جمہوری اور سیکولر ملک میں  بقائے باہم کے  اصول
جمہوری اور سیکولر ملک میں  بقائے باہم کے  اصول

جمہوری اور سیکولر ملک میں بقائے باہم کے اصول ✍️ مسعود جاوید ___________________ پچھلے دنوں ٹرین پر سوار بعض مسافروں کا ریل گاڑی کے ڈبوں کی راہداریوں میں نماز ادا کرنے کے موضوع پر کچھ لکھا تھا اس پر بعض پرجوش مسلمانوں بالخصوص فارغين مدارس اور دینی جماعتوں سے نسبت رکھنے والوں نے ناراضگی کا […]

ہٹلر کی راہ پر

✍️ شکیل رشید

ایڈیٹر ممبئ اردو نیوز

__________________

اتر پردیش اور اترا کھنڈ میں انتظامیہ کے اس حکم کے بعد کہ لوگ اپنی دکانوں ، ہوٹلوں ، ڈھابوں ، ٹھیلوں اور تجارتی ٹھکانوں پر اپنے ناموں کی تختیاں لگائیں ، یہ واضح ہو گیا ہے کہ وہ عناصر جو اب تک اس ملک کو ہندوتوا کے راستے پر چلانے کے لیے کوشاں تھے ، انہوں نے اب نازی ازم کی راہ بھی پکڑ لی ہے ۔ ویسے ان دونوں میں معمولی سا ہی فرق ہے ، بلکہ بس نام ہی کا فرق ہے ، ورنہ اپنی ذہنیت ، آئیڈیالوجی اور اپنی سوچ میں یہ تقریباً یکساں ہی ہیں ۔ دونوں کی بنیاد میں نسلی تفاخر شامل ہے ۔ اور دونوں ہی اپنی ذریت کے سوا باقیوں کو پرایا بلکہ اچھوت سمجھتے ہیں ، اور اسی بنا پر باقیوں کا معاشی بائیکاٹ ، ان کی مآب لنچنگ اور تطہیر کو جائز بلکہ اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ۔ فلمی دنیا کی معروف شخصیت جاوید اختر نے مذکورہ حکم کو ہٹلر اور نازی ازم سے وابستہ کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی ہے ، بلکہ یہ کہہ کے کہ ہٹلر کے حکم پر ایک مخصوص فرقے کی دکانوں اور مکانوں پر نشانیاں لگائی ہی اس لیے جاتی تھیں کہ شناخت آسان ہو تاکہ انہیں تباہ اور برباد کیا جا سکے ، اس بات کی طرف بھی واضح اشارہ کر دیا ہے جسے کہنے میں بہت سارے لوگ ہچکچاتے تھے ؛ یہ اشارہ کہ یہ حکم یا فیصلہ صرف مسلمانوں اور دلتوں کے معاشی بائیکاٹ ہی کا نہیں ہے ، انہیں تباہ اور برباد کرنے کا بھی ہے ۔ جس نے نازی جرمنی اور ہٹلر کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے خوب جانتا ہے کہ دکانوں اور مکانوں پر نشانیاں لگانے سے ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا تھا جو معاشی بائیکاٹ سے ہوتے ہوئے نسل کشی تک پہنچا تھا ۔ ہندوتوا دی اسی راہ پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اتر پردیش کی پولیس کا حکم دراصل وہاں کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا حکم ہے ، جو اسلامو فوبیا کے پرانے مریض ہیں ، انہیں مسلمانوں کو ستانے کا ہیضہ ہے ۔ وہ اور ان ہی کی طرح کے مزید نام نہاد سیاست دان ہیں جو اسلامو فوبیا میں سر سے لے کر پیر تک غرق ہیں ۔ یوگی کی پولیس ناموں کی تختیوں کا لگانا قیام امن کے لیے ضروری سمجھتی ہے ، اس کا ماننا ہے کہ اس طرح کانوڑ یاتریوں کو پتا رہے گا کہ وہ کس فرقے کی دکان اور ڈھابے سے کھا پی رہے ہیں اور اس طرح ان کے مذہبی احساسات کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچے گی ۔ مطلب صاف ہے اور کانوڑ یاتریوں کے لیے کھلا اشارہ بھی کہ کسی ایسے کی دکان سے کچھ نہ خریدیں جو تمہارے دھرم کا نہیں ہے ۔ اور ایسا کون ہوسکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ مسلمان اور دلت ۔ یہ معاشی بائیکاٹ نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ جمہوریت ، سیکولر ازم اور اس ملک کے آئین سے کھلواڑ نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ آئین کی ان شقوں کی ، جو ملک کے ہر مذہب کے لوگوں کو یکساں سمجھنے سے متعلق ہیں ، توہین ہے ، اور آئین کی توہین ملک سے غداری ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ناموں کی تختیاں دیکھ کر شرپسند ان پر حملہ نہیں کریں گے؟ کیا ناموں کی تختیاں شرپسندوں کے لیے اپنے اہداف کی شناخت کا صاف صاف اشارہ نہیں ہوں گی؟ کیوں نہ یہ سمجھا جائے کہ یہ تختیاں مخصوص دکانوں اور تجارتی ٹھکانوں پر حملہ کرنے کی کھلی چھوٹ ہیں؟ اگر شرپسندوں نے اور کانوڑیوں نے ہنگامہ کرکے انہیں تباہ اور برباد کر دیا تو کیا انہیں معاوضہ ملے گا؟ یقیناً نہیں ؛ لہذا اس طرح کے غیر آئینی اور فاسشٹ فیصلے کو واپس ہی لیا جائے ، یہی ایک راستہ ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: