نسل نو میں ارتدادی لہر کے اثرات
اسباب و وجوہات، حل و تدارک- ایک جائزہ!!
سید أحمد
__________________
گزشتہ کچھ عرصے سے مسلمانوں کی نوجوان نسل بالخصوص لڑکیوں کے حوالے سے ارتداد و تبدیلئ مذہب کی خبریں کثرت سے گردش کررہی ہیں، قطع نظر اس سے کہ ان خبروں میں حقیقت کی مقدار کتنی ہے!؟ اور فسانے کا تناسب کیا ہے!؟ یہ تو کم از کم طے ہے کہ مسلم معاشرے کے اندر شعوری و غیر شعوری ارتداد اور تبدیلئ مذہب کا رجحان پیدا ہوا ہے!
آنے والی سطور میں ہم اس مرض کا اصولی نوعیت سے جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
کوئی بھی مرض جب ظاہر ہوتا ہے، تو سب سے پہلے اس کی تشخیص ضروری ہوتی ہے، پھر اس کے اسباب جاننا اہم ہوتا ہے، بعد ازاں اس کی اصلاح و علاج کی تدابیر تلاش کر کے ان پر عمل کرنا، صحت مندی حاصل کرنے کے لیے لازم ہوتا ہے۔ ہم ان تمام امور پر ترتیب وار گفتگو کریں گے!
مرض کی تشخیص
سب سے پہلے یہ سمجھیے کہ کوئی بھی فرد یا قوم اپنے اندر دو طرح کی قوتیں رکھتی ہے۔
1 مادی قوت : اس کے اندر عددی کثرت، معاشی استحکام، تعلیم، جاہ و اقتدار وغیرہ شامل ہے۔
2 روحانی قوت : اس کا مدار خالق اور مخلوق کے ساتھ انسان کے تعلق کی کیفیت و نوعیت پر ہوتا ہے۔
پھر روحانی قوت کی بھی دو جہات ہیں۔
- اول : عقیدہ اور نظریہ۔ یعنی کوئی بھی روحانی نظام کچھ ایسے نظریاتی مطالبات رکھتا ہے جن کو دل سے تسلیم کرنا، اس روحانی نظام سے مربوط ہونے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
- دوم : عملی ذمہ داریاں۔ یعنی کوئی بھی روحانی نظام اپنے ماننے والوں پر کچھ فرائض اور ذمہ داریاں عائد کرتا ہے جن کو بجا لانا اس روحانی نظام سے پختہ ارتباط کے لیے ضروری قرار پاتا ہے۔
اس توضیح کے بعد یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جب کوئی دو قومیں ساتھ رہتی ہیں تو ان میں سے ایک ان قوتوں کے اعتبار سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے، اور دوسری نسبتاً کمزور، ایسے میں فطری بات ہے کہ طاقتور قوم کمزور قوم پر اپنے تہذیبی، ثقافتی اور رسوماتی اثرات مرتب کرتی ہے۔ اور پہلی قوم کیوں کہ طاقتور ہونے کی وجہ سے ترقی اور آسودگی کی حالت میں ہوتی ہے، لہذا کمزور قوم اس کی جانب کشش اور کھنچاؤ بھی محسوس کرتی ہے۔ اور اگر کوئی طاقتور قوم کسی کمزور قوم کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرے تو یہ عمل مزید تیزی کے ساتھ بڑھتا ہے۔
اس گفتگو کو بعد ہندو اور مسلم دونوں اقوام کا تقابلی جائزہ ضروری ہے کہ کون زیادہ طاقتور ہے اور کون کمزور؟
مادی اعتبار سے ہندوؤں کی مسلمانوں پر فوقیت اور برتری بالکل واضح ہے، عددی کثرت بھی انہیں حاصل ہے، جاہ و اقتدار بھی ان کے پاس ہے، مال و دولت اور دنیاوی تعلیم میں بھی وہ کافی آگے ہیں۔
جہاں تک بات ہے روحانی قوت کی تو مسلمانوں کے پاس جو روحانی نظام ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی کسی قوم کا روحانی نظام اس کے ہمسر نہیں ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی مسلم قوم کا اپنے روحانی نظام سے ربط نہایت خام ہے، یوں روحانی حوالے سے کاغذی برتری تو مسلمانوں کو یقیناً حاصل ہے لیکن اس نظام کے دونوں اجزاء یعنی عقیدہ و عمل کے ساتھ وابستگی میں کمزوری کی وجہ سے حقیقت کی دنیا میں نتیجہ خیز تقدم و تفوق سے محروم ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ قوم کی اکثریت بنیادی اور ضروری عقائد و ایمانیات تک سے نابلد ہے۔ اور عمل سے تعلق رکھنے والے شعبوں عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاقیات، کو عملا برتنے کا تناسب بھی بہت کم ہے۔
اسی وجہ سے روحانی و مادی دونوں قوتوں کو جمع کرکے موازنہ کیا جائے تو مجموعی طور پر ہم اپنے مقابل سے پچھڑے ہوے ہی نظر آتے ہیں۔
گزشتہ سطور میں ہم نے ذکر کیا کہ مخلوط معاشروں میں کمزور قوم کے طاقتور قوم میں جذب ہونے کا عمل بتدریج جاری رہتا ہے۔ لیکن اگر ایک قوم مادی حیثیت سے کمزور ہوتی ہے مگر اس کا روحانی نظام مضبوط ہوتا ہے اور وہ اپنے روحانی نظام سے مضبوطی کے ساتھ مربوط بھی ہوتی ہے تو جذب و انجذاب کی یہ صورت پیدا نہیں ہوتی، لیکن کیوں کہ ملت اسلامیہ ہندیہ کا اپنے روحانی پہلو کے ساتھ مضبوط تعلق نہیں ہے لہذا اس کے تدریجی انجذاب کا سلسلہ تیزی کے ساتھ جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں
- مسئلہ اعداد: غور و فکر کے پہلو
- عوام کی نظروں میں فتوؤں کا گرتا وقار۔۔۔
- واعظ کا ہر ارشاد بجا تقریر بہت دلچسپ مگر
- اساتذہ کا احترام ضروری ہے
ہندوانی تہذیب و اطوار سے آلودہ ہونا ہو یا شرکیہ و کفریہ مظاہر و شعائر سے انسیت کا بڑھتا رجحان، احساس مرعوبیت ہو یا حساس مسائل میں بھی معذرت خواہانہ اور دفاعی رویے، ہندوؤں کے ساتھ رومانوی و جنسی تعلقات کے واقعات ہوں یا ان کے ساتھ شادی کرکے ارتداد اختیار کرنے والوں کی شرح میں اضافہ، یہ سب کے سب اسی اصولی کمزوری و شکست خوردگی کے مختلف مظاہر ہیں۔
ان سب کو الگ الگ کرکے دیکھنا اور علیحدہ علیحدہ سب کا حل و علاج تلاش کرنا کوئی دانشمندانہ طرز عمل نہیں ہے، ان مسائل نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اصولی نوعیت کے اقدام اٹھائے جائیں۔
یہاں ایک اہم چیز یہ سمجھنی بھی ضروری ہے کہ کسی بھی کمزور قوم میں، طاقتور قوم کی تہذیب، افکار، طور طریقے بنیادی طور پر تین راستوں سے جگہ بناتے ہیں۔
-
1 باہمی اختلاط و مصاحبت!
-
2 رجحان ساز ادارے
جن میں مووی/ڈرامہ انڈسٹری اور سوشل، الکٹرانک، پرنٹ میڈیا سر فہرست ہیں۔
-
3 تعلیمی ادارے۔
اب ہم ان محرکات پر اجمال کے ساتھ گفتگو کریں گے جن سے یہ مرض یعنی قوت کے مجموعی تناسب میں کمی وجود میں آیا ہے۔
اس کے مختلف محرکات ہیں، جن میں سے کچھ مختصرا پیش کیے جارہے ہیں!
جہاں تک بات مادی قوت کی ہے تو اس کے جو مختلف زاویے ذکر کیے گئے ہیں ان میں سے ہر ایک کی کچھ الگ الگ وجوہات بھی ہیں اور کچھ مشترکہ بھی۔
لیکن سر دست ہم پیچیدگی سے بچتے ہوے آسان انداز میں اپنا مدعی رکھنے کی کوشش کریں گے۔
مادی قوت میں کمزوری کی کچھ وجوہات :
جاہ اقتدار میں کمزوری کی وجہ اقلیت میں ہونا اور آزادی کے بعد سے دفاعی اور دبی کچلی سیاسی پالیسی اپنانا ہے۔ معاشی کمزوری کی وجہ، تقسیم ہند کے وقت اصحابِ ثروت کا ہجرت کرجانا، اور ملی سرمایوں کے استعمال میں بدعنوانی، بے ترتیبی، بدنظمی وغیرہ کا پایا جانا ہے، تعلیمی تنزلی کی وجہ ایک تو معاشی کمزوری ہے دوسرے تعلیم یافتہ افراد کا ملازمت کے سلسلے میں تعصبات کا سامنا کرنا ہے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات زیر بحث لائی جاسکتی ہیں لیکن فی الحال ہمارا اصل موضوع یہ نہیں ہے۔
رہیں روحانی کمزوری تو اس کی صاف اور سیدھی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ملت کے روحانی تعلیم و تربیت کا سرے سے کوئی نظم نہیں ہے، اسلامی مدرسوں کی شکل میں مذہبی تعلیم کا ایک نظام ہے لیکن اس میں محض پانچ سے دس فیصد افراد ہی داخل ہوسکتے ہیں، نیز مدارس کی سسٹم میں کچھ ایسی کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے اس سے زیادہ مقدار کا مدارس کی طرف رخ کرنا ممکن بھی نہیں ہے۔
لہذا وہ نوے فیصد افراد جو اسلامی مدارس میں داخل نہیں ہوتے وہ چاہ کر بھی منظم طریقے سے روحانی تعلیم و تربیت حاصل نہیں کرپاتے، غیر مدرسی پس منظر رکھنے والوں کے لیے اکا دکا علاقائی و انفرادی سطح پر کہیں کوئی نظم ہو تو الگ بات ہے، مجموعی حیثیت سے کوئی نظم نہیں ہے۔
مسئلہ کا حل یا مرض کا علاج؟
مادی قوت کے ضمن میں جو مسائل ذکر کیے ان میں سے ہر ہر مسئلہ کا تفصیلی حل مستقل علحیدہ علحیدہ مقالوں کا متقاضی ہے، لہذا ہم تفصیل میں نہ جاکر ایک عمومی حل پیش کریں گے اور گفتگو آگے بڑھائیں گے۔
عمومی حل یہ ہے کہ ملت کے سرمائے کا درست استعمال ہو، زکات، صدقات اور عطیات وغیرہ مخلص اور امانت دار ہاتھوں ہی میں پہنچیں، حتی الامکان، غیر مخلصوں بدعنوانوں اور خائنوں کے ہاتھ لگنے سے بچایا جائے، اور پھر مستحقین پر اسے صحیح ڈھنگ سے منصوبہ بند طریقے پر صرف کیا جائے، اسلامی ماحول میں عصری تعلیم گاہوں کا قیام، بےمعاش لوگوں کے معاش کا نظم، اعلی تعلیم کے حصول میں لوگوں کا تعاون، وسیع پیمانے پر قوم کی روحانی تعلیم و تربیت کے نظام کا قیام، وہ بنیادی چیزیں جن پر نہایت منصوبہ بند اور منظم انداز میں ملی سرمایہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے، یہ وہ بنیادی امور ہیں کہ اگر ان پر پلاننگ کے ساتھ توجہ دی جائے تو بہت سے مسائل پر بہ آسانی کے ساتھ قابو پایا جاسکتا ہے!
روحانی کمزوریوں کا حل۔
- 1 مدارس کے نظام میں ایسی اصلاحات کی جائیں کہ اس کی طرف نسل نو کا بہاؤ بڑھے، محض پانچ سے دس فیصد افراد ہی اس کا رخ نہ کریں بل کہ مقدار کم از کم بیس فیصد تک پہنچے، ایسی کیا اصلاحات ہوسکتی ہیں اس پر ہم نے کافی تفصیلی بحث اپنے کتابچے "وراثت محمدی _علی صاحبھا الف الف تحیات و صلوات_ کے تقاضے” میں کی ہے، اجمالاً یہاں ایک چیز ذکر کرتے ہیں کہ طلباء مدارس کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے ساتھ ان میں کچھ ایسی اہلیتیں بھی پیدا کی جائیں کہ وہ مسجد و مدرسے کے علاوہ شعبوں میں بھی داخل ہوسکیں!
- 2 دنیوی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی روحانی تعلیم و تربیت کا وسیع نظام کھڑا کیا جائے۔
- 3 خواتین کی مضبوط روحانی تعلیم و تربیت کا خصوصیت و اہمیت کے ساتھ نظم کیا جائے۔
حل کے تحت مندرجہ بالا تین نکات عمومی اور مجموعی حیثیت رکھتے ہیں۔
لہذا ان عمومی اور مجموعی نکات کے وہ خاص اجزا جن کا براہ راست زیر بحث موضوع سے تعلق ہے، ہم ذیل میں الگ سے ذکر کررہے ہیں۔
الف : فکری، نظریاتی و اعتقادی پختگی۔ اعتقادات و نظریات کو شریعت اسلامیہ میں سب سے اساسی حیثیت حاصل ہے، اور فطری طور پر بھی یہ امر واضح ہے کہ اگر کوئی بھی فرد یا معاشرہ کسی نظریہ اور اعتقاد کے ساتھ مربوط نہیں ہوتا، تو اس کے لیے کسی بھی دوسرے نظریے کو اپنانا یا اس کا اثر قبول کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری قوم کی یہی جہت سب سے زیادہ کمزور ہے۔ اسی وجہ سے اسے بہکانا اور ڈگمگانا بہت زیادہ آسان ہے۔ لہذا نسل نو کی ایمانیات کو مضبوط اور پختہ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہر باشعور اور ذی علم مسلمان کا فریضہ ہے!
2۔ اسلام کے معاشرتی احکامات و ہدایات کی بھرپور تبلیغ و تعلیم نیز عملی تنفیذ کے لیے کوششیں۔ ماں باپ، شوہر بیوی، اولاد، بھائی بہن، رشتہ دار، پڑوسیوں وغیرہ کے ساتھ اسلام نے جو برتاؤ اور طرزِ عمل اختیار کرنے کا درس دیا ہے وہ اس قدر فطری، خوشگوار اور پرکشش ہے کہ اس پر عمل پیرائی کسی بھی سماج کے اندر بےتحاشہ کشش اور جاذبیت پیدا کردیتی ہے، ایسا سماج متأثر نہیں بل کہ مؤثر ہوتا ہے، وہ سوسائٹی کسی دوسرے سماج کی طرف مائل نہیں ہوتی، بل کہ دیگر قومیں ان کے اعلی اخلاق اور خوبصورت طرز معاشرت کی طرف کھنچاؤ محسوس کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اسلام جتنا عمدہ، پرکشش، معتدل و متوازن نظریہ معاشرت پیش کرتا ہے، عملی طور پر ہمارا معاشرتی سسٹم اتنا ہی کریہہ تکلیف دہ اور تنفر پیدا کرنے والا ہے۔ خصوصاً عورت کے حوالے سے سماج کا رویہ بےتحاشہ افراط وتفریط پر مشتمل ہے، ایک طبقہ وہ ہے جو مغرب کی مادر پدر آزاد تہذیب سے متأثر ہوکر ہر طرح کی پابندیوں کو خلاف عدل قرار دیتا ہے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو مشرق کی فرسودہ اور استحصالی روایات کو اسلام قرار دے کر خواتین کے سر مڑھتا ہے، جب کہ ان دونوں کے بیچ عورت کے حقیقی کردار کی توضیح کرتا اور ضروری آزادی و گنجائشیں عطا کرتا اسلام کا معتدل و متوازن نقطۂ نگاہ عملی طور پر خال خال ہی کہیں نظر آتا ہے، اسی افراط و تفریط کی وجہ سے غیر مسلموں کا کلچر بعض خواتین کو پرکشش نظر آنے لگتا ہے جو کبھی کبھار ان کے اس جانب میلان کی وجہ بھی بن جاتا ہے، حالانکہ تمام تر خامیوں کے باوجود بحیثیت مجموعی مسلم معاشرہ آج بھی ہندوانی کلچر سے ہزار درجہ بہتر ہے، لیکن ظاہری زرق برق کی وجہ سے کچھ لوگوں کو بھلا معلوم ہونے لگتاہے، قریب جاکر اس کی عیوب اور بھیانک استحصالات سامنے آتے ہیں۔ بہر حال! قصہ مختصر یہ کہ نسل نو کا اسلام پر اعتماد مضبوط کرنے کے لیے معاشرتی ناہمواریوں اور خامیوں کی اصلاح اشد ضروری ہیں۔
ابتدا میں ہم نے ان راستوں کا ذکر کیا تھا جن کے ذریعے کوئی بھی طاقتور قوم، کمزور قوم پر حملہ آور ہوتی ہے، اب اخیر میں ہم ان راستوں کے سد باب کا طریقہ پیش کریں گے!
1 معاشرتی اختلاط اور مصاحبت!
اختلاط و مصاحبت سے متأثر ہونا انسانی فطرت کا لازمہ ہے، جیساکہ ابتدا میں ہم بہ تفصیل ذکر کرچکے کہ ہر اختلاط خواہ وہ ایک سے زائد افراد کے درمیان پایا جاتا ہو یا معاشروں کے درمیان اس کا اصول ہے کہ ان میں ایک فاعل ہوگا اور دوسرا منفعل، ایک مؤثر ہوگا اور دوسرا متأثر، اس ضمن میں یہ اصول بھی ذکر کیا تھا کہ ہمیشہ ظاہری و معنوی طور پر کمزور فرد و معاشرہ منفعل و متأثر ہوتا ہے جب کہ نسبتا قوی معاشرہ فاعل و مؤثر، پس چوں کہ ہم مجموعی حیثیت سے کمزور ہیں اس لیے معاشرتی خلط ملط سے اجتناب ہمارے تصورات و تشخصات کی حفاظت کے لیے ضروری ہے!
لہذا ایسے مسلمان جو گھنی غیر مسلم آبادیوں کے درمیان بسے ہوے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلم اکثریتی علاقوں کی طرف منتقل ہوں، تاکہ روز مرہ کی معاشرت میں غیر اسلامی تہذیب اور طور طریقوں سے واسطہ کم سے کم پڑے۔ اس کے سوا بھی بہت سی خرابیاں ہیں جو غیر مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کے بسنے سے پیش آتی رہتی ہیں اور آسکتی ہیں، لہذا اس حوالے سے قوم کا شعور بیدار کرنا بہت ضروری ہے۔
تعلیم گاہ…!
تعلیم گاہ کا ماحول، استاذ کی ذہن سازی، نصاب کی نوعیت اور ہم درس طلباء کی مصاحبت کسی بھی نسل کی فکری و نظری نشو و نما میں کس قدر کلیدی کردار ادا کرتی ہے یہ کسی بھی باشعور شخص پر مخفی نہیں ہے، لہذا کم از کم ہائی سکول اور انٹرمیڈیٹ تک اسلامک سکولز کا کثرت کے ساتھ قیام ضروری ہے، تاکہ بچپنے کی عمر سے ہی ہندوانی و الحادی ماحول، غیر اسلامی ذہن سازی اور غیر مسلموں کی مصاحبت سے محفوظ رہا جاسکے۔ کچی عمر اور ذہنی ارتقاء کے مراحل ہی میں غیر مسلم اساتذہ، مسخ شدہ نصاب، اور غیر مسلم کلاس فیلوز کی معیت لاشعور میں غیر محسوس طریقے سے اثرات مرتب کرتی جس کے نتائج بعد میں ظاہر ہونا شروع ہوتے، خصوصاً وہ بچے جن کا گھریلو ماحول دینی و تربیتی نہیں ہے، ان کے عقیدۂ و عمل کے لیے تو ایسی تعلیم گاہیں کسی زہر ہلاہل سے کم نہیں ہیں!
رجحان ساز ادارے….!
رجحان ساز اداروں میں نہایت طاقتور کردار، مووی، ڈراما انڈسٹری اور سوشل و الیکٹرانک میڈیا کا ہے، آج یہ تمام ذرائع فکری ارتداد، اسلام بیزاری، اخلاق باختگی کو فروغ دینے اور روحانی تصورات کو مسخ کرنے میں مکمل توانائی کھپا رہے ہیں، لہذا پہلا کام تو یہ ہے کہ تو ان کے مقابلے کے لیے کم از کم سوشل میڈیا کا مثبت اور بھرپو استعمال کیا جائے، اور دوسرا طریقہ جو پہلے سے زیادہ مؤثر اور ضروری ہے وہ ماں کی ذریعے کی جانے والی تربیت و ذہن سازی ہے، ماں کی تربیت ایسی طاقتور تاثیر رکھتی کے اس کے نتیجے میں پروان چڑھنے والی فکر و نظر بد دینی و جہالت کے تیز و تند چھکڑوں کے درمیان بھی ڈانو ڈول ہونے سے محفوظ رہتی ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ مائیں اس لائق ہوں کہ وہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرسکیں۔ آج جو بچیاں ہیں وہی کل ماں بنیں گے۔ لہذا انہیں اس لائق بنانا پوری ملت کا فریضہ ہے کہ وہ کل ماں بن کر تربیت اولاد کا اہم ترین اور حساس فریضہ انجام دے سکیں، فکر مند افراد اور جماعتوں کو اس کے لیے جنگی پیمانے پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اگر وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گئیں تو ان کی آغوش میں پرورش پانے والی نسل کے دین و ایمان کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی!
خدا ہم سب کو ملت اسلامیہ کے تحفظ کا سپاہی بنائے۔ آمین