تعارف و تبصرہ : شکیل رشید
ایڈیٹر ممبئ اردو نیوز
_________________
ڈاکٹر شمس بدایونی کا شمار ، اردو زبان و ادب کے ثقہ محققین میں ہوتا ہے ۔ مختلف موضوعات پر ، ان کی اب تک تیس سے زائد تحقیقی کتابیں ماہرین ادب سے داد وصول کر چکی ہیں ۔ موصوف کی تازہ ترین کتاب ’ رموزِ اوقاف کب ، کہاں اور کیوں؟ ‘ ہے ، جسے علمی اور ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔ اس کتاب پر بات کرنے سے قبل کتاب کے نام کے پہلے حصے ’ رموزِ اوقاف ‘ کے حوالے سے ایک دلچسپ بات بتا دوں ، تاکہ ایک غلطی جو لوگ عام طور پر کرتے ہیں ، درست ہوجائے ۔ نہ جانے کیسے ، اسکول کے ابتدائی دنوں میں ، یہ بات ذہن میں میں بیٹھ گئی تھی کہ ، ’ رموزِ اوقاف ‘ نہیں درست ’ رموز و اوقاف ‘ ہے ، اور بہت عرصے بعد یہ غلطی سدھری ۔ اب بھی ، کچھ لوگ مل جاتے ہیں جو ، رموزِ اوقاف کو درست نہیں بولتے ، یہ ٹائٹل ان کی غلطی کی تصحیح کر دے گا۔
یہ کتاب ان مخففات ، علامات اور نشانیوں کے بارے میں ہے جو کسی جملے اور شعر کے معنی کو درست طور پر سمجھنے اور تفہیم میں معاون ہوتے ہیں ، ان میں وہ آٹھ علامات یا نشانیاں بھی ہیں جو اردو زبان میں رائج ہیں ، جنہیں رموزِ اوقاف کہا جاتا ہے ۔ انگریزی زبان میں انہیں پنکچوئشن کہتے ہیں۔
کتاب پیش گفتار ، معروضات ، مولف شمس بدایونی کے چار چھوٹے بڑے مضامین ، رموزِ اوقاف کی رائج آٹھ علامتوں کی تعریف ، مولف کے ایک مضمون بعنوان ’ رموزِ اوقاف ، کب ، کہاں اور کیوں ‘، کتابیات اور اشاریہ پر مشتمل ہے ۔ چلیں ان پر ایک نظر ڈال لیں ۔ مولف نے ’ پیش گفتار ‘ میں اس کتاب کا تفصیلی تعارف پیش کیا ہے ، اور اس کتاب کو مرتب کرنے میں جن اشخاص نے ان سے تعاون کیا ، ان کا شکریہ ادا کیا ہے ۔ بعنوان ’ معروضات ‘ معروف محقق ، ماہرِ فرہنگ و لغت ، ڈاکٹر رؤف پاریکھ ( کراچی) نے کتاب کا وقیع تعارف کرایا ہے ، وہ رموزِ اوقاف کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’
رموزِ اوقاف ( punctuation marks) وہ نشانات و علائم و رموز و مخففات ہیں جن کی مدد سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی متن کو کیسے پڑھنا ہے ۔ ان علامات و نشانات کی عدم موجودگی میں متن کا مفہوم تبدیل ہونے کا بھی خطرہ رہتا ہے جس کی طرف ڈاکٹر شمس بدایونی صاحب نے اس کتاب میں اشارہ بھی کیا ہے ۔ اردو والے اس طرح کی ’ خرافات ‘ سے بے نیاز ہیں ، الا ماشاء اللہ ۔ حالانکہ قرآن شریف کی قرآت میں علامات بہت اہم ہیں اور ان کو ملحوظ نہ رکھنے سے بعض صورتوں میں نہ صرف عربی عبارات بلکہ اردو میں بھی مفہوم تبدیل ہو جاتا ہے ۔ اس ساری تقریر غیر دل پذیر کا منشا و مقصد صرف یہ یاد دلانا ہے کہ اردو میں رموزِ اوقاف کا استعمال بہت بعد میں شروع ہوا اور ہماری ان سے بے نیازی کا اب بھی وہی عالم ہے حالانکہ تحقیق کے جدید طریق کار (methodology) میں علائم و رموز کی بہت اہمیت ہے اور حواشی اور کتابیات میں بھی ان کے استعمال پر بہت زور دیا جاتا ہے حتی کہ کاما اور سیمی کالن اور کالن کے استعمال میں بھی فرق و تمیز کی تاکید کی جاتی ہے ۔ شمس بدایونی صاحب نے ان پر خوب روشنی ڈالی ہے ، ان کی تاریخ بھی منضبط انداز میں بیان کی ہے اور اردو میں ان کے استعمال اور اصولی مباحث پر بھی خاصی تحقیق کے بعد اہم نتائج اخذ کیے ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ محض لکیر کے فقیر یا ناقل یا مرتب نہیں ہیں بلکہ انھوں نے اکثر مقامات پر رائج خیالات یا ماضی کے محققین سے اختلاف کیا ہے اور اپنی رائے قائم کی ہے ۔ بعض رموز اس کتاب میں ایسے ہیں کہ کہیں اور ان کا ذکر شاید ہی ملے ۔ ڈاکٹر صاحب کی محنت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اول تو اس موضوع پر بہت کم اردو میں لکھا گیا ہے اور جو کچھ بھی لکھا گیا ہے اسے ڈاکٹر صاحب نے کمال اختصار سے سمیٹ لیا ہے ۔ یہ اردو میں اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے جس میں رموزِ اوقاف کی تاریخ بیان کی گئی ہے ۔‘‘
معروضات کے بعد ’ علامات – مخففات ‘ کے عنوان سے ڈاکٹر شمس بدایونی کا مقالہ ہے ۔ مقالے میں مرتب نے مختلف مآخذ سے کم و بیش ٥٠ لفظی ، ٤٢ حرفی ، ٧ عددی اور ٢٣ نشانات پر مشتمل کل ١٢٢ علامات و مخففات کو جمع کیا ہے ۔ اس مقالے میں مخففات کو چار طور پر تقسیم کیا گیا ہے ؛ لفظوں پر مشتمل علامتیں ، حروف پر مشتمل علامتیں یا مخففات ، اعداد پر مشتمل علامتیں اور نشانیوں ( خط یعنی لکیر ، نقطے وغیرہ ) پر مشتمل علامتیں ۔ اس مقالے میں ڈاکٹر موصوف نے محقق قاضی عبدالودود کا بھی ذکر کیا ہے جو ان چند ادیبوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے وضع کردہ مخففات استعمال کیے ہیں ، مثالیں بھی دی ہیں ۔ رشید حسن خان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ’’ اعراب ، علامات ، مخففات اور رموز اوقاف کی اصولی تقسیم کی ہے ۔‘‘ جن ١٢٢ علامات و مخففات کو اس مقالے میں پیش کیا گیا ہے ان میں سے سوائے چند کے اب استعمال میں نہیں ہیں ، اور ان چند کے استعمال سے بھی زیادہ تر لوگ ناواقف ہیں ۔ مقالے میں ترقی اردو بورڈ کی املا کمیٹی کی سفارشات کا بھی ذکر ہے جس نے پہلے ١٧ علامتوں کی سفارش کی پھر ان میں مزید ٨ کا اضافہ کیا ۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں : ’’ راقم الحروف نے ان سفارشات پر غور کیا اور یہ پایا کہ حسب ذیل ١٧ علامتیں آج بھی کسی نہ کسی درجہ میں استعمال ہو رہی ہیں ۔‘‘ انہوں نے وہ ۱۷ علامتیں مقالہ میں شامل کی ہیں ۔
مقالہ بعنوان ’ تاریخ رموزِ اوقاف ( ماقبل و مابعد سرسید) ‘ میں رموز ِ اوقاف کی سلسلہ وار تاریخ بیان کی گئی ہے اور رموزِ اوقاف کی نشانیوں کو متعین اور انہیں رائج کرانے کے لیے سرسید کی کوششوں کا خاص ذکر کیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے رموزِ اوقاف کی تاریخ کے چار ادوار طے کیے ہیں ؛ پہلا دور جان گلکرسٹ ، شیخ امام بخش صہبائی ، منشی غلام محمد اور سرسید احمد خان کا ہے ۔ دوسرا دور مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا محمد نظام الدین حسن نوتنوی ، پروفیسر محمد نعیم الرحمن الہ آبادی اور مولوی عبدالحق کا ہے ۔ تیسرا دور غلام رسول اور ڈاکٹر غلام مصطفٰی خاں کا ہے ۔ چوتھا دور ( جو جاری ہے ) رشید حسن خاں ، ڈاکٹر فرمان فتحپوری ، ڈاکٹر گیان چند جین کا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں : ’’ پہلے دور کے سرخیل سرسید احمد خاں ، دوسرے کے عبدالحق اور چوتھے کے رشید حسن خاں ٹھہرے ۔‘‘ اوپر منشی غلام محمد کا ذکر آیا ہے ، جو ممبئی کے تھے اور انجمن اسلام ہائی اسکول کے بنیاد گزاروں میں تھے ۔ یہ انگریزوں کو بزبان انگریزی اردو و فارسی پڑھاتے تھے ، اور بمبئی یونیورسٹی کے فیلو اور ممتحن بھی بنائے گیے تھے ۔ ڈاکٹر میمونہ دلوی ( مرحومہ) کی کتاب ’ بمبئی میں اردو ‘ میں ان کا تذکرہ اور ان کی درجن بھر کتابوں کی فہرست ملتی ہے ۔
ایک اہم مقالہ بعنوان ’ رموز اوقاف، مفہوم ، منشا اور تعبیر ‘ اور ایک مقالہ بعنوان ’ رموز اوقاف ۔ تعریف و اہمیت ‘ ہے ، دونوں میں ، رموز ِ اوقاف کی ، مثالوں کے ساتھ مفصل تعریف بیان کی گئی ہے ۔ ان مقالات کے بعد بڑی تفصیل سے ان ٨ رموزِ اوقاف کے استعمال کی ، جو اردو زبان میں رائج ہیں ، وضاحت کی گئی اور ان کے محلِ استعمال پر روشنی ڈالی گئی ہے ، اس کے لیے صہبائی ، سرسید ، عبدالحق ، گیان چند وغیرہ کے ذریعے ان کے استعمال کی مثالیں دی گئی ہیں ، اور اگر ڈاکٹر صاحب نے کہیں کسی طرح کا اختلاف یا اتفاق ظاہر کرنا ضروری سمجھا ہے ، تو ’ عرض مرتب ‘ کے تحت اپنی بات رکھی ہے ۔ ایک باب ’ اضافی یا اختیاری اوقاف ‘ کے عنوان سے ہے جس میں رائج ٨ رموز ِ اوقاف سے ہٹ کر جن علامات کو استعمال کرلیا جاتا ہے ان کا ذکر ہے ۔ آخری باب ’ رموزِ اوقاف ، کب ، کہاں اور کیوں؟ ‘ کے عنوان سے ہے ، اس باب میں رموزِ اوقاف سے متعلق ذہن میں اٹھنے والے چند سوالوں کے جواب دیے گیے ہیں ۔ یہ ایک لاجواب کتاب ہے ! ڈاکٹر شمس بدایونی کا یہ کام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ میری تو یہ تجویز ہے کہ یہ کتاب اردو نصاب میں شامل کر لی جائے ۔ اسے انجمن ترقی اردو ( ہند) نے بڑے ہی خوبصورت انداز میں شائع کیا ہے ۔ اس کتاب کی اشاعت کے لیے انجمن کے معتمد ڈاکٹر اطہر فاروقی اردو دنیا کی طرف سے شکریے کے مستحق ہیں ۔ کتاب 218 صفحات پر مشتمل ہے ، قیمت 300 روپیہ ہے ۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے ای میل farouqui@yahoo.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔