زندگی استحقاق کا نام ہے
عجز و عاجزی کا نہیں
✍️ محمد قمر الزماں ندوی
___________________
انسانی عزم کی طاقت و قوت کس قدر ہے، اس کے اندر کیسی تسخیری صلاحتیں پوشیدہ ہیں؟ یہ سب عیاں اور بیاں ہیں ۔
انسان اگر چہ کمزور پیدا کیا گیا ہے ،، و خلق الانسان ضعیفا،، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو بے پناہ خوبیوں،صلاحیتوں، ہمتوں اور طاقتوں سے نوازا ہے کہ دنیا کی کوئی مخلوق انسان کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ:
ہر نئی نسل اپنے عہد اور ماحول کے شانے پر سوار ہوکر میدان علم و عمل میں آتی ہے، اس کے منفی و مثبت اثرات کو اپنے اندر جذب کرتی ہے ،۔ سوال یہ ہے کہ ہماری نئی نسل خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتی ہو ،،زمانہ باتو نہ ساز ،تو بزمانہ ستیز،، کے تحت کس طرح موجودہ زمانے کی خرابیوں اور فساد انگیزیوں سے بالکل دور رہتے ہوئے اعلیٰ متوارٹ دینی و اخلاقی اقدار اور ان کی خوبیوں سے اپنے دامن کو مالا مال کرسکتی ہے ؟ موجودہ تمدنی زندگی اپنے تصورات اور عمل میں جن چیزوں سے مرکب ہے ،ان میں ایسی لغویات بہت ہیں، جو بظاہر زندگی ساز نظر آتی ہیں ،حالانکہ ان میں ایک بامقصد قوم یا اس کے افراد کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے موت کا راز مضمر ہے۔
یاد رہے:
انسان جس زمانہ اور عہد میں پیدا ہوتا ہے ،اس زمانہ کے اعتبار سے نرم و گرم حالات برداشت کرنے کی بھی اس کے اندر بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے، اور اس زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کی، اس کے اندر بھر پور صلاحیت ہوتی ہے،اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ اور مصلحت کاملہ سے ہی کسی انسان کو کسی زمانہ میں پیدا کرتا ہے اور اس کو اس عہد و ماحول کے مطابق صلاحیتوں سے نوازتا ہے، نیز اسی زمانے کے اعتبار سے ذمہ داریوں کا مکلف بناتا ہے۔
اس لیے کسی انسان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ یہ کہے اور شکوہ کرے کہ ہم غلط عہد اور زمانے میں پیدا ہوگئے ، زمانہ ساز گار اور موافق نہیں ہے ، یہ زمانہ اچھا نہیں ہے ،کاش ہم پہلے پیدا ہوئے ہوتے ،فلاں زمانہ اور فلاں دہائی میں پیدا ہوئے ہوتے ، اس طرح کی باتیں کرنا اور ایسا سوچنا جائز نہیں ہے ، قدرت کے نظام اور فیصلے پر لب کشائی کرنا ہے، یہ جرآت بندے کو حاصل نہیں ہے۔
آپ جس عہد اور زمانہ میں پیدا ہوئے ہیں ،اس زمانہ کے اعتبار سے آپ کے اندر صلاحتیں بھی ودیعت کی گئی ہیں کہ ان سے آپ حالات زمانہ کا مقابلہ کریں اور اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوں اور اپنے علم و عمل اور جد و جہد کے انمٹ نقوش دوسروں کے لیے چھوڑیں، اور اس طرح دنیا میں اپنے آنے کا مقصد پورا کرکے رب کی رضا اور دارین کی سعادتیں حاصل کرلیں۔
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رح نے انسانی عزم کی طاقت و قوت کو بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ:
” اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ہم برے زمانے میں پیدا ہوئے، حالات حد درجہ خراب ہیں ،مشکلات ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں ،لیکن میں اس کے بر خلاف کہتا ہوں کہ ہر بڑے خوش قسمت ہیں، لائق صد مبارک باد ہیں کہ اس زمانہ میں پیدا ہوئے ،کیونکہ ہم کو تھوڑی سی محنت و کوشش کے بعد بڑا ثواب اور مقام مل سکتا ہے ،اگر ہم اس زمانہ میں پیدا ہوئے ہوتے کہ جب بڑی صلاحیتوں کے لوگ پیدا ہوئے تو ہم کس شمار میں آتے؟ اس وقت ان حضرات کی جوتیاں سیدھی کرنا ہمارے لیے باعث فخر ہوتا، میدان عمل اور میدان کارزار میں ہمارا کچھ مقام نہ ہوتا ،لیکن اس دور میں کم صلاحیتوں کے باوجود بہت کچھ کرسکتے ہیں اور حقیقتا کام کرنے کا لطف بھی ایسے ہی زمانہ میں ہے، کیونکہ جب باد مخالف کے تھپیڑے اور مخالف موجوں کا زور نہ ہو تو کیا لطف و مزہ ہے ۔ جس طرح پتھروں کو ٹکرا کرکے شعلہ پیدا کیا جاسکتا ہے ،اسی طرح انسانی عزم بھی مخالف قوتوں سے ٹکرا کرہی ابھرتا ہے ،یہ زمانہ یہ ملک یہ ماحول ماتم کے لیے نہیں ہے،بلکہ مسرت اور شادمانی کا موقع ہے کہ ہم تھوڑا کریں اور بہت پائیں ،کیونکہ زندگی استحقاق کا نام ہے ،عجز و عاجزی کا نام نہیں ” ۔۔۔۔۔۔۔(ماہنامہ پیام سدرہ شمارہ مئی 2018ء چنئی)
غرض یہ کہ آج جو مشکل اور پیچیدہ حالات ہیں ،تیز تند طوفان ہیں ،باطل ہر طرف دندنا رہا ہے ، پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مسلسل سازشیں ہیں ، حملے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہمارے اندر ان طوفانوں سے مقابلے کی ہمت نہیں ہے ،ہم ان سے ملک و قوم کو صحیح دھارے پر لانے کی ہمت نہیں رکھتے ہیں۔
یقین جانیے کہ ہمارے اندر ہر طرح کی صلاحیت ، تدبیر اور ہمت و حوصلہ موجود ہے، کیونکہ اس کے مقابلے کے لیے ہی اس دور میں اللہ تعالیٰ نے ہم کو پیدا کیا ہے ، اور یہ اصول تو قیامت تک کہ لئے ہے کہ ولا دفع اللہ الناس بعضھم لفسدت الارض ۔۔ اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں میں سے بعض کا بعض سے دفع نہ کرتے تو زمین میں فساد مچ جاتا۔