراعظم نریندر مودی ، اسپیکر اوم برلا ، ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے چہروں کے تاثرات اور کیفیات کبھی بھلا نہیں سکے گا ۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران پہلی دفعہ یہ لگ رہا تھا کہ ملک میں کوئی اپوزیشن بھی ہے ، جو برسرِ اقتدار جماعت بی جے پی اور اس کے حلیفوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتی ہے ۔ معروف نیوز اینکر پنیہ پرسون باجپائی کی زبان میں ’ پہلی دفعہ لگا کہ پارلیمنٹ میں سانس لی جا رہی ہے ۔‘ یقین ہے کہ سانس لینے کا یہ عمل سارے ملک کو اپنی گرفت میں لے لے گا ، کم از کم وہ سانس لینے لگیں گے ، جن کی سانسیں بند کرنے کے لیے سی اے اے اور یو اے پی اے جیسے قانون لائے گیے ہیں ، جنہیں یہ باور کرانے کے لیے پوری طاقت لگا دی گئی تھی کہ اس ملک میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، وہ حاشیے سے بھی باہر ہیں ۔ پچھڑے ، دلت ، غریب ، قبائیلی ، آدی واسی ، حقوقِ انسانی کے کارکنان اور اس ملک کے مسلمان ۔ راہل گاندھی نے جو بات کہی وہ بات اب بار بار کہنے کی ضرورت ہے ۔ راہل گاندھی نے کہا ،’’ یہ نفرت اور خوف کا ملک نہیں ہے ، بی جے پی کے لوگ جو خود کو ہندو کہتے ہیں ، وہ ہر وقت تشدد اور نفرت کی بات کرتے ہیں ، لیکن وہ ہندو نہیں ہیں ۔‘‘ راہل کا سیدھا حملہ وزیراعظم پر ، بی جے پی اور آر ایس ایس پر تھا ۔ انہوں نے صاٖف لفظوں میں کہا کہ مودی ، بی جے پی یا آر ایس ایس ہندو نہیں ہیں ، کیونکہ یہ تشدد پھیلاتے ہیں ۔ راہل گاندھی کا حملہ اس قدر سخت تھا کہ حکمراں جماعت کو اپنے بچاؤ کے لیے وہی گھسا پٹا حربہ اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا کہ ’ راہل گاندھی نے ہندوؤں کی توہین کی ہے ۔‘ لیکن اپوزیشن کے تیور سخت تھے ، ان کے دلائل مضبوط تھے ۔ بھاجپائیوں کے پاس راہل گاندھی کی کسی بھی بات کا کوئی مدلل جواب نہیں تھا ۔ منی پور ، اگنی ویر ، نوٹ بندی ، کسان ، نیٹ ، جی ایس ٹی ، اڈانی ، امبانی غرضیکہ جن باتوں کو راہل گاندھی اور اپوزیشن نے اٹھایا اُن سب پر مودی سرکار ’ بیک فُٹ ‘ پر ہی نظر آئی ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ راہل گاندھی نے اپنے خطاب میں ’ ڈر ‘ پر بھی بات کی ، اور مختلف مذاہب کے حوالوں سے کی ، مذہبِ اسلام کا بھی حوالہ دیا کہ ‘ اسلام کہتا ہے کہ نہ ڈرنا چاہیے اور نہ ڈرانا چاہیے ۔‘ ظاہر ہے کہ ایک ایسے ایوان میں جہاں بی جے پی اور اس کے حلیفوں کی اکثریت ہو ، وہاں مذہبِ اسلام کا ذکر معمولی بات نہیں ۔ لفظ ’ اسلام اور مسلمان ‘ بی جے پی کے لیے ، اپنے نفرت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ ہیں ۔ اسلام کا ذکر کرکے راہل گاندھی نے مودی حکومت اور بی جے پی کو ایک چیلنج دے دیا ہے کہ اب اُن لفظوں اور اُن ناموں کا استعمال بھی پارلیمنٹ میں کیا جائے گا ، جو تم سب کو پسند نہیں ہیں ۔ لوک سبھا کے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے راہل گاندھی کے خطاب سے بھاجپائیوں کو کس قدر شاک لگا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ مہاراشٹر قانون ساز کونسل میں راہل گاندھی کے خطاب کی مذمت میں ایک تجویز تک پیش کر دی گئی ، اور وہاں اپوزیشن لیڈر کو پانچ دنوں کے لیے معطل کر دیا گیا ۔ یقیناً راہل گاندھی کی تقریر کو نفرت پھیلانے کے لیے ایک موضوع بنایا جائے گا ، لیکن ایسی تقریریں ضروری ہیں تاکہ ڈر اور خوف کی جو ایک فضا چھائی ہوئی تھی وہ مکمل طور پر چھٹ جائے اور ملک میں لوگ آزادی کے ساتھ سانس لے سکیں ، آزادی سے اپنی بات کہہ سکیں ۔