حیات مولانابشارت کریم گڑھولویؒ- میرا مطالعہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
_____________________
مولاناڈاکٹر محمد عالم قاسمی با فیض عالم دین ہیں، لکھتے ہیں، بولتے ہیں، پڑھتے ہیں،مجلس میں مشورے دیتے ہیں، امامت وخطابت کے ساتھ تنظیمی ذمہ داریاں بھی نبھاتے ہیں، تستعلیقی انداز اور وضع قطع کے ساتھ زندگی گذار تے ہیں، ان کے چہرے پر خشونت اور کرختگی کے آثار کبھی میں نے نہیں دیکھے، جب بھی ملتے ہیں، ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے، خندہ رو، خندہ جبیں، ایسے انسان سے مل کر دل خود بخود ان کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے، محبت میں اسیری کے لیے اب تک کوئی ضابطہ اور اصول نہیں بنایا گیا ہے، یہ قلبی کیفیت کسی پر بھی طاری ہوجاتی ہے، آپ پھڑ پھڑا تے رہیے، نکل نہیں سکتے، قلب کی گرفتاری میں ضمانت ملنے کی بھی کوئی دفعہ اب تک جوڑی نہیں جا سکی ہے۔
مولانا محمد عالم قاسمی صاحب سے میر اتعلق کچھ ایساہی ہے، پہلے اس قربت کے مظاہر ے درس قرآن اورجلسہ دستار بندی میں دیکھنے کو ملتے تھے، اب محبت ان ظاہری چیزوں سے اوپر ہو گئی ہے، اس راہ میں ایک مرحلہ وہ بھی ہوتا ہے جب شاعر کو کہنا پڑتا ہے کہ ؎
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
ایک ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
قلب جب عشق مجازی میں گرفتار ہوتا ہے اور اس کو کسی صاحب نسبت بزرگ سے تحریک مل جاتی ہے تو یہ عشق حقیقی کی طرف گامزن ہوجاتا ہے، پھر کائنات کے سر بستہ رازوں کی عقدہ کشائی بھی ہوتی ہے اور معرفت کی منزلیں بھی اسے نصیب ہوجاتی ہیں، ایسا شخص خود کو بھی پہچاننے لگتا ہے،اور رب کو بھی۔
یہ تمہید یہ بتانے کے لیے باندھی گئی ہے کہ مولانا محمد عالم قاسمی کی توجہ ان دنوں تصوف کی طرف زیادہ ہے، ان کی ایک کتاب ”تصوف کا ایک اجمالی جائزہ“ پہلے طبع ہو کر مقبول ہو چکی ہے، اس بار”حیات مولانا بشارت کریم گڑھولویؒ“ کے نام سے شمالی بہار کی معروف، مقبول اور با فیض، علمی وروحانی شخصیت کی سوانح اور خدمات پر مشتمل ایک کتاب لائے ہیں، حضرت گڑھولوی ؒ پر مستقل کوئی کتاب دستیاب نہیں ہے، البتہ مختلف کتابوں میں جستہ جستہ ان کے احوال ملتے ہیں، ایک تفصیلی مقالہ بشیر احمد شاداں فاروقی کا ہے جو ”نسیم شمال“ کا حصہ ہے اور وہ ابھی حال میں خانقاہ مجیبیہ سے طبع ہو کر آئی ہے۔
مولانا بشارت کریم گڑھولویؒ نے کسی کو خلافت نہیں دی تھی،البتہ کچھ تبرکات شاہ نور اللہ پنڈت جی کے حوالہ کیا تھا، سلسلہ کے لوگوں نے اسے خلافت ومجاز بیعت کے قائم مقام سمجھا، چنانچہ شاہ نور اللہ ؒ پنڈت جی کے ذریعہ ان کا سلسلہ ہندو وپاک میں پھیلا، حاجی منظور صاحب مصرولیا، مولانا احمد حسن منوروا شریف، حضرت علی احمد رحمہم اللہ نے اس سلسلہ کو فروغ بخشا ہمارے عہد میں اس سلسلے کی نامور شخصیت میں حضرت مولانا شمس الہدیٰ راجوی دربھنگوی،حضرت محفوظ بابو منوروا شریف، مولانا اختر امام عادل، مولانا مظہر کریمی وغیرہ کا نام آتا ہے اس وقت حضرت مولانا شمس الہدیٰ راجوی اس سلسلے کے سرخیل اور ہم سب کے مقتدیٰ ہیں،اس سلسلے کی بڑی خاص بات یہ ہے کہ ان کے بزرگوں کے یہاں ہٹو، بچو کا مزاج نہیں ہے، سادی زندگی، سادہ بود وباش اور سادگی سے ملنا ان حضرات کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ ان حضرات سے ملنا آسان، اپنی پریشانیوں کا رکھنا آسان،نہ کوئی مصنوعی رعب اور نہ دبدبہ، جو چاہے دروازہ کھٹکھٹا دے اور جب چاہے مل لے، اس کی وجہ سے فیضان عام ہوتا ہے اور فیض یابی سہل تر۔
مولانا محمد عالم قاسمی نے علمی وروحانی دنیا پر بڑا احسان کیا کہ مولانا گڑھولویؒ کی سوانح مکمل حوالہ جات سے مزین تیار کردی ہے، جس کی وجہ سے سلسلہ کے عاشقان کے لیے حضرت کے احوال وآثار سے واقفیت کے ساتھ ان کے عمل سے روح کشید کرکے اپنی زندگی کو سیراب کرنا اور اس سے بقدر ظرف واستطاعت فیض حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے۔ اس کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اسے سوانح نگاری کے جدید اسلوب کو سامنے رکھ کر لکھاگیا ہے، کیف ما التفق واقعات واحوال نہیں جمع کیے گیے ہیں، بلکہ معلومات کو ہر باب کے تحت مناسب جگہ دی گئی ہے۔
پہلا باب تو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد اور شمالی بہار میں آثار کے عنوان سے ہے، یہ ان دنوں جامعاتی طریقہ ہے کہ جب کسی پر کچھ لکھا جاتا ہے تو اس کے پہلے، اس زمانہ کے احوال وآثار پر روشنی ڈالی جاتی ہے اور قاری کے ذہن کو اس کے لیے تیار کیا جاتاہے کہ اس زمانہ میں جو کام ہوا، اس کی اہمیت کیا اور کس قدر ہے؟ مثلا حضرت مجدد الف ثانیؒ کی خدمات پر کوئی گفتگو کرنی ہے تو اکبر کے دور اور اس کے دین الٰہی پر بات کرنی ہی ہوگی، تبھی حضرت کی خدمات کی اہمیت واضح ہو پائے گی، یہ پہلا باب اسی پس منظر میں ہے، اسے موضوع سے خارج نہیں سمجھنا چاہیے۔
پہلا باب تو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد اور شمالی بہار میں آثار کے عنوان سے ہے، یہ ان دنوں جامعاتی طریقہ ہے کہ جب کسی پر کچھ لکھا جاتا ہے تو اس کے پہلے، اس زمانہ کے احوال وآثار پر روشنی ڈالی جاتی ہے اور قاری کے ذہن کو اس کے لیے تیار کیا جاتاہے کہ اس زمانہ میں جو کام ہوا، اس کی اہمیت کیا اور کس قدر ہے؟ مثلا حضرت مجدد الف ثانیؒ کی خدمات پر کوئی گفتگو کرنی ہے تو اکبر کے دور اور اس کے دین الٰہی پر بات کرنی ہی ہوگی، تبھی حضرت کی خدمات کی اہمیت واضح ہو پائے گی، یہ پہلا باب اسی پس منظر میں ہے، اسے موضوع سے خارج نہیں سمجھنا چاہیے۔
باب دوم میں حالات زندگی، باب سوم میں اہم معاصرین، باب چہارم میں علمی کاموں کا جائزہ، اور اخیر باب میں بحیثیت صوفی حضرت گڑھولوی کے مقام ومرتبہ کی تعیین کی کوشش کی گئی ہے، اس کے بعد ماخذ ومراجع کی طویل فہرست ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح مولانا محمد عالم قاسمی نے حضرت کے احوال وآثار کو جمع کرنے کے لیے چیونٹی کے منہہ سے دانہ دانہ نکالنے کا کام کیاہے، یہ کام انتہائی پِتّہ ماری کا ہے، مولانا نے اپنی ہمہ جہت مشغولیات کے باوجود اس کام کو پایہ تکمیل تک پہونچایا یہ خود قابل ستائش اور لائق تقلید ہے۔
سلسلہ کے رفقاء کو خصوصاً اور عام مسلمانوں کو عموما اس اہم کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے، اس سے روح میں تازگی اور دل ودماغ میں ان بزرگوں کا فیض پہونچ کر دل کی دنیا کے بدلنے اور راہ راست پر استقامت کی توفیق ملے گی۔ بزرگوں کے احوال وآثار مطالعہ عملی زندگی کو مہمیز کرنے میں کیمیا اثر ثابت ہوتا ہے، اس کا ادراک کچھ ہی لوگ کر سکتے ہیں، جو اس راہ کے راہی ہیں، حضرت تھانوی ؒ کے بیعت شرائط میں ان کے ملفوظات، مواعظ کا مطالعہ کرنا بھی شامل تھا۔
میں اس اہم کتاب کی تصنیف پر مولاناکو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کے فیض کو عام وتام فرمائے۔ آمین یا رب العالمین