Slide
Slide
Slide

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن

سید سرفراز احمد – بھینسہ

____________________

ارض فلسطین کی ایک تاریخ رہی ہےجو قربانیوں کے ڈھیر سے بھری پڑی ہے اس سرزمین کی قدر ومنزلت اس لیئے بھی بہت ذیادہ ہے کہ یہاں قبلہ اول مسجد اقصٰی موجود ہے دوسرا یہ انبیائی سرزمین ہے پھر تو لازمی ہے کہ کیسے یہ سرزمین قربانیوں سے خالی ہوگی یہی وہ ارض پاک ہے جس کو ہمیشہ قربانیاں و آزمائشیں مطلوب رہی ہیں اور ہر دور میں ان قربانیوں اور آزمائشوں کو پیش کرنے میں کسی نے کسر باقی نہیں رکھی جی ہاں بات ہورہی ہے مسجد اقصٰی کے تحفظ کی تو سارے عالم کے کسی بھی مسلمان کیلئے قبلہ اول سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہونا چاہیئے حتی کہ اس راہ میں مال جان خاندان ہی کی قربانی کیوں نہ لٹانی پڑجائےکیونکہ یہی آخرت میں کامیابی اور نجات کا ذریعہ ہے لیکن ان قربانیوں کو اس دور میں پیش کرنا کوئی معمولی کام نہیں ہے ہم نے اللہ کے نبیۖ کے زمانے سے صحابہ کرامؓ کے دور کے واقعات کو سیرت نبیﷺ اور تاریخ میں پڑھا ہے کہ اسلامی انقلاب کے غلبہ کیلئے کیسی کیسی صعوبتوں کو برداشت نہیں کیا دراصل یہ انقلاب نہ صرف ایک نعرہ بلند کردینے اور نہ ہی جذبات میں اچھلنے کا نام ہے بلکہ مسلسل قربانیوں کو پیش کرنے کا نام ہی انقلاب ہے وقت کی باطل قوتوں کو ایمان کی طاقت سے زیر کرنے کا نام انقلاب ہے صبر و عزیمت اعتدال و مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کا نام انقلاب ہےاس کے علاوہ اس راہ میں سب کچھ راہ حق میں لگادینا بلکہ خود بھی اس طرح کی قربانیوں کیلئے پیش پیش رہنا اور راہ خدا میں جام شہادت نوش فرمانے کی خواہش رکھنا یہی دراصل اصل انقلاب ہے اور اللہ کو یہی سب مطلوب ہے۔

لیکن ایسی قربانیوں کو ہم نے یا تو صرف تاریخ اسلام میں پڑھا ہے یا صرف تصور کی دینا میں دیکھا ہے اور اب ہم اس چیز کو دورخی نظریہ سے دیکھیں تو ایک طرف ہماری خوش قسمتی نظر آتی ہے وہ اس لیئے کہ جو تذکرے ہم نے تاریخ کی کتابوں میں پڑھے ہیں ایسی قربانیوں کو ہم فلسطین کی سرزمین سے دیکھ رہے ہیں آج ہمارے فلسطینی بھائی جہاں وہ قبلہ اول کے دفاع میں اپنا سب کچھ راہ خدا میں نچھاور کرنے میں کوئی پس وپیش کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ اپنا گھر مال خاندان بچے اور خود کو بھی قربان کرنے میں اصل کامیابی سمجھتے ہیں دوسرے رخ میں ہماری بدقسمتی اس لیئے ہے کہ ایسی قربانیوں کیلئے اللہ نے ہمارا انتخاب نہیں کیا ہے نو ماہ کے زائد عرصے سے جاری جنگ میں صیہونی طاقتوں نے معصوموں کو تک نہیں بخشا اسرائیل ہمیشہ جنگ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتارہادنیا کے سوپر پاور امریکہ کی پشت پر لڑی جانے والی جنگ کے باوجود مجال ہے کہ فلسطینی عوام کے پائے استقامت و عزیمت میں کوئی لرزہ آیا ہو یا انکے ایمان کی حلاوت میں کوئی کمی دیکھی گئی ہو اتنے کمال کے لوگ ہیں کہ خاندانوں و اقرباء کو قربان کردینے کے باوجود بھی انکے چہروں پر حسین سی مسکراہٹ کو بکھیرتے ہوئے دیکھا گیا دنیا کا ایسا کوئی خطہ نہ ہوگا کہ اس طرح کی ایمانیات کےمغز سے بھر پور لوگ ملیں سب کچھ لٹادینے کے باوجود بھی وہ اپنے رب کی حمد و ثناء کرتے ہوئے اسکے آگے سجدہ بسجود شکر بجا لاتے ہیں۔

قربانیوں کے چلتے سلسلے میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت والی خبروں نے عالم اسلام پر سکتہ طاری کردیا اگر چہ یہ سکتہ عارضی طور پر ہی سہی چونکہ دنیا کے کسی بھی خطے کے مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ وہ مرنے کے بعد اٹھایا جائے گا لیکن شہیدوں کیلئے تو قرآن نے مزید خوشخبری دیتے ہوئے فریایا اورجو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں تمہیں انکی زندگی کا علم نہیں(سورہ بقرہ 154)یقیناً اسماعیل ہنیہ کی شہادت اس عارضی دنیا کے لوگوں کیلئے ایک غمناک خبر ضرور ہے لیکن ہنیہ نے توراہ خدا میں اپنی جان لٹا کراپنی آخرت بھی بنالی،حق کے قافلے پر جس سرپرست کا ایک عرصہ دراز سے شفقت بھرا سایہ تھا جو ایک عظیم حوصلے کی طرح تھا جو اپنے قافلے کے جواں عزائم میں ہر آن نئی آڑان بھرتاتھا جیسے ایک باپ اپنے بیٹے کی ہمت افزائی کرتا ہو وہ آج حق کے قافلے سے جدا تو چکا ہے لیکن اسکے جواں عزائم اور حوصلوں کو یہ تحریک ہمیشہ زندہ رکھے گی لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ جس تحریک کا مقصد ہی قبلہ اول کی حفاظت کرنا ہو جنکا یقینِ کاملہ اللہ کی ذات سے ہو انکے حوصلےکبھی بھی متزلزل نہیں ہوسکتے اور نہ انکے عزائم کو کوئی توڑ سکتا بلکہ ایسی شہادتوں کے بدلے انکے ایمان میں مزید اضافہ ہوگا انھیں اور مزید تحریک ملے گی لیکن باطل طاقتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ہم نے جنگ کے اصل ہیرو کو شہید کردیا ہے اور اسی زعم میں وہ خوشیاں بھی منارہی ہیں لیکن انھیں اس بات کا علم نہیں کہ اس کارواں میں ہر ایک اپنی جگہ ہیرو ہوتا ہے تم اگر ایک ہنیہ شہید کروگے تو اس کے بدلے سینکڑوں ہنیہ پیدا ہونگے جن کے ایمان کی طاقت کا تمہیں اندازہ نہیں ہے۔

اسماعیل ہنیہ جو گذشتہ دنوں قطر میں رہائش پذیر تھے بطور مہمان نئے ایران کے صدر مسعود پیز شکیان کی تاج پوشی تقریب میں شرکت کی غرض سے گئے ہوئے تھے ایرانی وقت کے مطابق رات دو بجے اسماعیل ہنیہ کی رہائش پر بزدلانہ حملہ کرتے ہوئے شہید کردیا جاتا ہے ایران کے صدر نے کہا کہ ہم اس بزدل قاتلانہ حملے کاجواب دینگے ایران کے اعلی قائد آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ ہنیہ کی شہادت کا بدلہ ہمارے لیئے فرض ہے حماس کا کہنا ہے کہ یہ خون رائیگاں نہیں جائے گا امریکہ نے اس حملے سے اپنی بغلیں اٹھالیں اسرائیل خوشیاں تو منارہا ہے لیکن اس حملے کا نہ ہی اقرار کیا نہ انکار،اسی طرح دیگر مسلم ممالک نے بھی اپنااپنا ردعمل دیا لیکن سوشیل میڈیا پر علمی حلقوں میں سوالات کی بونچھار لگی ہوئی ہے بعض گوشوں میں راست وبالراست طور پر ایران کو اس حملے کا مجرم بتایا جارہا ہے یا کوئی اسرائیل ہی کو اسکا مجرم بتارہے ہیں لیکن حملہ ایران میں ہوا ہے تو ایران پر سولات تو لازماً اٹھیں گے۔

ایران نے تو واضح کردیا کہ یہ اسرائیل کا حملہ ہے ایسا بھی نہیں ہے کہ اس جنگ کے آغاز کے بعد سے اسماعیل ہنیہ کا ایران یہ پہلا دورہ تھا بلکہ اس سے قبل بھی انھوں نے ایران کا دورہ کیا تھا لیکن ان سوالات کے جوابات تو ایران کو دینے ہونگے کیا ایران کی سیکیورٹی اور خفیہ ایجنسیز اتنی کمزور ہے کہ وہ ایک عظیم قائد کا تحفظ نہیں کرسکی؟فرض کرلیتے ہیں کہ اگر یہ حملہ اسرائیل نے کیا تو سوال یہ ہیکہ دشمن کو کیسے علم ہوا کہ شہیداسماعیل ہنیہ کہاں رہائش پذیرہے؟اگر ایران کی سیکیورٹی ایک اسلامی عظیم قائد کا تحفظ نہیں کرسکتی تو انھیں مدعو ہی کیوں کیا گیا؟جس رہائش گاہ میں شہید اسماعیل ہنیہ تھے ایران نے نہ کے برابر سیکیورٹی کیوں لگائی؟ جب کہ انھیں پتہ ہے کہ یہ عالم اسلام کے ایک قدآور قائد ہیں خاص طور پر فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے سیاسی سربراہ ہیں چونکہ باطل قوتوں کے حملہ کرنے کے خدشات تو ہمیشہ لگے رہتے ہیں پھر کیوں ایران سب جانتے بوجھتے تساہلی سے کام لیا؟ یہ جواب بھی ایران کو دینا ہوگا یہ بات اور ہے کہ اسماعیل ہنیہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک اعتدال پسند شخصیت کے حامل تھے وہ شعیہ سنی سے اوپر اٹھ کر گرمجوشی سے ایران سے اتحاد کیلئے ہمیشہ پہل کرتے آئے ہیں کیونکہ انکا مقصد عظیم تھا اسی لیئے وہ کبھی بھی جان کی پرواہ کیئے بغیر ایران کا رخ کرتے پر کمال تو یہ بھی دیکھئے کہ دنیا ایران کو کوس رہی ہے اور حماس نے ابھی تک ایران کو اف تک نہیں کہا بلکہ اسرائیل سے بدلہ لینے کے سخت موقف میں ہے مان لیتے ہیں کہ ایران واقعتاً اس حملے کا مجرم نہیں ہے لیکن یہ شک وشبہات توظاہر کیئے جاسکتے ہیں کہ کہیں کوئی نہ کوئی ایران ہی سے مخبری کا کھیل تو نہ کھیلا،ایران اگر عالم اسلام کے ایک بڑے گوشے میں اٹھ رہے شک و شبہات کو دور کرنا چاہتا ہے تب تو اسکو چاہیئے کہ وہ اس حملے کی جامع تحقیقات کروائیں اسکے اصل مجرم تک پہنچیں اور جس فکر و نظر سے بیان جاری کیا گیا کہ اس کا بدلہ ہمارے اوپر فرض ہے تو اس فرض کو پورا کرکے دکھائیں تب ہی ایران عالم اسلام کے گوشوں میں اٹھ رہے سوالات کو بند کرواسکتا ہے اور اس سے شعیہ سنی کے رشتے کو مزید استحکام بھی ملے گا ورنہ اگر یہ سب جملے بازی تک محدود رہ جائیں گے یا ٹھنڈے بستے میں ڈال دیئے جائیں گے تو جو شک و شبہات ظاہر ہورہے ہیں وہ یقین میں بھی بدل جائیں گے اور شعیہ سنی کے رشتوں میں بھی دراڑیں پڑ جائیں گی۔

نیوریاک ٹائمز نے دعوی کیا کہ دو ماہ قبل اس رہائش گاہ میں دھماکہ خیز مواد یعنی بم نصب کردیا گیا تھا اگر یہ دعوی سچ ثابت ہوتا ہے تو عالم اسلام کیلئے یہ ایک بہت ہی تشویشناک بات ثابت ہوگی یہ ایک دعوی ہے جب تک حقیقت اور تحقیقات سامنے نہیں آجاتی قبل از وقت کچھ کہنا غلط ہی ہوگا چونکہ اسرائیل کی ہمیشہ سے یہ چال رہی کہ وہ اپنے دشمن کو بیرون ممالک میں ہی دھماکے کرتے ہوئے شہید کرتا آیا اور شائد ہوسکتا ہےجو دعوی نیویارک ٹائمز کا جریدہ کررہا ہے وہ شعیہ سنی میں بڑھتی قربتوں کو مٹانے کیلئے کررہا ہو اور شائد اسی لیئے اس نے ابھی تک اس حملے کا اقرار بھی نہیں کیا لیکن وہ جوابی حملے کو لیکراندرونی طور سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور مسلسل امریکہ کے صدر سے رابطے میں ہے زرائع سے یہ بھی پتہ چلا کہ ایران کے قائد اعلی آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل پرراست حملہ کرنے کا حکم دے دیا ہے یہ سب تو آنے والا وقت بتائے گا کہ اب جنگ کا موڑ کس رخ بدلتا ہے یا یہ سب عارضی طور پر کہا جارہا ہے اس سے قبل اپریل میں عید الفطر کے دن اسماعیل ہنیہ کے اہل خانہ پر اسرائیل نے فضائی حملہ کیا تھا اس حملے میں میں اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹے اور چار پوتوں کی شہادت ہوچکی تھی اور اس دوران اسماعیل ہنیہ کا اپنی اہلیہ کے ساتھ ویڈیو بیان بھی منظر عام پر آیا تھا وہ اپنے بیٹوں اور پوتوں کی شہادت کو فلسطینی عوام کی شہادتوں کے مماثل قرار دیا تھا اسماعیل ہنیہ نے کہا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ اس جنگ میں ان کے خاندان کے اب تک 60 افراد کی شہادت ہوئی ہے اور بالآخر خود بھی شہید کردیئے گئے ہر ایک فلسطینی کواللہ کی ذات سے امید اور پختہ یقین ہے کہ ان شہداء کا لہو ایک دن ضرور رنگ لائے گا۔

شہید اسماعیل ہنیہ کی جسد خاکی تہران سے دوحہ آمد ہوتی ہے تو انکی اہلیہ امل ہانیہ صبر و استقامت کی عظیم مثال پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں "آپ دنیا و آخرت میں میرا سہارا ہیں غزہ کے تمام شہداء کو اور تمام رہ نماؤں کو سلام کہنا تمام مسلمانوں کو سلام کہنا اللہ آپ کیلئے آسانیاں پیدا کرےمیرے پیارے میرے دل کے سردار اس دنیا اور اس زندگی اور اگلے جہاں میں آپ میرا سہارا ہے اللہ کا شکر ہے” کیسا جذبہ ثبات ہے نم آنکھوں کےسامنے شہید شوہر کی میت ہے جس سے ایک طویل حیات سفر رہا وہ موت کی آغوش سورہا ہے نہ زوجہ کی آنکھ سے آنسوؤں کی لڑیاں، نہ ماتم، نہ دھاڑیں مار مار کے چیخ و پکار کرنا غضب کا ایمان عطا کیا ہے اللہ نے، والد کی شہادت پر تربیت یافتہ بیٹے کے جملے یقیناً تاریخ میں درج کیئے جانے چاہیئے عبدالسلام ہنیہ نے کہا کہ "ہمارے والد کا خون کمسن فلسطینی کے خون سے ذیادہ قیمتی نہیں ہے ہمیں اس شہادت پر فخر ہے میرے والد جیسی موت چاہتے تھے اللہ نے انھیں ویسی ہی موت (شہادت)عطا کی” العربیہ کے مطابق اسماعیل ہنیہ کی بہو اناس ہنیہ نے اپنے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں "خدا کی مرضی اور تقدیر سے مطمئن دل کے ساتھ میں ایک ایسے شخص کی موت پر دکھ کا اظہار کرتی ہوں جس کی اچھی یاد سے آسمان اور زمین بھرے ہوئے ہیں میں اپنے چچا اپنے پیارے اپنے والد اپنے سر کے تاج اور اس شخص کا ماتم کرتی ہوں جو کسی تعاون کا محتاج نہیں میری آنکھ کا تارا انکل ابوالعبد ہنیہ وہ مجاہدین ،صادقین،اور وفاداروں کی صف میں شامل ہوکر اپنے بیٹوں اور اعلی مرتبت کی صف میں شامل ہوگئے ہم صرف وہی کہتے ہیں جو خدا کو راضی ہو آپ سے جدائی پر ہمارے آنسو جاری ہیں اور دل غمگین ہے اے ابو العبد اے ہمارے ابا۔۔۔۔”ایسے جذبات اور ایسا ایمان ہمارے ایمان کو تازہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

اگر ایران شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لینے کی ٹھان لی ہے اور بیانات سے بھی ایران کے تیور جذبات سے بھرے ہوئے ہیں تو اگر صورتحال اسطرح کی ہوجاتی ہے تب تو جنگ کا نقشہ بدل بھی سکتا ہے شائد کہ یہ جنگ عالمی جنگ میں بھی بدل سکتی ہے چونکہ اسرائیل فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس سے اکیلا نہیں لڑرہا ہے اسکا سارا دارومدار امریکہ پر مشتمل ہے اور اس وقت امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں لیکن پھر بھی ظاہر ہے کہ امریکہ پوری قوت کے ساتھ بلکہ کھل کر جوابی کاروائی کیلئے بھی تیار رہے گا لیکن یہ صورتحال عالم اسلام کے مسلم ممالک کو دکھائی نہیں دے رہی ہے ابھی چالیس ہزار فلسطینی معصوم شہید کیئے جاچکے ہیں آخر وہ کونسی چیز یا مفادات شامل ہے جو انھیں قبلہ اول کے تحفظ کیلئے بھی روک رہی ہے؟لیکن جن مضبوط ارادوں بلند عزائم کے ساتھ یہ کارواں اپنے مقصد عظیم مسجد اقصٰی کے تحفظ کیلئے آگے بڑھ رہا ہے تو ان شاء اللہ ایسی قربانیوں کو اللہ ضائع نہیں کرے گا بقول شاعر مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر شہید اسماعیل ہنیہ پر صادق آتا ہے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کِشائی

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: