محمد فہیم الدین بجنوری
________________
دل خراش خبر صبح دیکھ لی تھی؛ لیکن سویرے سے بعض فوری تقاضے دامن گیر رہے، گو کہ بھاگ دوڑ کے دوران بھی ذہن اور افکارِ ذہن صبح کے دیے ہوے دردوالم سے برسرِ پیکار تھے؛ لیکن کچھ کہنےکا موقع نہ ہوا، ابھی خراب وخستہ صورت میں رہائش گاہ پہنچا ہوں اور طبعی تاثرات الفاظ کا پیرہن لینے کے لیے بے تاب ہیں۔
صبح کا حملہ ان کی قدیم سرشت کا تسلسل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے مصالحت کی گفتگو کے لیے گئے تھے؛ مگر انھوں نے ٹارگٹ کلنگ کا پلان بنایا، وہ اوپر سے پتھر گرانے ہی والے تھے کہ زیادہ اوپر سے اطلاع آگئی اور آپ برق رفتاری سے مدینہ منورہ کے لیے نکل گئے۔
سورۂ حشر میں ان کے خالق نے ان کی افتاد کو چیلنج کیا ہے، فرماتے ہیں کہ یہ دو بہ دو لڑائی کے متحمل نہیں، ہمیشہ پیچھے سے وار کریں گے، فضائی بمباری، میزائل، بکتر بند گاڑیاں؛ یہ سب محفوظ قلعوں اور پسِ دیوار کی نئی صورتیں ہیں اور یہی ان کی اوقات کی معراج ہیں:﴿ لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرًى مُّحَصَّنَةٍ أَوْ مِن وَرَاءِ جُدُرٍ ۚ﴾
[ الحشر: 14]
غ ز ہ میں مردوں کی بساط سجی ہے، وہاں سال بھر کی ستمگری بھی بے نتیجہ ہے، ان کی رسوائی بھری روایات برابری کی محاذ آرائی سے متصادم ہیں، ماضی میں انھوں نے اپنی لڑائی کے لیے قریش وقبائل عرب کو ہائر کیا تھا، آج امریکہ کو بے وقوف بنا رکھا ہے۔
میں نے امیر المؤمنین دانستہ کہا ہے؛ کیوں کہ جتنے انسانوں کے وہ لیڈر تھے بس دنیا میں مؤمنین اتنے ہی ہیں، کہنے کو تو میرا نام بھی محمد فہیم الدین ہے؛ لیکن ہمیں سورۂ حجرات میں تنبیہ کی گئی ہے کہ صرف مسلم کہلائیں، مؤمن ہونے کا ادعا نہ کریں، باقی ماندہ دنیا میں جو غ ز ہ کا خواب دیکھتے ہیں وہ نفاق سے بری ہیں؛ ورنہ ماسوائے غ ز ہ زیادہ سے زیادہ طلقاء ہیں، ان کی بخت آوری ہوگی اگر روز حشر ان کے پروانے پر "غفر لي ورب الكعبة” لکھ کر دے دیا جائے!
اسرائیل اور امریکہ کی ٹیکنالوجی بہت ترقی یافتہ ہے، ان کے اہداف کبھی خطا نہیں ہوے، پاکستان، افغانستان، ایران، عراق، شام اور لبنان کے درجنوں حملوں میں ایک بھی ٹارگٹ کلنگ ناکام نہیں رہی، لازم تھا کہ اہم شخصیات لوکیشن کے تعلق سے زیادہ اسمارٹ واقع ہوتیں اور میدان میں سرگرم لیڈران سے سبق لیتیں۔
اس حادثے کے لیے ایران کو ذمہ دار ٹھہرانا اور اس میں شیعوں کے گڑے مردے اکھاڑنا شعورِ سیاست کا افلاس ہے،کاروائی کے لیے ایرانی سرزمین کا انتخاب متنوع اغراض پر مبنی ہے، ایک تیر سے ہزار نشانے پیش نظر ہیں، ایران کو انتباہ، تنظیم کے حلقوں میں بد گمانیاں، سنی شیعہ بلاک کے مابین سیاسی خلیج، ایران کی سفارتی تنہائی وغیرہ وغیرہ مقاصد نمایاں ہیں۔
ح م ا س اور ایران کا اتحاد محدود ہے اور خالص سیاسی ہے، اسے مذہبی رنگ دینا کم نگاہی ہے، جس طرح خلیجی اسرائیلی یا عرب وامریکہ اتحاد محض سیاسی ہے، ان کی فائلوں میں مذہب زیرِ بحث نہیں آتا، ح م ا س اور ایران اتحاد بھی مجرد سیاسی اتحاد ہے، اس کے مسلکی ومذہبی کوئی معانی نہیں ہیں، کانگریس جس لیفٹ پارٹی کے ساتھ مغربی بنگال میں اتحاد تشکیل دیتی ہے، اسی لیفٹ پارٹی کے خلاف کیرل میں پوری توانائی صرف کرتی ہے، ح م ا س جس ایران کی عنایات کے لیے ارض قدس میں فرشِ راہ بنتی ہے، ملک شام میں اسی ایران کے خلاف دوسرے ناموں کے ساتھ صف آراء بھی ہو جاتی ہے۔
ظاہر ہے کہ وہ جامِ شہادت پی کر انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی برگزیدہ صف میں شامل ہو گئے، پاکیزہ زندگی گزاری اور رشک آور موت پائی، دو خوب صورت آپشنز: شہادت یا فتح میں سے محبوب کے پسند کردہ انتخاب کو گلے لگایا اور دونوں جہان کی سرخ روئی لوٹ کر نوشۂ ابد بن گئے۔
اللهم اغفر له وارحمه وأسكنه فسيح جناتك وأنزل الصبر والسلوان على ذويه آمين يارب العالمين.