Slide
Slide
Slide

عروج تیری خبر جب زوال لیتا ہے

کیا بی آر ایس کا سیاسی وجود خطرے میں ہے؟

✍️ سید سرفراز احمد

________________

سیاست میں چڑھتے سورج کو پوجنا عام سی بات ہے سیاست ایک ایسا شعبہ بھی ہے جو جتنی تیز رفتار سے عروج تک پہنچاتا ہے اتنی ہی تیزرفتار سے زوال تک بھی لاتا ہے آئے دن اس طرح کے سیاسی عروج وزوال کے حقیقی مناظر ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے بھی ہیں خاص طور پر جمہوری ممالک میں اس طرح واقعات رونما ہونا عام سی بات ہے لیکن سیاسی قائدین اس عروج و زوال کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود بھی اپنی سیاسی چال بازیوں سےگریز نہیں کرتے یہ وہی شعبہ ہے جس میں حکمرانی کی مسند عطا ہوتے ہی انتقامی کاروائیوں کو انجام دیا جاتا ہے ایسا نہیں کہ یہ سب یکطرفہ ہوتا ہے بلکہ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو وہ برسراقتدار پر قابض ہوتے ہی حزب اختلاف کے سیاسی قائدین سے اس طرح انتقام لیتی ہے جیسے کہ انھیں اقتدار وراثت میں ملا ہو۔

علحدہ تلنگانہ کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے کلوا کنٹا چندر شیکھر راؤ دس سالہ اقتدار حاصل ہونے کے بعد اس وقت سیاسی بحران کے دور سے گذر رہے ہیں تلنگانہ تحریک میں ہیرو کی طرح کردار ادا کرنے والے آج سیاسی طور پر اتنے کمزور اور چت ہوچکے ہیں کہ اب انھیں بیساکھی بھی کھڑا کرنے میں مدد کرتی نظر نہیں آرہی ہے جس وقت تلنگانہ تحریک نے زور پکڑا تھا اس وقت مرکز میں کانگریس حکومت کا دور چل رہا تھا کانگریس حکومت کو تلنگانہ تحریک کے آگے جھکنا ہی پڑا اور علحدہ تلنگانہ کے قیام کا اعلان کردیا اس تحریک کا سب سے بڑاسیاسی فائدہ کے سی آر کو ہوا علحدہ تلنگانہ کے قیام کے بعد پہلے اسمبلی انتخابات میں ہی63اراکین اسمبلی کی نشستیں حاصل کرتے ہوئے انھیں شاندار جیت حاصل ہوئی اس بناء پر کہ وہ تلنگانہ تحریک کے پیش رو تھے لیکن بی آر ایس کومسلسل دوسری مرتبہ 99 اراکین اسمبلی کی نشستیں حاصل ہوئی جو پہلی جیت سے بھی ذیادہ شاندار جیت تھی جسمیں اپوزیشن رائی کے دانے کے برابر ہوچکی تھی عوام کی جانب سے کے سی آر کو عالی شان جیت دلوانے پر وہ اس وہم گمان کا شکار ہوگئے تھے کہ میں ہی تلنگانہ کا اصل حقدار ہوں اور شائد یہ خیال کر بیٹھے تھے کہ اب مجھے اقتدار سے کوئی بے دخل نہیں کرسکتا کہا جاتا ہے جمہوریت میں جب حکمران جماعت کو بھاری اکثریت حاصل ہوجاتی ہے تو وہ تانا شاہی کے خواب سجانے لگتا ہے لیکن یہی جمہوریت کی اصل طاقت عوام ہوتی ہے عوام جب آئینہ دکھانا چاہتی ہے تو کوئی بھی مائی کا لال کچھ نہیں کرسکتا اور عوام نے اسی مثال کو 2024 میں پیش کرکے بتادیا اسکی ایک مثال خود نریندر مودی اور پڑوسی ریاست کے سابق حکمران جگن موہن ریڈی کی بھی ہے۔

بی آر ایس کا دس سالہ دور اقتدار پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے جتنے اچھے اس دور میں کام ہوئے انھیں فراموش بھی نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس دور کی فلاحی اسکیمات کو فراموش کیا جاسکتا لیکن پھر سوال یہ ہیکہ آخر وہ کیا وجوہات تھی جس نے بی آر ایس کی حکمرانی کو ایک جھٹکے میں صاف کردیا؟دور حکومت کسی کا بھی ہو لیکن خامیاں اور خوبیاں ضرور پائی جاتی ہے لیکن انکا احتساب لازمی ہے بی آر ایس نے یہی نہیں کیا چندر شیکھر راؤ خود ایک ایسے تانا شاہ بن بیٹھے تھے وہ عوام کے درمیان آنا تو دور کی بات ہے اپنے ہی اراکین اسمبلی و پارٹی کیڈر سے بہت کم ملاکرتے تھے جس سے حکومت اور عوام وقت کے وزیر اعلی اور اراکین اسمبلی میں دوریاں پیدا ہوئیں دوسری وجہ کے سی آر کی اس دوری کے نتیجہ میں اراکین اسمبلی ہو کہ پارٹی کیڈر اپنے اپنے علاقے میں تانا شاہ بن بیٹھے تھے عوامی رابطے منقطع ہوگئے تھے جس سے عوام ایک تو خود اپنے ہی علاقوں کے اراکین اسمبلی اور پارٹی کیڈر سے ناراض تھی اور دوسرا کے سی آر کی جنھوں نے اپنے آپ کو تلنگانہ کے راجہ کے طور پر پیش کیا تھا اسکو رد کردیا تیسری وجہ یہ تھی کہ 2024 کے اسمبلی انتخابات میں بی آر ایس کے جن اراکین اسمبلی کو عوام نے پہلے سے ہی ناپسنددیگی کا اظہار کردیا تھا لیکن کے سی آر نے یہاں بھی عوام کی ایک نہ سنی اور ان ہی کو دوبارہ ٹکٹ دے کر غلطی کربیٹھے شائد یہ زعم میں تھے کہ اگر کوئی امیداوار میری پسند ہوتو وہی عوام کی بھی ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا اگر بی آر ایس ان غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کرتی تو وہ آج برسر اقتدار ہوتی۔

اسمیں کوئی شک نہیں ہیکہ کے ٹی راما راؤ اور ہریش راؤ نے بہت اچھے سے اپنی وزرات کے عہدے سنبھالے ہیں بالخصوص انفارمیشن ٹکنالوجی میں شہر حیدرآباد کو کے ٹی آر نے ہب بنانے میں اہم رول ادا کیا اب سوال یہ ہیکہ کیا بی آر ایس اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرپائے گی؟ابھی بی آر ایس کو جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ بی آر ایس کیلئے سخت آزمائش کے مترادف ہے ایک کے بعد ایک اراکین اسمبلی کانگریس میں شامل ہوتے ہوئے گھر واپسی کررہے ہیں دس سے زائد اراکین اسمبلی ابھی تک کانگریس میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں چھ ایم ایل سی بھی کانگریس میں شامل ہوچکے ہیں اور ایسے بھی قائدین کانگریس میں شامل ہورہے ہیں جنکو کے سی آر نے اپنے شانوں پر بٹھا کر رکھا تھا جو بی آر ایس دور اقتدار میں وزارت کے عہدوں پر فائز تھے حالانکہ بی آر ایس اور کانگریس میں رائے دہی کا تناسب دیکھیں تو کچھ ذیادہ فرق نہیں تھا چونکہ بی آر ایس کے حق میں رائے دہی کا تناسب 37 فیصد سے کچھ ذیادہ تھا اور کانگریس کے حق میں رائے دہی کا تناسب 39 فیصد سے زائد تھا لیکن بی آر ایس 39 نشستوں تک سمٹ کر رہ گئی اور کانگریس 64 نشستوں کے ساتھ اقتدار میں آگئی۔

اس وقت کئی افواہیں گشت کررہی ہیں کہ کیا بی آر ایس بی جے پی میں ضم ہوجائے گی؟یا پھر بی آر ایس بی جے پی سے مفاہمت کرتے ہوئے اپنا سیاسی سفر جاری رکھے گی؟لیکن یہ تو آنے والا وقت طئے کرے گا کہ بی آر ایس کی اگلی سیاسی حکمت کیا رہے گی جو کانگریس چھ گیارنٹی کے ساتھ اسمبلی انتخابات میں عوام کو اپنی طرف راغب کرنے میں تو کامیاب ہوچکی ہے لیکن ابھی کام بہت باقی ہے دیکھنا یہ ہیکہ کیا کانگریس آگے بھی عوام کے دل جیتنے کا ہنر رکھتی ہے یا نہیں لیکن یہاں کانگریس کو بی آر ایس سے بھی سبق سیکھنا چاہیئے کہ اگر عوامی مفادات کو ملحوظ نہ رکھا جائے یا عوام سے قربت نہ رکھی جائے تو وہ دن دور نہیں کہ کانگریس کا حشر بھی بی آر ایس جیسا ہوسکتا ہےچونکہ عوام کی ہمیشہ شکایت رہی ہیکہ کانگریس حکومت نظم و نسق کی پابندی میں بہت پیچھے ہوتی ہے اسی طرح کانگریس کو اقلیتی اداروں پر بھی گہری نظر رکھنی ہوگی اقلیتی اداروں کے متعلق جو الزامات بی آر ایس پر عائد کیئے جاتے تھے کانگریس اسکو ابھی شفاف بنانے میں پیچھے ہے اسکے علاوہ ابھی تلنگانہ میں فرقہ پرست جماعت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے جو کانگریس کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا جسطرح لوک سبھا انتخابات میں دیکھنے کو ملا ہےلہذا ریونت ریڈی اپنی دور حکمرانی کو ابھی سے ایک مثالی حکومت بنانے کا کام کریں ورنہ بقول وسیم بریلوی ؎
بڑے بڑوں کی طرح داریاں نہیں چلتیں
عروج تیری خبر جب زوال لیتا ہے

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: