Slide
Slide
Slide

درگاہ معلیٰ کچھوچھہ مقدسہ کی سجادہ نشینی کا قضیہ: تاریخ کے روزن سے

✍️ محمد شہباز عالم مصباحی

علاقائی صدر

آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ

(شمالی بنگال و سیمانچل یونٹ)

______________

درگاہ معلیٰ کچھوچھہ مقدسہ کا شمار برصغیر کے مشہور اور معتبر روحانی مراکز میں ہوتا ہے۔ یہ مقدس درگاہ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کا آستانۂ عالیہ ہے، جو نہ صرف اپنے وقت کے بڑے صوفی بزرگ تھے بلکہ اسلامی تعلیمات اور تصوف کے عظیم مبلغ بھی تھے۔ ان کی تعلیمات اور روحانی سلسلے نے برصغیر کے عوام میں گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ اس عظیم درگاہ کی سجادہ نشینی کا مسئلہ ایک اہم تاریخی قضیہ ہے جس پر اس مضمون میں تاریخ کے روزن سے روشنی ڈالی جائے گی۔

درگاہ معلیٰ کے اول سجادہ نشین حاجی سید عبد الرزاق نور العین:

حاجی سید عبدالرزاق نورالعین، حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے خالہ زاد بھائی تھے۔ آپ کا تعلق جیلان سے تھا، اور آپ کو حضرت غوث العالم نے اپنی روحانی تربیت کے تحت پرورش دی۔ حضرت غوث العالم نے آپ کو بے حد محبت سے نوازا اور "نور العین” کا لقب عطا فرمایا۔ آپ نے حضرت غوث العالم کی زندگی میں ہی اپنے عظیم روحانی مقام کا اظہار کر دیا تھا، اور حضرت غوث العالم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی آپ کو اپنے جانشین کے طور پر نامزد کر دیا تھا۔

حاجی نور العین کے بعد سجادہ نشینی کا پس منظر:

حاجی سید عبد الرزاق نور العین کے پانچ فرزند تھے:

  • 1. سید شاہ شمس الدین:

سید شاہ شمس الدین، جو انتہائی کم عمری میں یعنی اٹھارہ سال کی عمر میں وصال فرما گئے۔ باوجود ان کی مختصر زندگی کے، وہ علم و فضل کے میدان میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔

  • 2. سید حسن اشرف:

سید حسن اشرف کو حضرت نورالعین کے بعد درگاہ معلیٰ کچھوچھہ مقدسہ کی سجادہ نشینی کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کو ولایتِ کچھوچھ مقدسہ عطا کی گئی تھی، اور آپ نے اپنے والد کے وصال کے بعد درگاہ کی خدمت میں عمر گزاری۔

  • 3. سید حسین اشرف:

سید حسین اشرف کو ولایتِ جونپور عطا کی گئی، لیکن ان کا دل وہاں نہیں لگا، اور بعد میں وہ کچھوچھ مقدسہ واپس آگئے۔ ان کے بھائی سید حسن اشرف نے ان کی محبت میں ان کے لیے 27 محرم الحرام کی تاریخ عطا کی، جس میں سید حسین اشرف کی نسل کے لوگ رسومات عرس ادا کرتے ہیں۔

  • 4. سید فرید اشرف:

سید فرید اشرف کو ردولی کی ولایت عطا کی گئی۔ ان کی نسل میں صرف دو نسلوں تک اولاد ذکور موجود رہی، اس کے بعد صرف اولاد اناث کا سلسلہ جاری رہا جو اب تک جاری ہے۔

  • 5. سید احمد اشرف:

سید احمد اشرف کو جاٸس کی ولایت عطا کی گئی۔ ان کی نسل میں معروف ہستیاں جیسے سید شاہ کلیم اشرف اشرفی الجیلانی، پروفیسر سید شاہ علیم اشرف اشرفی جیلانی صدر شعبۂ عربی مولانا آزاد اردو یونیورسٹی حیدر آباد، سید شاہ قسیم اشرف اشرفی الجیلانی، اور سید شاہ سلمان اشرف اشرفی الجیلانی موجود ہیں۔

سید حسن اشرف اور سید حسین اشرف کا قضیہ:

سید حسن اشرف اور سید حسین اشرف دونوں بھائیوں کے درمیان عرس کی تقریبات کا معاملہ تاریخی طور پر اہم ہے۔ سید حسن اشرف کی یہ دریا دلی تھی کہ انہوں نے اپنے بھائی سید حسین اشرف کو جون پور سے دل نہ لگنے کی وجہ سے کچھوچھہ مقدسہ آنے کے بعد 27 محرم الحرام کی تاریخ عطا کی، جبکہ خود 28 محرم الحرام کو جو کہ وصال کی اصل تاریخ ہے، تمام تقریباتِ عرس ادا فرماتے تھے۔ موجودہ زمانے میں 27 محرم الحرام کی تقریبات کو حضرت سید شاہ محی الدین اشرف اشرفی الجیلانی (بسکھاری) دام ظلہ اور دیگر افراد انجام دیتے ہیں۔ جبکہ تاریخ وصال 28 محرم الحرام کی تقریبات کو روایتی و قدیمی طور پر قائد ملت، امیر بزم اشرفیت حضرت مولانا سید شاہ محمود اشرف اشرفی الجیلانی دام ظلہ العالی انجام دیتے ہیں جو سید شاہ حسن اشرف قدس سرہ کے صحیح ترین وارث اور اس درگاہ معلیٰ کچھوچھہ مقدسہ کی روایتِ سجادہ نشینی کے اصل امین ہیں۔

حاجی الحرمین حضرت سید شاہ ابو الحسن عبد الرزاق نورالعین کا کردار:

حضرت سید شاہ ابو الحسن عبد الرزاق نور العین کا کردار اس قضیہ میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ آپ نے حضرت غوث العالم کی زندگی میں ان کے خلیفہ اور جانشین کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ آپ کی شادی سادات ماہ رو میں ہوئی، جو کشفاق و کشلاق سے ہندوستان آئے تھے۔ آپ کے فرزندوں کی تربیت حضرت غوث العالم اور آپ کی زیر نگرانی ہوئی، جس کی وجہ سے وہ سب علم و فضل اور تقویٰ و پرہیزگاری میں ممتاز ہوئے۔

فرزندوں کی تربیت اور تبرکات:

حضرت محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنی زندگی میں ہی اپنے جانشین حاجی عبد الرزاق نورالعین کو تبرکات اور بشارتیں عطا فرمائیں اور ان کے پانچوں فرزندوں کو خاص طور پر یاد فرمایا اور ان کے لیے بشارتیں دیں جو بعد میں حرف بہ حرف پوری ہوئیں۔ سید شاہ شمس الدین کے متعلق فرمایا کہ ان کی عمر کم ہوگی، اور ایسا ہی ہوا۔ سید حسن اشرف کو "احسن الوجوہ واکبر الوقوہ” کا خطاب عطا کیا۔

نتیجہ:

درگاہ معلیٰ کچھوچھہ مقدسہ کی سجادہ نشینی کا قضیہ تاریخ کے آئینے میں نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ اس قضیے کے ذریعے ہمیں برصغیر کے صوفی سلسلوں کی روحانی وراثت، محبت، ایثار، اور بھائی چارے کی بہترین مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ سید حسن اشرف اور سید حسین اشرف کی درگاہ کی خدمت اور ان کی نسلوں میں موجود یہی جذبۂ خدمت آج بھی ان کی عظمت کی گواہی دیتا ہے اور حضرت غوث العالم مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی سے ان کی گہری اور انمٹ محبت و عقیدت کو ظاہر کرتا ہے۔ درگاہ معلیٰ کچھوچھہ مقدسہ آج بھی اپنے زائرین کے لیے روحانی سکون اور تربیت کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

(تحقیق و تفصیل کے لئے لطائف اشرفی و صحائف اشرفی کا مطالعہ کریں)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: