تحریر: ششی تھرور
ترجمہ: ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
________________
حال ہی میں بھارت اور برطانیہ میں ایک ماہ کے وقفہ سے ہونے والے انتخابات کے نتائج کا تقابلی جائزہ ایک پیچیدہ کہانی بیان کرتا ہے، جیسا کہ میں نے سوشل میڈیا پر چٹکی لیتے ہوئے لکھا تھا: ’اب کی بار 400 پار‘ تو ہوا لیکن اُس ملک میں نہیں جس کے وزیراعظم نے اس کی پیش قیاسی کی تھی، یہ برطانیہ کی لیبر پارٹی تھی جس نے اس دشوار گذار دہلیز کو عبور کیا، اور کنزرویٹو پارٹی کو شکست دے کر پر اپنی سب سے متاثر کن جیت درج کی، جب کہ بھارت میں بر سر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی، جو اس نعرہ پر اتراتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی، اپنی اکثریت کھو بیٹھی ہے، اور اب حکومت کوقائم رکھنے کے لیے اتحادیوں پر منحصر ہے، دونوں انتخابات میں، ووٹروں نے برسر اقتدار پارٹیوں کے بلند بانگ دعووں کو کھوکھلا ثابت کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا، اور ان کو گویا مخاطب کر کے زبان حال سے کہہ دیا:
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
اس سال کے آخر تک 60 سے زائد ممالک، جو تقریباً چار ارب لوگوں کی آبادی رکھتے ہیں، قومی انتخابات کر چکے ہوں گے، جب کہ ماہرین ان میں کوئی مشترک پیٹرن تلاش کرنے میں ناکام ہیں، 2023 کا وسیع تر بیانیہ”جمہوریت کا عدم استحکام” تھا، دنیا بھر کی حکومتیں زیادہ مطلق العنان، آمرانہ، افراد اور میڈیا کی آزادی کی کم احترام کرنے والی، خودمختار اداروں کے لیے کم دوستانہ اور اپنے طرز حکمرانی پر نظام احتساب وتوازن کی کم پابند سمجھی گئیں۔
جیسا کہ سیموئیل ہنٹنگٹن نےجمہوریت کی "تیسری لہر” کی وضاحت کی تھی۔ عالمی سطح پر جمہوری حکمرانی کا بڑھتا ہوا پھیلاؤ ۔جو دوسری جنگ عظیم کے اختتام سے لے کر سرد جنگ کے اختتام تک ہوا۔ پچھلی ڈیڑھ دہائی میں کمزور ہوگیا ہے، جمہوریت کی صورت حال کے جائزہ کے لیے مشہور امریکی تھنک ٹینک فریڈم ہاؤس، نے 2023 میں عالمی آزادی میں متواتر 17ویں سال گراوٹ پر رپورٹ شائع کی، اس تنظیم کی سالانہ رپورٹ میں افریقہ میں منتخب رہنماؤں کے خلاف بغاوتوں سے لے کر متعدد ممالک بشمول بھارت میں صحافیوں پر حملوں تک کا ذکر کیا گیا۔
تسلی بخش نتائج:
تنہا فریڈم ہاؤس نے ہی ایسی رپورٹ نہیں تیار کی بلکہ جمہوریت سے متعلق اکانومسٹ کے اشاریہ نے بھی اسی طرح کا بیانیہ سامنے لایا، جب کہ سویڈن میں واقع بین الاقوامی ادارہ برائے جمہوریت وانتخابی معاونت (IDEA) نے دعویٰ کیا کہ’”دنیا کے ہر خطہ میں جمہوریت مسلسل کمزور ہو رہی ہے”، پھر بھی، بھارت کے رائے دہندگان۔ جنہیں سویڈن کے ورائٹیز آف ڈیموکریسی (V-Dem) انسٹی ٹیوٹ نے "انتخابی خودمختاری” میں بہت کم درجہ پر رکھا تھا۔ نے آمروں کو ان کی اوقات یاد دلاکر ایک آنے والی ’قیامت‘کی پیش گوئی کرنے والوں کو حیران کر دیا، جب کہ برطانیہ اور فرانس میں بھی اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ قدیم ترین جمہوریتوں کی صحت مستحکم رہی۔
اپنے دو مرحلوں کے انتخابی نظام کی بدولت، فرانس نے اپنے پارلیمانی انتخابات میں ایک ملا جلا نتیجہ پیش کیا، پہلے مرحلہ میں ایک غیر ملکیوں سے نفرت کرنے والی اور انتہائی دائیں بازو کی جماعت(نیشنل ریلی) کو سب سے بڑی پارٹی بنادیا اور پھر دوسرے مرحلہ میں "معلق پارلیمان” کی صورت حال پیدا ہوگئی، تین بڑی پارٹیوں پر مشتمل اتحاد (نیو پاپولر فرنٹ)میں سے کسی کو ایک کوبھی تنہا حکومت بنانے کے لیے اکثریت نہیں دی گئی، دوسرے مرحلہ میں بائیں بازو اور اعتدال پسند طاقتوں کے ذریعہ دائیں بازو کو حکومت سے روکنے اور اُمیدواروں کو اس خیمہ سے نکال کر اپنی جانب مائل کرنے کے لیے تکنیکی انتظامات کیے گئے، اور بائیں بازوکی پارٹیوں میں کئی باہمی اختلافات کے باوجود ان کا ایک بلاک بنایا گیا، تاکہ ہر حلقہ میں دائیں بازو کے باہر سے کسی مضبوط ترین امیدوار کو کامیابی حاصل ہو، ان کوششوں نے دوسرے مرحلہ کے نتائج کو پہلے مرحلہ سے یکسر مختلف بنا دیا۔
ایک ایسے انتخابی نظام کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے جو جمہوریت کے خود اصلاحی میکانزم کو واضح طور پر زندہ کرتا ہے، جس کا اصرارتھا کہ ووٹرز اس نمائندہ امیدوار کی قیادت کے حقدار ہیں جو اپنے حلقہ میں 51 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل کر سکے، لیکن جس جمہوریت نے”بقائے باہم” کی اصطلاح ایجاد کی تھی،جس کا مطلب یہ تھا کہ صدر اور وزیر اعظم دو مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ہوں گے، اور یہ بڑی عجیب سی ہم آہنگی کی بات ہے،جو بظاہر مشکل ہے، افسوس کہ یہ جمہوریت بھی مابعد انتخابات اس بات پر سر کھجا رہی تھی کہ اس کے بعد آنے والی حکومت کی نوعیت کیا ہوگی۔
ہلکی روشنی امریکہ کی صورت حال پر :
وہ قوم جو جدید جمہوریتوں میں سب سے قدیم ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، یعنی ریاستہائے متحدہ امریکہ، بعض دوسری وجوہات کی بنا پر مبصرین کے لیے فکرمندی کا باعث ہے کیوں کہ امریکہ چار ماہ بعد منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے، جس میں امریکیوں کو ایک ناقابلِ قبول انتخاب کا سامنا ہے، جیسا کہ میں نے ایک سال قبل اس کالم (انگریزی روزنامہTHE HINDU کے ادارتی صفحہ) میں پیش قیاسی کی تھی، اور وہ یہ کہ دنیا کے سب سے امیر اور ترقی یافتہ ملک کو ایک خطرناک مجرم (جس نے پچھلے انتخابات کے نتائج کے خلاف بغاوت کی کوشش کی) اور ایک 80 سالہ عمر رسیدہ انسان کے درمیان انتخاب کرنا ہے جس کے غیر مربوط مباحثات کی کارکردگی نے اس کی ذہنی تنزلی کے بارے میں سنگین سوالات اٹھائے ہیں، جس مقابلہ کو بے رحمی سے”مخبوط الحواس بہ مقابلہ دیوانہ” کہا گیا، اوریہ کافی مایوس کن ہے، لیکن ایک نئے سروے کے مطابق، ریپبلکن ووٹرز اب ان باغیوں کے لیے زیادہ ہمدردی محسوس کر رہے ہیں جنہوں نے جنوری 2021 میں امریکی دار الحکومت پر دھاوا بولا، اور ایک تہائی سے زیادہ امریکیوں کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن کی 2020 کی انتخابی فتح جائز نہیں تھی، حالانکہ اس کے برخلاف تمام شواہد موجود ہیں، امریکہ میں جمہوریت کی صحت کے بارے میں یہ صورت حال کیا بتاتی ہے؟ کیا ایک اور متنازعہ انتخابی نتیجہ دوبارہ سڑکوں پر تشدد کو ہوا دے سکتا ہے؟ (خیر اب جو بائیڈن کی جگہ انتخابی دوڑ میں کملا ہیرس آچکی ہیں)۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ غیر مغربی دنیا کی نئی جمہوریتوں کے انتخابات نے اس سال جمہوریت کی تسلی کے لیے زیادہ مواقع فراہم کیے ہیں، بنگلہ دیش، بھوٹان، تائیوان، انڈونیشیا، سینیگال، جنوبی کوریا، بھارت، جنوبی افریقہ اور میکسیکو (تاریخی ترتیب کے لحاظ سے) نے انتخابات منعقد کیے جن کے بارے میں بہت سے لوگوں کو تشویش تھی کہ یہ غیر یقینی نتائج اور طویل تنازعات کی طرف لے جا سکتے ہیں، تاہم تمام انتخابات بڑے پیمانے پر پرامن اور باوقار انداز میں مکمل ہوئے، اور ایک کے سوا سب نے نئے حکمراں یا نئے حکومتی نظام کی طرف منتقلی کا مشاہدہ کیا، ایک استثنا بنگلہ دیش ہے، جہاں شیخ حسینہ ایک ایسے الیکشن کے بعد دوبارہ عہدہ پر واپس آئی ہیں جس اہم اپوزیشن جماعت نے بائیکاٹ کیا تھا۔
پاکستان اس فہرست میں شامل نہیں ہے کیوں کہ اس کے انتخابات غیر جمہوری حالات میں ہوئے، جہاں اہم امیدوار جیل میں تھا اور اس کی جماعت پر امتناع عائد تھا، اس جماعت کے نمائندے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے، انتخابی اہلکاروں کی جانب سے بھی بیلٹ پیپرز میں دھاندلی کے الزامات لگائے گئے، اور فوج ایک بے بس شہری حکومت کے پیچھے سے کھلے عام احکامات جاری کررہی تھی، اگر دیگر ممالک کے انتخابات بھی پاکستان جیسے ہوتے، تو واقعی جمہوری بحران کا عالمی خوف حقیقت بن جاتا۔
پیو ریسرچ سینٹر کا سروے:
تمام تر خوش آئند انتخابی خبروں کے باوجود، 24 ممالک میں ہونے والے امریکی تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر کے ایک سروے میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ جمہوریت کے نمائندوں کے لیے حمایت اور تائید کی شرح میں گراوٹ آئی ہے،چنانچہ اس سروے میں تقریباً 59 فیصد رائے دہندگان اپنے جمہوری نمائندوں کے طرز عمل اور طریقۂ کار سے مطمئن نہیں ہیں، اور تین چوتھائی افراد کا احساس ہے کہ منتخب نمائندوں کو عوام کے احساسات کی پرواہ نہیں ہے، جب کہ جمہوری طرز حکمرانی کے متبادل کے لیے حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے، پیو نے نوٹ کیا ہے کہ 13 ممالک میں چوتھائی یا اس سے زیادہ افراد کا خیال ہے کہ ایک ایسا نظام جس میں ایک طاقتور لیڈر بغیر پارلیمنٹ یا عدالتوں کی مداخلت کے فیصلے لے سکتا ہے، حکومت کی ایک اچھی شکل ہے۔
جیسا کہ کالم نگار ایشان تھرور (کھل کر کہوں تو راقم الحروف کے بیٹے) نے سال رواں کے آغاز میں واشنگٹن پوسٹ میں لکھا تھا: "آج اکثر معاشروں میں، غیر لبرل اقدار اور ان کو قبول کرنے والے سیاستداں اپنے لیے زمین ہموار کررہے ہیں، متعدد منتخب حکومتیں بنیادی جمہوری اصولوں مثلاً پریس کی آزادی، عدلیہ و دیگر اداروں کی خودمختاری، اور برسر اقتدار جماعتوں کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی منصفانہ طور پر مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو کمزور کرنے پر آمادہ نظر آتی ہیں”۔
جمہوریت کا مستقبل کسی طرح سے محفوظ نہیں ہے۔