Slide
Slide
Slide

مودی عہد میں گستاخیِ رسول کی نا قابلِ برداشت جرأتیں

محمد شہباز عالم مصباحی

________________

مودی حکومت کے دور میں، ملک میں مختلف سطحوں پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات اور گستاخیِ رسول کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان واقعات نے نہ صرف مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے بلکہ ملک کے سیکولر اور جمہوری ڈھانچے کو بھی چیلنج کیا ہے۔ یہ مضمون ان واقعات کا جائزہ لیتا ہے اور ان کے اثرات پر روشنی ڈالتا ہے۔

نرسنگھانند سرسوتی کا گستاخانہ عمل (2021):

سال 2021 میں، نرسنگھانند سرسوتی نامی ایک ہندو مذہبی رہنما نے پیغمبر اسلام کے خلاف گستاخی کی تھی جس کے نتیجے میں مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا تھا۔ مسلمانوں سمیت منوج بھارتی، جو ایک ہندو سماجی کارکن ہیں، نے بھی اس گستاخی کے خلاف بہار کے گیا سول کورٹ میں مقدمہ درج کیا تھا۔ منوج بھارتی نے کہا تھا کہ نرسنگھانند سرسوتی جیسے لوگ نہ صرف دوسرے مذاہب بلکہ اپنے ہی مذہب اور اس کے اصولوں کا بھی احترام نہیں کرتے۔

منوج بھارتی نے نرسنگھانند سرسوتی کے لیے عبرتناک سزا کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر حکومت اس کے خلاف کارروائی نہیں کرتی، تو وہ احتجاج اور مظاہروں کا راستہ اپنائیں گے۔ انہوں نے صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم ہند کو قومی اتحاد برقرار رکھنے، مذہبی نفرت کے خاتمے، اور نرسنگھانند سرسوتی جیسے فسادی و فسطائی لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی درخواست بھی بھیجی تھی۔

نوپور شرما کا متنازع بیان (2022):

بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما نے سال 2022 میں پیغمبر اسلام کے خلاف متنازع بیان دیا تھا جس نے بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کے لئے ایک بڑا سفارتی چیلنج پیدا کر دیا تھا۔ اسلامی دنیا، بشمول او آئی سی، پاکستان، سعودی عرب، کویت، قطر اور ایران نے نوپور شرما کے بیان پر شدید احتجاج کیا تھا۔ انڈیا کے سفیروں کو مختلف ممالک میں طلب کیا گیا تھا اور عرب دنیا میں انڈیا کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بھی شروع ہوئی تھی۔

نوپور شرما نے بعد میں معافی مانگ لی تھی، لیکن عدالت نے اس پر ریمارکس دیے تھے کہ انہوں نے معافی مانگنے میں بہت دیر کر دی تھی۔ اس واقعے نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ دنیا بھر کے انصاف پسند لوگوں کے دلوں میں گہری تشویش پیدا کی تھی۔

مہاراشٹر کا حالیہ واقعہ:

حالیہ دنوں میں، مہاراشٹر میں ایک ہندو پنڈت گنگا گیری مہاراج نے پیغمبر اسلام کے خلاف نہایت گستاخانہ زبان استعمال کی ہے اور ہندو مجمع کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دی ہے۔ جب مسلمان اس گستاخ پنڈت کے خلاف احتجاج اور قانونی کارروائی کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں، تو اخباروں سے ایک پرانی تصویر سامنے آئی ہے جس میں مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے اس پنڈت کے ساتھ ایک ہی اسٹیج پر موجود ہیں۔

تحفظِ ناموسِ رسالت کے نام پر مسلمانوں میں اتحاد وقت کا تقاضا:

ایسے حالات میں جبکہ ملک میں گستاخیِ رسول کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں، تحفظ ناموس رسالت کے نام پر ہندوستانی مسلمانوں میں اتحاد وقت کا جبری تقاضا ہے۔ ان واقعات کے پیش نظر، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مذہبی اور قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے متحد ہوں اور ہر سطح پر اپنے جذبات اور موقف کو مضبوطی سے پیش کریں۔ اتحاد کے بغیر، مسلمانوں کے حقوق اور مذہبی شعائر کی حفاظت ممکن نہیں ہوگی۔

نتیجہ:

یہ تمام واقعات مودی حکومت کے دور میں ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی منافرت اور عدم برداشت کی عکاسی کرتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے مناسب کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہو رہے ہیں اور ملک کے سیکولر ڈھانچے پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ حکومت اپنے فرائض کو سمجھے اور ملک میں اتحاد، امن اور بھائی چارے کو برقرار رکھنے کے لیے فوری اور سخت اقدامات کرے۔ مسلمانوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ان نازک حالات میں متحد ہو کر اپنی آواز بلند کریں اور تحفظِ ناموسِ رسالت کے لیے ہر ممکنہ اقدامات کریں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: