۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

دی گوٹ لائف

دی گوٹ لائف

✍️ عبدالرحیم خان

____________________

ان دنوں چرچے میں ہے فلم “دی گوٹ لائف” جس میں کم و بیش تین دہائیوں قبل کسی مزدور پر اس ملک میں زیادتیوں کو دکھایا گیا ہے۔ فی الحال یہاں ستائیس لاکھ سے زائد ھندوستانی موجود ہیں جن میں اکثریت مزدور طبقہ کی ہے۔ باہری ملکوں میں کام کرنے والے لوگوں کے ذریعہ اپنے ملک بھیجی جانے والی رقم کو ریمیٹینس (Remittance) کہا جاتا ہے۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ سب سے زیادہ ریمیٹینس یعنی پوری دنیا کا بارہ فیصدی سے بھی زیادہ صرف اپنے ملک ھندوستان میں بھیجا جاتا ہے۔ اس بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مجموعی رقم کا سب سے بڑا حصہ خلیجی ممالک بالخصوص امارات، سعودی عرب اور کویت سے ہوتا ہے۔ ہر سال صرف سعودیہ سے ھندوستان بارہ بلین ڈالر سے بھی زیادہ رقم بھیجی جاتی ہے۔ یہ اعداد و شمار یہاں ذکر کرنے کا واحد مقصد یہ بتانا ہے کہ لاکھوں زندگیوں کی بہتری کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت پر بھی اس ملک کا کتنا بڑا یوگدان ہے۔

ستائیس لاکھ جیسے بڑی تعداد میں سے کچھ کے ساتھ کبھی کوئ زیادتی ہوئ ہو یا ہورہی ہو اس سے قطعاً انکار نہیں، البتہ معاملات ویسے نہیں ہیں جیسا کہ یہاں کے تعلق سے ملک میں پہلے اور کچھ حد تک آج بھی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ مزدوری کے لئے ھندوستان سے یہاں زیادہ تر وہ نچلا طبقہ آتا ہے جو نہ تعلیم یافتہ ہوتا ہے اور نہ ہی اسکے ہاتھ میں کوئ ہنر ہوتا ہے۔ ہاں، خواب اور امیدیں بڑی ضرور ہوتی ہیں، بیشتر کو لگتا ہے کہ صحرا میں کچھ نوٹوں کے درخت لگے ہیں اور انہیں کو ہِلا کر دو چار سال میں ماں کے گھٹنے کا آپریشن، باپ کا موتیا بند، بہن کی شادی، بیوی کا زیور اور بچوں کی چھت سب کچھ کر ڈالیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ میں ایک دو نہیں پچیسیوں کو جانتا ہوں جو سالوں قبل ایئرپورٹ سے ہی آزادانہ کام کرنے کو بھاگ لیتے تھے، چوری و غصب کرکے فرار کے معاملات بھی پہلے عام تھے۔۔۔۔۔۔ جبکہ ایک شخص کو یہاں بلانے پر صاحب عمل کو کئ کئ ہزار ریال خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ عمال کی حرکتوں کے باوجود اکثریت کے ہاں درگزر کا رواج ہے، پر چند ایک کے ذریعہ بدلہ لینے یا بنا غلطی کے پریشان کرنے کے واقعات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا اور ایسے معاملات شاذ و نادر تھے اور اب گزشتہ کچھ سالوں سے شاید بالکل بھی نہ ہوں۔ شاید آپ میں سے یہ بات کم کو معلوم ہو کہ یہاں سب سے زیادہ محنتی و ایماندار عموماً ھندوستانی مزدوروں ہی کو مانا جاتا ہے، اپنے ہاں کے آئ ٹی انجینیئرز اور ڈاکٹرز یہاں کی پہلی پسند ہوتے ہیں، ھندوستانی اسکیلڈ ورکرز کو بہت ہی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ الحمدللہ، گزشتہ پندرہ سالوں میں سواۓ احترام کے کم از کم میں نے ذاتی طور پر کبھی کسی منفیت کا سامنا نہیں کیا ہے۔

اب آئیے ذرا آپ اپنے ملک کے مزدوروں کے تعلق سے جان لیں۔ بے روزگاری کے چلتے خودکشیوں یا فاقوں سے ہونے والی اموات پر مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔ گورنمنٹ کے اپنے ریکارڈ کے مطابق ہر روز مزدوروں کے لئے بنیادی تحفظاتی اقدامات نہ ہونے کے چلتے صرف فیکٹریوں میں تین سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔ مجموعی طور پر ستاون فیصدی سے زیادہ لوگ اپنے کام کے دوران تشدد و استحصال کا شکار ہوتے ہیں، اَسّی فیصدی سے زیادہ کام کرنے والی عورتیں کسی نہ کسی شکل میں جنسی استحصال جھیل رہی ہوتی ہیں، گھریلوں مزدوروں کے ساتھ مارپیٹ اور نوکرانیوں کے ساتھ سیکسؤل ابیوز آپ سب سے مخفی نہیں۔

اب یہاں مزدوروں کے حقوق بھی دیکھ لیجئے۔۔۔۔۔ اگر آپ باقاعدہ تعاقد کرکے یہاں آۓ ہیں تو کوئ گنجائش نہیں کہ کوئ اسکی خلاف ورزی کرسکے، اور اگر آپ کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے تو ایک سے دو تاریخوں میں آپ کا مقدمہ آپ کے حق میں فیصلے کے ساتھ ختم ہوگا۔ دوران عمل اگر آپ کی موت ہوجاتی ہے یا آپ جسمانی معذور ہوجاتے ہیں تو تامینات اجتماعیہ (سوشل انشورینس) کے ذریعہ آپ کے لواحقین کو لاکھوں ریال کا ہرجانہ ملیگا، آپ کے لواحقین کو بنا کسی تاخیر کے اینڈ سرویس ملے گی، آپ کی نعش کو آپ کے ملک بھیجنے کے لئے دس ہزار ریال (دو لاکھ روپیے سے زائد) ملیگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں اگر آپ اپنے ایجنٹ سے زبانی تعاقد اور بڑے بڑے خواب سن کر یہاں آتے ہیں، یا یہاں آنے کے بعد کسی بھی حادثے کی صورت میں اپنے جائز اختیارات کا استعمال نہیں جانتے یا نہیں کرنا چاہتے ہیں تو پھر یہ آپ کا اپنا ذاتی مسئلہ ہے۔

ہر جگہ کی طرح اس ملک میں بھی منفیات سے انکار نہیں، پر مجموعی طور پر خواہ دینی معاملات ہوں یا انسانی حقوق کی بات ہو ابھی تمام تر جمہوری و انسانی اقدار کی دہائیوں کے باوجود ہماری اپنی سرزمین بہت پیچھے ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: