عبدالعلیم الاعظمی
_________________
بنگلہ دیش میں گزشتہ دنوں طلبہ تحریک کے ذریعہ ایک ظالم و جابر حکومت کا تختہ پلٹا گیا، اس واقعہ کے بعد شوشل میڈیا پر مختلف طرح کی آراء سامنے آئی، اپنے اپنے ذوق کے مطابق لوگوں نے مختلف تصاویر اور ویڈیوز کو نشر کیا، یہاں پر ہمیں اپنے رویے کے سلسلے میں سوچنے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم جو تصاویر اور ویڈیوز شئیر کررہے ہیں اس سے دنیا کے سامنے اسلام اور اسلام پسندوں کی کیسی تصویر سامنے آرہی ہے۔ کیا ہمارے شوشل میڈیا کے ذریعہ ہم اسلام اور اسلام پسندوں کی جو تصویر پیش کررہے ہیں، وہ مثبت ہیں یا منفی ؟
کسی بھی انقلاب اور ہنگامے کے بعد سب سے مشکل کام موبلائز لوگوں پر کنٹرول کرنا رہتا ہے، جذباتی عوام کچھ بھی کرسکتی ہے، چناں چہ بنگلہ دیش میں فرما رواں شیخ حسینہ کے بنگلہ دیش چھوڑنے کے بعد جذباتی عوام نے ان کے گھروں کو نشانہ بنایا اور قیمتی سامان کی لوٹ مار شروع ہوگئی۔ ہمارے فضلاء اور علماء نے ان تصاویر اور ویڈیوز کو مزاحا ہی بہت زور و شور کے ساتھ اپنے شوشل میڈیا اکاونٹ اور واٹس ایپ وغیرہ پر شئیر کیا اور اس چیز کو فخریہ پیش کیا گیا، لوٹ مار کی گئی چیزوں میں ایسی معمولی چیزیں حتی کہ شیخ حسینہ کے ذاتی لباس کی تصاویر تک بھی شئیر کی گئیں، یہاں پر سوچنے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ان تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعہ ہم نان مسلم لوگوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں، نان مسلم کے سامنے اسلام اور اسلامیت پسندوں کی کیسی تصویر پیش کررہے ہیں، ان تصاویر سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب ایک ظالم و حکومت کو ختم کرنے کے لیے نہیں؛ بلکہ صرف لوٹ مار کے لیے کیا گیا تھا۔ کیا ہم اپنے شوشل میڈیا کے ذریعہ ایسی چیزیں نہیں شئیر کررہے ہیں، جس سے اسلام پسندوں کی منفی تصویر سامنے آرہی ہے۔ مشتشرقین نے اپنی کتابوں میں عہد نبوی کے مقدس عمل جہاد کے سلسلے میں یہ ہفوات کی ہے کہ یہ محض لوٹ مار کے لیے تھا۔ کیا ہم جو تصویریں دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں، اس سے خالی الذہن افراد مشتشرقین کی بکواس پر یقین نہیں کرنے لگیں گے ؟
اسی انقلاب میں تصویر کا ایک اور رخ ہے، مختلف ذرائع اور بہت سی تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعہ یہ معلوم ہوا کہ مختلف تنظیموں اور نوجوانوں نے اس ہنگامہ کے دوران اقلیتوں/ غیر مسلموں کے گھروں اور ان کی عبادت گاہوں کی پوری رات حفاظت کی تھی تاکہ جذباتی عوام غصے میں ان کو نقصان نہ پہنچائے ، لیکن افسوس صد افسوس ہمارے علماء اور فضلاء نے لوٹ مار کی تصاویر اور ویڈیوز تو بڑھ چڑھ کر شئیر کی؛ لیکن ایسی ویڈوز اور تصاویر سے اکثریت نے اجتناب کیا ، جس سے اسلام اور اسلام پسندوں کی ایک مثبت تصویر دنیا کے سامنے جاتی اور ایک بڑی تعداد اس عمل سے متاثر ہوتی۔ تصویر کے ان دونوں رخ سے ہمارے فضلاء اور علماء کے رجحانات اور ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
الغرض ہمیں شوشل میڈیا پر کوئی بھی چیز شئیر کرنے سے قبل اس کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر کرنا چاھئے اور ایسے طنز و مزاح سے احتراز کرنا چاھئے جس کی ضربیں اسلام پسندوں پر پڑے۔ ہمیں ایسے مواد اور ایسی تحریروں کے شئیر کرنے سے بچنا چاھئے جس سے نا دانستہ طور پر ہی اسلام اور اسلام پسندوں کی منفی تصویر دنیا کے سامنے آرہی ہو۔