اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل
اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل

بھارت کے اس تکثیری سماج کو کبھی دنیا کے لیئے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا یہاں کی جمہوریت قانون اور دستور کی دنیا مثالیں پیش کرتی تھی لیکن اب وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں نظر نہیں آرہی ہے اگر کسی کو نظر آبھی رہی ہے تو صرف اوراق کے دامن پر جو قوانین جو باتیں پڑھنے لکھنے تک اچھی لگتی ہیں اتنی ہی خوب صورت عملی میدان میں بھی نظر آنی چاہیئے ورنہ خواب تو سجانے سے دور ہوجائیں گے بلکہ جو پایا وہ بھی کھوتے رہیں گے اس وطن عزیز کو ہمارے آبا و اجداد نے جس خون جگر سے سینچا ہے وہ کوئی معمولی قربانیاں نہیں تھی لیکن آج کے اس نئے بھارت میں ان قربانیوں کا صلہ ظلم، عدم رواداری،مذہبی تفریق کی شکل میں ملک کے گوشے گوشے میں دستیاب ہے

شکر گزاری کا فلسفہ
شکر گزاری کا فلسفہ

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ معمولی پریشانیوں یا مسائل پر فوراً ناشکری کرنے لگتے ہیں اور اللہ کی عطا کردہ بڑی نعمتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مثلاً کسی کو ذرا سا مالی نقصان ہو جائے تو وہ اللہ کے رزق کو بھول کر شکایت کرنے لگتا ہے، حالانکہ اس کے پاس صحت، گھر اور خاندان جیسی بےشمار نعمتیں موجود ہیں۔ اسی طرح، اگر موسم کسی کے حق میں نہ ہو، جیسے گرمی یا سردی کی شدت، تو لوگ فوراً شکایت کرنے لگتے ہیں، یہ بھول کر کہ اللہ نے ہمیں لباس، رہائش، اور زندگی کی دیگر سہولتوں سے نوازا ہے۔

تنہا سفر کی ممانعت
تنہا سفر کی ممانعت

حالات بدل چکے ہیں، نقل و حمل کے ذرائع ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ہو چکے ہیں، انسان کئی کئی دنوں کا سفر اب گھنٹوں میں کر لیتا ہے اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں کر رہا ہے ، سہولتوں کی فراوانی چاروں طرف نظر اتی ہے لیکن اس کے باوجود قول نبی برحق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بجا ہے اپ کی دوراندیشانہ گفتگو اور اپ کی زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے الفاظ و کلمات خدائے رحمان و رحیم کی منشا و مراد کے مطابق ہوتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

تازہ ترین پوسٹ

خبریں

چکنی کملداہا میں دینی و عصری تعلیم وتربیت کے خوبصورت گہوارے کی سنگ بنیاد

چکنی کملداہا میں دینی و عصری تعلیم وتربیت کے خوبصورت گہوارے کی سنگ بنیاد ادارے کے فائنڈر مفتی محمد خالد...
Read More
تعارف و تبصرہ

"خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر” :تعارف و تأثر

زیر نظر کتاب " خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر" مولانا مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی استاد جامعہ اسلامیہ شانتا...
Read More
شخصیات

جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی بنیاد میں اعلی حضرت اشرفی میاں کا حصہ

یہ ادارہ ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے مشہور ضلع اعظم گڑھ کے اندر قصبہ مبارک پور میں واقع ہے۔...
Read More
تاریخ و سیر

شاہی جامع مسجد سنبھل: ایک تاریخی جائزہ

تاریخ ماضی کے واقعات کا آئینہ ہوتی ہے ، ہندوستان میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے مابین باہمی رواداری اور...
Read More
تجزیہ و تنقید

گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل

جامع مسجد سنبھل تنازع گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل ✍ سید سرفراز احمد ________________ اصل...
Read More

مولاناابوالکلام قاسمی شمسی کی تفسیرتسہیل القرآن :ایک تقابلی مطالعہ

مولاناڈاکٹرمحمدعالم قاسمی

جنرل سکریٹری آل انڈیاملی کونسل بہار

امام وخطیب جامع مسجددریاپورسبزی باغ،پٹنہ

_________________

بہارکی مشہورعلمی شخصیت ڈاکٹرمولاناابوالکلام قاسمی شمسی سابق پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کئی اہم اداروں سے منسلک ہیں، گوناگوں صلاحیت کے حامل،سنجیدہ مزاج، معاملہ فہم ،صاحب بصیرت،باکمال،باصلاحیت عظیم قلمکارعالم دین ہیں۔ آپ کے قلم گہربارسے کئی اہم تحقیق معلوماتی کتابیں منصہ شہودپررونماہوئی ہیں بعض کتابیں مراجع کی حیثیت رکھتی ہیں جیسے تین جلدوں میں’’تذکرہ علماء بہار‘‘بہارکی اردوشاعری میں علماء کرام کاحصہ‘‘تحریک آزادی ہندمیں علماء کرام کاحصہ‘‘اورقدیم اردوزبان کی تاریخ اورپیش نظرنہایت وقیع علمی کارنامہ تفسیر تسہیل القرآن ‘‘آپ کی یہ فاضلانہ تصنیف جدیداسلوب میں عصری تقاضے کے تحت مختصرایک جلدمیں نہایت معتبراورجامع تفسیرہے۔ اس کا ترجمہ بھی بہت سلیس ہے اوراگرصرف ترجمہ بھی پڑھاجائے توباہم مربوط نظر آتے ہیں،عام فہم بنانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ عام لوگوں کے لیے استفادہ آسان ہو اوریہ چیزاس کے نام ہی سے ظاہرہے تسہیل کے معنی ہیں آسان بناناہرصفحہ میں عربی عبارت کے سہہ جانب حاشیہ میں تفسیرلکھی گئی ہے۔ جوبغیرنمبرنگ کے آیت کے پہلے عربی لفظ کے اشارے سے اس کی تفسیروتشریح کی گئی ہے۔ جس میں اس بات کی رعایت کی گئی ہے کہ کسی آیت کی تشریح دوسری آیت سے ہوتی ہے تواس کاحوالہ بھی درج ہے۔اورحدیث کی معتبرکتابوں کابھی حوالہ پیش کیاگیاہے۔ مشغولیت کے دورمیں کم وقت میں مقصودالہیٰ اوراحکام الہیٰ کوجانناہوا ورکتاب ہدایت سے ہدایت مطلوب ہوتویہ مختصرتفسیر ایک ہی جلدمیں نہایت مفیدہے جس سے ہرشخص بخوبی استفادہ کرسکتاہے۔ فنی موشگافیوں اورفلسفیانہ نقطہ نظرسے گریزکرتے ہوئے مفہوم اورمقصودکوپیش نظررکھاگیاہے۔ سلاست اورحلاوت کے باعث مطالعہ پرمہمیزعطا کرتی ہے۔اور اطمینان بھی فراہم کرتی ہے کہ ایک مستند معتبر عالم دین کے قلم سے تحریرکی گئی ہے۔ جس میں علمی کمال ، ماہرانہ صلاحیت ایمان ویقین کی پختگی ،استصواب رائے اورفکرونظرکی گہرائی وگیرائی نظرآتی ہے۔

بطورنمونہ ملاحظہ ہو!

  • ۱۔ وھدینٰہ النجدین۔(البلد:10)لغت میں نجدکے معنی سخت، اونچی زمین اورکھائی کے آتے ہیں۔ اس کاترجمہ حضرت شیخ الہند نے کیا ہے۔اوردکھلا دیں اسکو دو گھاٹیاں۔

مولانااحمدرضاخان نے لکھاہے: اوراسے دوابھری چیزوں کی راہ بتائی۔جبکہ مولاناابوالکلام قاسمی نے مفہوم آمیزترجمہ یہ کیاہے: اور دونوں راستے اسے نہیں دکھادیئے؟ اس میں دونوں معنیٰ کی رعایت ہوجاتی ہے۔

  • ۲۔ وتبتل الیہ تبتیلا (المزمل:8)تبتیلاکے معنی تجرید، مجرد ہونا، انقطاع اورتضرع کے آتے ہیں

اسکا ترجمہ حضرت شیخ الہندنے لکھاہے: اور چھوٹ کے چلا آ اس کی طرف سب سے الگ ہوکر۔مولانااحمدرضاخان نے لکھاہے : اورسب سے ٹوٹ کراسی کے ہورہو۔ حضرت تھانوی نے لکھاہے: اورسب سے قطع کرکے اسی کی طرف متوجہ رہو۔مولانامودودی نے لکھاہے: اورسب سے کٹ اسی کے ہورہو۔ جبکہ مولاناابوالکلام قاسمی نے مفہوم آمیزیہ ترجمہ کیاکہ :اورسب سے الگ ہوکر پورے کے پورے اسی کے ہو رہو۔

  • ۳۔ قال عفریت من الجن (النمل:39) عفریت کے کئی معنی ہیں، مکار، خبیث، چالاک، شیطان اور طاقتور کے۔ قرآن کی مذکورہ آیت کریمہ میں حضرت سلیمانؓ کی تابعداری میں ایک جن بولایہاں اس کی شرارت یاخباثت کامعنی مناسب نہیں چونکہ وہ نبی کی حکم آوری کررہاہے۔

اس کاترجمہ حضرت شیخ الہند نے لکھاہے: بولاایک دیوجنوں میں سے۔ مولانااحمدرضاخان نے لکھاہے: ایک بڑاخبیث جن بولا۔ جبکہ مولاناابوالکلام قاسمی نے لکھاہے: جنوں میں ایک قوی ہیکل جن نے کہا اورزیادہ تر مفسرین نے بھی عفریت کاترجمہ یہاں طاقتور اورقوی ہیکل ہی کیاہے۔

  • ۴۔ ولکن رسول اللہ وخاتم النبین(الاحزاب:40) خاتم کے معنی انگوٹھی ،مہر،نشان ،علامت کے ہیں۔

اس کاترجمہ حضرت شیخ الہند نے کیاہے: لیکن رسول ہے اللہ کا اور مہرسب نبیوں پر۔ حضرت تھانوی نے لکھاہے: لیکن اللہ کے رسول ہیں سب نبیوں کے ختم پرہیں۔ مولانااحمدرضاخان نے لکھاہے:ہاں اللہ کے رسول ہیں اورسب نبیوں کے پچھلے۔ جبکہ مولاناابوالکلام قاسمی نے مفہوم آمیز یہ لکھاہے: مگر وہ اللہ کے رسول اورسب سے آخری نبی ہیں۔ قارئین خوداندازہ لگاسکتے ہیں کہ کونسالفظ یہاں مناسب ہے۔

  • 5- الرحمن،علم القرآن ،خلق الانسان،علمہ البیان (الرحمن:4)یہاں بیان کے معنی ہیں مافی الضمیر اداکرنا۔ مطلب ظاہر کرنا، کہنے کا سلیقہ،قول،مفہوم وغیرہ۔

اس کاترجمہ حضرت شیخ الہند نے کیاہے:رحمن نے سکھایاقرآن ،بنایا آدمی پھر سکھلایا اسکو بات کرنا،
حضرت تھانوی نے لکھاہے: رحمن نے قرآن کی تعلیم دی،اس نے انسان کوپیداکیاپھراس کوگویائی سکھائی
مولانامودودی نے لکھاہے:نہایت مہربان خدانے اس قرآن کی تعلیم دی ہے اسی نے انسان کوپیداکیااوراسے بولناسکھایا۔
مولانااحمدرضاخان نے معنی کومحدودکرتے ہوئے لکھاہے:رحمن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا، انسانیت کی جان محمدؐ کو پیدا کیا ماکان ومایکون کابیان انہیںسکھایا۔
حالانکہ انسان میں تمام انبیاء و دیگرداخل ہیں مگر انہوں نے ایک خاص زاویہ میں معنی کو پیش کردیاہے۔اس کاترجمہ مولانا ابوالکلام قاسمی نے مفہوم آمیز اس طرح کیاہے:
وہی رحمن ہے، جس نے قرآن کی تعلیم دی ،اسی نے انسان کوپیدا کیااوراپنے دل کی بات کو واضح طور پرپیش کرنا سکھایا۔

ترجمہ کے مذکورہ چندمثالوں کے بعدیہ اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ترجمہ صرف یہی نہیں ہے کہ لغت کی مددسے ایک زبان کودوسری زبان میںمنتقل کردیاجائے بلکہ ایک ہی لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں اورکب کس موقع پرکونسامفہوم لیاجاسکتاہے اس کیلئے ماہرانہ صلاحیت کے علاوہ کئی اہم اصول کوپیش نظررکھنا ضروری ہے۔اورکئی دوسرے علوم سے بھی واقفیت لازمی ہے۔ اورخاص کرعربی جیسی فصیح وبلیغ زبان کودوسری زبان میں منتقل کرناکوئی آسان کام نہیں ہے۔اوراس میں بھی یہ کہ اردوزبان کااسلوب نصف صدی میں بدل جاتاہے، الفاظ اورلہجہ بھی متروک ہوجاتاہے۔ اس لے اردوزبان میں ترجمہ قرآن کی کثرت ہے کیونکہ کچھ دنوں بعد نئے قالب میں بدلنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ صرف اردوزبان میں قرآن کریم کے میری معلومات کے مطابق 120سے زائد ترجمے ہوچکے ہیں اورمزیدسلسلہ جاری ہے۔ مولاناابوالکلام قاسمی کایہ ترجمہ جدیداسلوب میں ایک وقیع اضافہ ہے اوراہم علمی کارنامہ ہے۔

زیر تبصرہ تفسیر تسہیل القرآن کا سر ورق

ترجمہ کے بعدتفسیری نقطہ نظر سے بات کی جائے توسبھی لوگ اس سے واقف ہیں کہ قرآن کریم علوم ومعارف کاخزانہ ہے۔ اسے سمجھنے کیلئے جس علم کی ضرورت ہوتی ہے اسے علم تفسیر کہتے ہیں۔ علم تفسیر میں کئی علوم کی ضرورت پڑتی ہے۔ عربی زبان وادب سے واقفیت کے ساتھ آیت کی تشریح کے لئے علم حدیث اقوال صحابہ اورکئی اصول کی رعایت کرنی پڑتی ہے۔ قرآن کریم میں کہیں اجمال توکہیں تفصیل ہے۔ گویابسا اوقات ایک آیت کی تشریح دوسری آیت سے ہوتی ہے۔ اس لئے کسی آیت کی تشریح میں دیگر آیتوں پربھی نگاہ ہو، اسی طرح آیت کریمہ کی عملی تشریح حدیث پاک اورسنت رسولؐ میںملتی ہے اس لئے حدیث سے کماحقہ واقفیت ضروری ہے، بہت سی آیت کریمہ کوسمجھنے میںشان نزول سے بہت آسانی ہوجاتی ہے شان نزول گرچہ خاص ہوتاہے مگرحکم عام ہوتاہے اوراس سے ایک اصول واضح ہوتاہے چونکہ قرآن کریم ’’ھدی للمتقین‘‘(متقیوں کیلئے کتاب ہدایت ہے)کے ساتھ ’’ھدی للناس‘‘ (عام انسانوں کیلئے بھی کتاب ہدایت ہے) اس میں قانون حیات ہے۔ دستورزندگی ہے۔ اس سے بہت سے مسائل کااستنباط ہوتاہے ساتھ ہی ناسخ ومنسوخ کاعلم ہونا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میںوضاحت فرمائی کہ ہم نے اسکو نازل کیاہے آپ لوگوںکونازل کردہ کلام کی تفسیر فرمادیں (النحل:44) گویاقرآن کریم کامفہوم ومطلوب اور تفسیر وہی معتبرہے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔
اس اعتبار سے مولاناابوالکلام قاسمی کی تفسیر میں دیکھتے ہیں کہ اس بات کاالتزام کیاگیاہے کہ ایک آیت کی تشریح میں اس سے متعلق دوسری آیت کریمہ کی نشاندہی ہے ساتھ ہی حدیث کی معتبرکتابوں کاحوالہ بھی بکثرت ملتاہے۔ ہدایت کے مفہوم کوپیش نظررکھتے ہوئے دیگرمعلومات بھی فراہم کرتے ہیں جس سے اطمینان بخش تشریح ہوجاتی ہے ۔بطور مثال چندنمونہ ملاحظہ ہو:

  • ۱۔ ان الانسان خلق ھلوعا (المعارج:19)ھلوعاکے معنی بے قرار،بے ثبات، ڈرپوک، بزدل وغیرہ کے ہیں اس کاترجمہ مولاناقاسمی نے بے صبرا سے کیاہے۔ (بے شک انسان بڑا بے صبرا پیدا کیاگیا ہے)اوراس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھاہے کہ انسان میں پیدائشی طور پر کمزوری رکھی گئی ہے وہ پیدائشی طورپربے صبرا ہے جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تووہ گھبرا جاتاہے اورآہ وزراری کرنے لگتاہے اورجب اللہ اسے مال ودولت سے نوازتاہے اوروہ خوشحال ہوجاتاہے تووہ بخیلی کرنے لگتاہے اورحقدارو کواس کاحق نہیں دیتاہے۔حضرت صہیبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مومن کامعاملہ بھی بڑاعجیب ہے کہ اس کے ہرمعاملہ میںاس کیلئے خیرہی خیرہے اوریہ فضیلت سوائے مومن کے کسی اورکوحاصل نہیں،وہ اس طرح کہ اگراسے کوئی خوشی پہنچتی ہے توشکراداکرتاہے، وہ اس کیلئے باعث خیرہے اوراگرکوئی تکلیف پہنچتی ہے اوراس پروہ صبرکرتاہے تووہ بھی اس کیلئے باعث خیرہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جوشخص کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچے تواللہ تعالیٰ اسے صابربنادیگا۔اورکسی کوبھی صبرسے زیادہ بہتراوراس سے زیادہ بے انتہا خیر نہیں ملی ہے۔(بخاری :کتاب الزکوٰۃ)(تفسیرتسہیل القرآن:682 )
یہی روایت مسلم کتاب الزہدکے حوالہ سے مولانانے صفحہ581میںتحریرکیاہے۔بہرحال اس سے واضح ہوتاہے کہ مفہوم ہدایت کے پیش نظر سہل اندازمیںاس کی تشریح فرمادی ہے۔

صاحب تفسیر مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی
  • ۲۔ اناعرضناالامانہ علی السموت والارض والجبال (الاحزاب:72)

اس کی تفسیرکرتے ہوئے تحریر کیاہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہاکہ ہم نے اس امانت کوآسمانوں اورزمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اسکو اٹھانے سے انکارکردیااوروہ اس سے ڈرگئے ،مگرانسان اسے اٹھالیا،یہاں امانت سے کیامرادہے؟اس سلسلے میںمفسرین کی مختلف رائیںہیں، بعض نے کہاہے کہ امانت کامطلب ہے۔اپنی آزادمرضی سے اللہ کے احکام کی اطاعت کی ذمہ داری قبول کرنا،یعنی کائنات میںبہت سے احکام ایسے ہیں جوتکوینی ہیں،جنہیں ماننے پرتمام مجبور ہیں، وہ اس کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے،جیسے موت وحیات وغیرہ، لیکن بعض احکام کے سلسلے میںاللہ تعالیٰ نے انسانوں کواختیاردیاکہ اگروہ چاہیں تواللہ کے حکم کومان کراس پرعمل کریں اور اگر چاہیں توحکم پرعمل نہ کریں، اگروہ عمل کریں گے توجنت میں داخل کئے جائیں گے ،جب یہ پیشکش آسمانوں اورزمین اور پہاڑوں کوکی گئی تووہ یہ ذمہ داری اٹھانے سے ڈرگئے اور اسکو قبول کرنے سے انکارکردیا، لیکن جب انسان کے سامنے یہ پیشکش کی گئی تواس نے اس ذمہ داری کوقبول کرلیا۔بعض نے کہاہے کہ ’’امانت‘‘سے مرادخلافت ہے، جوانسان کوزمین میںعطاکی گئی ہے۔ خلافت کے مفہوم میںرائے اول میںمذکورہ بالاباتیں شامل ہیں۔ اس لئے دونوں ایک دوسرے کے تتمہ ہیں۔ انہ کان ظلوماجھولا:حقیقت میں وہ بڑاظالم اورنادان ہے، یعنی انسان بڑا ہی ظالم اوربڑا ہی جاہل ہے کہ اس نے امانت کے بوجھ کواٹھالیا، ظالم تواس لحاظ سے ہے کہ تمام مخلوقات میںسب سے بلندمنصب پرفائز ہونے کی خواہش کی وجہ سے اس نے ذمہ داری کوقبول کرلیا،مگردنیامیںآکروہ اس کی رنگینیوںمیںاس قدرغرق ہوگیاکہ اسے خیال بھی نہیںرہاکہ اس نے کتنی بڑی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ اس طرح وہ اس میںخیانت کامرتکب ہوا،اورجاہل اس لحاظ سے ہے کہ اس نے یہ توسوچاکہ اس کوتمام مخلوقات پربڑااعزازحاصل ہو، مگراس اعزازکی ذمہ داریوں کااندازہ لگانے سے قاصررہا، اس اعتبارسے وہ جاہل ہے۔
(تسہیل القرآن ،صفحہ:508)
مولانامودودی نے یہاں امانت سے مرادخلافت لیاہے ۔تحریرفرماتے ہیں کہ:اس جگہ امانت سے مراد وہی خلافت ہے جوقرآن مجید کی روسے انسان کوزمین میں عطاکی گئی ہے۔ (تفہیم القرآن:669) مولانا محمد جوناگڑھی کاترجمہ اورحواشی مولاناصلاح الدین یوسف جس کوسعودی عرب نے شائع کیا ہے اس میں تحریر ہے!
’’امانت سے وہ احکام شرعیہ اورفرائض وواجبات مرادہیں‘‘(صفحہ:1195)
اس طرح تمام پہلوئوں پر نظر رکھتے ہوئے مولاناقاسمی کی تفسیر اطمینان بخش ہے۔

  • ۳۔ والسماء ذات البروج(پارہ:30)یہاںبروج کے معنی گنبد،قبہ،آسمان کاایک دائرہ بارہ سیاروںمیںسے ایک وغیرہ ہیںاس کاایمانی اور معلوماتی وسائنسی پہلوبھی ہے اس کی تفسیرنہایت جامعیت کے ساتھ کیاہے۔جس سے تمام پہلوآشکارا ہوجاتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:۔

سورہ البروج مکی ہے یعنی مکی دورمیں نازل ہوئی، اس میں بائیس آیتیںاورایک رکوع ہے۔ اس سورہ کی پہلی آیت میں السماء ذات البروج آیاہے اسی مناسبت سے سورہ بروج کے نام سے موسوم ہے۔یعنی یہ وہ سورت ہے جس میں لفظ بروج آیاہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے کفارومشرکین کوان کے ظلم وستم پربرے انجام کی خبردی ہے۔ جووہ اہل ایمان پرکررہے تھے۔ساتھ ہی مومنوں کو تسلی بھی دی گئی ہے کہ وہ ان کے ظلم وستم کوبرداشت کریں۔اورثابت قدم رہیں تواللہ تعالیٰ ان کوبہترین اجرسے نوازے گا۔ اس سورت میںاصحاب الاخدودکے واقعہ کوبیان کرتے ہوئے مومنوںکویہ بتایاگیاہے کہ ایسانہیںہے کہ کفار ومشرکین تمہیں لوگوں کے ساتھ ایساکررہے ہیں۔ بلکہ گزشتہ زمانے میںبھی حق کوقبول کرکے ایمان لانے والے لوگوںکے ساتھ بھی ان لوگوںنے ایساہی برتاو کیاکہ گڈھاکھودکراس میں آگ جلائی اوراہل ایمان کو آگ میں پھینک دیا۔پھربھی وہ اپنے ایمان پرثابت قدم رہے۔ اس لئے مومنوں کوکفارو مشرکین کے ظلم وستم پرصبرکرناچاہئے۔ البتہ جولوگ ایساکر رہے ہیں۔ تواللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کویوںہی نہیں چھوڑے گابلکہ اگر انہوں نےتوبہ نہیں کی اورایمان نہیں لائے توان کوجہنم میں داخل کرے گا۔ جہاں وہ آگ میں جلیں گے ۔اللہ کاعذاب سخت ہے اوروہ عذاب دینے پرقادرہے، اس لئے اس نے پہلے بھی نافرمانی کرنے والوں کوعذاب کامزہ چکھایاہے، فرعون اور ثمود کے واقعات تمہارے سامنے ہیں،ان کی بستیوں کے کھنڈرات آج بھی موجودہیں،جوتم کودعوت عبرت دے رہے ہیں، و السماء ذاتِ البروج، اللہ نے فرمایاکہ قسم برجوں والے آسمان کی یعنی وہ آسمان جس میں سورج،چاند،ستارے اورسیارے کے چلنے کے راستے اورٹھہرنے کے مقامات بنائے گئے ہیں۔جن کوموجودہ اصطلاحات میں مدارکہتے ہیں۔جس میں یہ سب اپنے اپنے مقررنظام کے مطابق چلتے ہیںاورایک خاص مدت میںاپنے بروج میں پہنچتے ہیں،جہاں وہ کچھ وقفہ کے لئے ٹھہرتے ہیں۔اسی طرح ہرمہینہ کیلئے ایک برج کے حساب سے بارہ برج متعین کئے گئے ہیں۔اسی کے حساب سے موسم میں تبدیلی کااندازہ لگایاجاتاہے، اسی سے رات اوردن کاحساب کیاجاتاہے۔ سورج، چاند، ستارے اورسیارے اللہ کے مقررکردہ نظام کے مطابق چلتے ہیںاس سے ذرہ برابرانحراف نہیںکرتے ہیں۔ مفسرین کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہاں بروج سے ستارے اورسیارے مرادہیں جورات کے وقت آسمان کوزینت بخشتے ہیں۔(تفسیرتسہیل القرآن ،سورۃ البروج ص نمبر709،مصنف ،مولاناابوالکلام قاسمی شمسی ،طبع اول 2023)
البتہ ترجمہ میں نمبرنگ نہیں ہے جس سے پتہ نہیں چلتاکہ حاشیہ میں کس کی تشریح ہے۔ اورحاشیہ میں بھی آیت نمبرنہیں ہے جوآیت یاجس لفظ کی تشریح ہے اس کے عربی لفظ کے ٹکڑے سے شروع کیاہے۔ اس لئے تشریح کے لئے پوراصفحہ دیکھناپڑتاہے۔نمبرنگ سے مزیدسہولت ہوجاتی ۔
ساڑھے چودہ سوسال کے عرصہ میں سینکڑوں تفسیریں لکھنے کے باوجود بہت سے مقامات ایسے آتے ہیں جہاں آج بھی مفسرین کواپنی بے بضاعتی اورکم مائیگی کااعتراف کرنا پڑتا ہے، یہ بھی قرآن کریم کااعجازہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے خودہی ارشادفرمایاہے:ھن ام الکتاب واخرمتشابھات(آل عمران:7)یعنی کچھ آیتیںمحکم ہیں اس کے سمجھنے میںکوئی دشواری نہیںمگرکچھ آیتیںمتشابہہ ہیں جس کے سمجھنے میں عام انسانی عقل عاجزہیں اس کی کئی مثالیں ہیں مگریہاں ایک نمونہ پیش ہے، جہاں پر مولانا قاسمی نے بھی ایمان ویقین پرموقوف کرکے قلم کوروک لیاہے، ارشادربانی ہے:

  • ۴۔ یوم یکشف عن ساق(القلم :42)

قیامت کے دن اہل ایمان اوراہل کفرکی کیاحالت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے بیان کرتے ہوئے کہاکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پنڈلی سے پردہ ہٹادے گا۔ تواہل ایمان مردوعورت سب سجدہ میں گرجائیں گے۔جبکہ کفارہ مشرکین اورمنافقین مردوں اورعورتوں کی پیٹھیں اکڑجائیںگی اوریہ لوگ سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ حضرت ابوسعیدخدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہمارارب اپنی پنڈلی کھولے گاتوہرمومن مرداورمومن عورت اس کوسجدہ کریں گے اورصرف وہ شخص سجدہ نہیں کرسکے گاجودنیامیں دکھلاوے اورناموری کے لئے سجدہ کرتاتھا، وہ سجدہ کرنے لگیں گے تواسکی پیٹھ تختہ کے مانند ہوجائیگی،(بخاری کتاب التفسیر)اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے لئے ’’ساق‘‘ یعنی پنڈلی کااستعمال کیاہے، یہ پنڈلی کیسی ہے، یہ انسانوں کی پنڈلی کی طرح یااس کی کوئی اورصورت ہے؟ تومفسرین کی رائے اس سلسلہ میں یہ ہے کہ ہم یہ بات نہ جان سکتے ہیں اورنہ جاننے کے مکلف ہیں، ہمارا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے پنڈلی کاذکر کیاہے، توہم اتنی ہی بات جانیںاوراس پرایمان لائیں،اس سے زیادہ اورکچھ بات نہ کریں۔(تسہیل القرآن:678)
اور اسی طرح کی بات مولانامحمد جوناگڑھی مطبوعہ سعودی عرب میں لکھی ہے:’’اللہ تعالیٰ کی یہ پنڈلی کس طرح کی ہوگی؟اسے وہ کس طرح کھولے گا؟اس کیفیت کوہم جان سکتے ہیں نہ بیان کرسکتے ہیں۔اس لئے جس طرح ہم بلاکیف وبلاتشبیہ اس کی آنکھوں،کان، ہاتھ وغیرہ پرایمان رکھتے ہیں۔ اسی طرح پنڈلی کاذکربھی قرآن اورحدیث میں ہے،اس پربلاکیف ایمان رکھناضروری ہے، یہی سلف اورمحدثین کامسلک ہے۔(قرآن کریم مع اردوترجمہ تفسیر:1514)
بخوف طوالت دیگرتفسیروں کاتقابل نہ کرکے تسہیل القرآن کے چندنمونہ کوپیش کیاہے تاکہ اس کے تفسیری آہنگ کااندازا ہوسکے۔
ظاہری طورپر بھی یہ بہت دیدہ زیب حسن طباعت کامظہرہے۔ ہلکے سبزرنگ کے باریک کاغذپرنفیس اندازمیں بڑے اہتمام سے طبع ہوئی ہے۔ اس کی نفاست کااندازہ اس سے بھی ہوسکتاہے کہ738صفحات پرایک جلدپرمشتمل اس تفسیر کی ضخامت صرف ایک انچ کے برابرہے۔اورطول وعرض میںترجمہ شیخ الہندمطبوعہ سعودی عرب کے مثل ہے۔
سعودی فرمانرواشاہ فہد نے بڑے اہتمام سے ترجمہ شیخ الہند کوشائع کرکے تقسیم کیاتھا، جس کو بہت پسندکیاگیاتھا اورآج بھی اس کی بڑی فرمائش ہے۔ اسی سائزاوراسی طرح کے نفیس کاغذمیں عمدہ طباعت سے مزین یہ تفسیرتسہیل القرآن ہے۔ رب کریم اسے شرف قبولیت بخشے اورنافع عام بنادے، یہ مجلدمستند معیاری تفسیرکاہدیہ رقم نہیںہے، اس کوابوالکلام رلیسرچ فاونڈیشن پھلواری شریف پٹنہ،براؤن بکس شمشاد مارکٹ علی گڑھ یابراہ راست مولاناابوالکلام قاسمی سے مندرجہ ذیل نمبرسے رابطہ کرکے حاصل کیاجاسکتاہے۔رابطہ نمبر:9835059987

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: