پہلی برسی پر خراجِ عقیدت
معصوم مرادآبادی
___________________
آج ممبئی کے بے لوث اور بے باک ملّی قائد گلزار اعظمی کی پہلی برسی ہے۔ انھوں نے گزشتہ سال آج ہی کے دن (20 اگست 2023) مختصر علالت کے بعد ایک مقامی اسپتال میں وفات پائی تھی ۔ ان کے انتقال سے ملی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی تھی ۔انھوں نے ایک ایسے وقت میں آنکھیں موندیں جب مظلوم ملت کو ان جیسے مخلص، بے لوث اور جا نباز قائدین کی سب سے زیادہ ضرورت تھی ۔وہ بنیادی طورپر سوشلسٹ نظریات کے حامل تھے، لیکن انھوں نے تمام عمر جمعیۃ علماء کی رفاقت میں گزاری، جس سے وہ 1954 میں وابستہ ہوئے تھے اور آخری عمر تک رہے۔انھیں اکابرین جمعیۃ کا اٹوٹ اعتماد حاصل رہا۔
حالیہ عرصہ میں جمعیۃ کی قانونی امداد کمیٹی کے سیکریٹری کے طورپر انھوں نے تنہاجو خدمات انجام دی ہیں، وہ کسی بھی ادارے سے بڑھ کر ہیں۔انتقال کے وقت ان کی عمر 89 برس تھی اور وہ چند روز پہلے تک پوری تندہی سے ملی امور انجام دے رہے تھے۔ غسل خانے میں گرنے کی وجہ سے ان کے سر میں شدید چوٹ آئی جو جان لیوا ثابت ہوئی۔ گلزار صاحب کو قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ اپنی ذات اور ضرورتوں سے بے پروا ہوکر انھوں نے پوری زندگی ملت کی خدمت میں گزاری۔انھوں نے جس ثابت قدمی اور دل جمعی کے ساتھ ملت کی فلاح وبہبود کے کاموں میں دلچسپی لی اور انھیں حل کرنے کی راہیں ڈھونڈیں وہ ان ہی کا خاصہ ہے۔
گلزار اعظمی کا آبائی تعلق اترپردیش کے مردم خیز خطہ اعظم گڑھ سے تھا، لیکن ان کی پیدائش بمبئی میں ہوئی اور اسی کو انھوں نے عملی زندگی کے لیے منتخب کیا، جہاں کارخیر انجام دینے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔مہاراشٹر کے کسی بھی ضلع یا قریہ میں مسلمانوں پر کوئی قیامت ٹوٹی تو وہاں سب سے پہلے پہنچنے والوں میں گلزار اعظمی ہی ہوتے تھے۔ بھیونڈی کا فساد ہو یا بمبئی کی قتل وغارتگری، انھوں نے ہر جگہ مظلوموں کی داد رسی کی اور انھیں انصاف دلانے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ ان کی اپنی زندگی نہایت سادہ تھی۔ ممبئی میں رہنے کے باوجود وہ ہر قسم کے تصنع سے پاک تھے۔ان کے تعلقات کا دائرہ بہت وسیع تھا اور لوگ ان پر اعتماد بھی بہت کرتے تھے۔
ان کے انتقال سے دوہفتہ پہلے کی ہی تو بات ہے۔ میں نے ممبئی پہنچ کر پہلا فون گلزار بھائی کو کیا۔ انھوں نے پہلی ہی رنگ میں فون اٹھاکر پوچھا ”معصوم تم کہاں ہو؟“میں نے کہا رات ہی آپ کے شہر میں وارد ہوا ہوں اور پھر انھوں نے اسی بے تکلفی کے ساتھ کہا ”پھر آؤنا“مگر میں اس روز مصروفیات کی وجہ سے ان سے نہیں مل سکا اور اگلے دن کا وعدہ کرکے فون بند کردیا۔ اگلے روز صبح صبح فاروق سید (ایڈیٹرماہنامہ’گل بوٹے‘)اپنی تیز رفتار اسکوٹی لے کر ہوٹل آگئے اور کہا ”بولئے کہاں چلنا ہے۔“میں نے کہا”چلو گلزار بھائی کے پاس چلتے ہیں۔ آپ انھیں جانتے ہیں؟“ انھوں نے کہا کہ ”نام تو بہت سنا ہے، لیکن ملاقات آج پہلی بار آپ کے ساتھ ہوگی۔وہ تو بہت بڑا کام کررہے ہیں، مجھے ان سے ملنے کا اشتیاق ہے۔“
میں برادرم فاروق سید کی اسکوٹی پر بیٹھ کر بھنڈی بازار کے قریب جمعیۃ العلماء کے دفتر پہنچا تو گلزار بھائی میرے منتظر تھے۔ حسب سابق اردو کے اخبارات ان کے اردگردپھیلے ہوئے تھے۔ کہنے لگے ہراتوار کو ’ممبئی اردو نیوز‘ میں تمہارا مضمون پابندی سے پڑھتا ہوں۔“ میں نے ان کے معمولات کے بارے میں پوچھا تو بتایا کہ
”اب یہی دفتر میرا گھر بھی ہے۔“
ایک چھوٹی سی بنچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ
”رات کو اسی پر سوجاتا ہوں۔“
یہی گلزار بھائی کی زندگی تھی جس کا مشاہدہ میں گذشتہ چاردہائیوں سے کرتا رہا ہوں۔ ان کی اپنی ذات اور ضرورتیں سب مظلوم ملت کی نذر تھیں۔ گلزار بھائی نے پوری زندگی ملت کی بے لوث خدمت میں گزاری۔ وہ ایک لمحہ بھی اس سے غافل نہیں رہے۔ آخری زمانے میں انھوں نے اپنی تمام صلاحیتیں دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں ماخوذ نوجوانوں کو قانونی امدادمہیا کرانے میں صرف کیں۔وہ کئی بے قصور نوجوانوں کو پھانسی کے پھندے سے بچانے میں کامیاب ہوئے۔وہ یوں تو جمعیۃ علماء کی قانونی امداد کمیٹی کے ذمہ دار تھے۔ لیکن اگر میں یہ کہوں کہ ان کی خدمات موجودہ دور میں جمعیۃ کے کسی بھی عہدیدار سے زیادہ تھیں تو بے جا نہیں ہوگا۔ انھوں نے کبھی ملی اثاثوں کا غلط استعمال نہیں کیا۔ نہ ہی عیش وعشرت کی زندگی بسر کی۔ پوری زندگی بھنڈی بازار کی ایک تنگ گلی کی ایک بوسیدہ چال میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گزاری۔ان کا رہن سہن بھی بہت سادہ تھا۔ بس دوسروں کے کام آنا اور انھیں مقدور بھر امداد فراہم کرنا ان کا مقصد حیات تھا۔
مجھے یاد ہے کہ میں 80 کی دہائی کے وسط میں جب پہلی بار بمبئی گیا تھا تو گلزار بھائی ہی میرے میزبان تھے۔ اس وقت ان کا دفتر بھنڈی بازار میں واقع شالیمار ہوٹل کی بالائی منزل پر تھا۔ اس عمارت کا نام شاید وزیری بلڈنگ تھا۔ یہاں روزانہ گلزار بھائی سے ملاقات ہوتی اور دنیا جہان کی باتیں ہوتی تھیں۔ وہ خود کم بولتے اور سنتے زیادہ تھے۔ لیکن اب ان کی سماعت کچھ کمزور ہوگئی تھی۔ عمر بھی تو 89 برس تھی۔لیکن اس پیرانہ سالی میں بھی وہ پوری طرح چاق وچوبند تھے۔ سوچا ان کے ساتھ ایک تصویر کھنچوالو، مگر یہ سوچ کر رک گیا کہ گلزار بھائی تو ابھی برسوں زندہ رہیں گے۔ پھر کبھی سہی۔مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ ان سے آخری ملاقات ہوگی۔کئی روز سے ان کی شدید علالت کی خبریں آرہی تھیں۔ یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ وہ وینٹی لیٹر پر ہیں، مگر نہ جانے کیوں مجھے ان کے صحت یاب ہوکر دوبارہ کام پر لوٹنے کا یقین تھا۔میرا یقین واہمہ ثابت ہوا اور گلزار بھائی وہاں چلے گئے جہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا۔اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعاگو ہوں کہ وہ ان کی قبر کو نور سے بھردے ۔ بمبئی میں اب کوئی دوسرا گلزار اعظمی پیدا نہیں ہوگا۔