آفتاب رشکِ مصباحی
بہار یونیورسٹی مظفرپور بہار
_____________________
انسانی جماعت کی ہمہ جہت رہبری اور ہدایت کے لیے اللہ رب العالمین نے انبیا کو مبعوث فرمایا۔ نا معلوم مدت سے چلی آرہی اس دنیا میں انسانوں کو سیدھی اور سچی راہ دکھانے کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاے کرام کی تشریف آوری ہوئی ، جن کی آخری کڑی ہمارے اور آپ کے، بلکہ ساری کائنات کے پیغمبر جناب محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ انبیا کی جماعت وہ سچی جماعت ہے کہ جن کی ہدایت سے بہتر کسی کی نہ ہدایت ہو سکتی ہے اور نہ جن کے طریقے سے بہتر کسی کا طریقہ ہو سکتا ہے۔ گروہ انبیا کے تعلق سے اسلامی نقطہ نظر یہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے جس نبی کے ذمہ رشد و ہدایت اور دعوت وتبلیغ کی جو بھی ذمہ داری عائد کی تھی اسے انہوں نے بحسن و خوبی پوری کی ۔ کہیں بھی کسی بھی اعتبار سے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ آپ انبیا کے حالات پڑھیں ۔ اتنی بڑی ذمہ داری کہ جس کی ادائےگی میں بسا اوقات بعض انبیا کو انسانوں کی طرف سے اذیتیں اٹھانی پڑیں، بلکہ بعض کو تو جان بھی گوانی پڑی، مگر ان کی زندگی میں ایک چیز بہت نمایاں طو پر نظر آتی ہے، وہ یہ کہ حالات خواہ جس قدر بگڑے ہوں انہوں نے اپنے فرائض منصبی سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ جنہیں ان کی باتیں قبول کرنی تھیں، انہوں نے قبول کیں اور جنہیں انکار کرنا تھا، انہوں نے انکار کیا، مگر دعوت و تبلیغ اور رشد و ہدایت کے کاموں سے ایک بال برابر بھی پیچھے نہیں ہٹے۔
انبیا کی زندگی میں دعوت وتبلیغ کے معاملے میں جو چیز سب سے نمایاں نظر آتی ہے وہ ہے، مدعو کے پاس ان کا خود چل کر جانا۔ ڈور ٹو ڈور پیغام حق کی ترسیل سب سے پہلے انہیں نفوس قدسیہ نے کی ۔ کسی بھی قسم کے نذرانے اور ڈیمانڈ سے اوپر اٹھ کر خالصۃً لوجہ اللہ انہوں نے یہ کام کیا۔ اپنے مدعو اقوام کو صاف لفظوں میں اس بات کی وضاحت بھی کر دی کہ اس کار خیر کی ادائے گی پر میں تم سے کسی بھی چیز کا ڈیمانڈ نہیں کرتا اور نہ ہی کسی چیز کی مانگ کرتا ہوں ۔ وہ جہاں بھی رہے، جس حال میں بھی رہے دعوت و تبلیغ کو ایک لمحے کے لیے بھی نظر انداز نہیں کیا۔ پیغمبرانِ خدا نوح ، ابراہیم ، لوط ، یوسف ، موسی ، عیسی علیھم السلام ہوں یا دیگر تمام انبیا یا پھر جناب محمد رسول اللہﷺ ہوں ۔ ان تمام کی زندگی کارِ دعوت کے معاملے میں ہمیں ایک طرح نظر آتی ہے۔ ان میں سے کسی نے بھی اپنے منصب نبوت و رسالت کو روزی روٹی کا ذریعہ نہیں بنایا۔ اور نہ ہی ان میں سے کوئی اپنی روزی روٹی کے لیے کسی کا مرہون منت رہا، بلکہ سب نے اپنی روزی روٹی کے لیے کسی نہ کسی پیشے کو ذریعہ بنا رکھا تھا۔ چنانچہ کتب تواریخ وسیر کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کھیتی باڑی کرتے تھے، حضرت نوح علیہ السلام بڑھتی یعنی لوہار کا کام کرتے تھے، ادریس علیہ السلام درزی کا کام کرتے تھے، حضرت ہود اور صالح علیہما السلام تجارت کرتے تھے، حضرت شعیب علیہ السلام جانور پالتے اور اس کے دودھ سے معاش کا انتظام کرتے تھے، حضرت موسی علیہ السلام بکریاں چراتے اور حضرت داؤد علیہ السلام زرہ بناتے تھے، حضرت سلیمان علیہ السلام بادشاہ ہونے کے باوجود پتوں سے بنے پنکھے اور زنبیلیں بنا کر گزر اوقات کرتے تھے اور ہمارے پیغمبر جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے ابتدا میں بکریاں چرائیں اور بعد میں کپڑوں کی تجارت بھی کی۔ گویا تمام پیغمبران عظام دعوت و تبلیغ کا کام بھی کرتے تھے اور روزی روٹی کے لیے کسی نہ کسی پیشے سے بھی جڑے ہوتے تھے۔ ٹھیک یہی اسوہ ہمیں صحابہ و تابعین کی زندگیوں میں بھی نظر آتا ہے۔ بلکہ متقدمین و متوسطین علما و مشائخ کے یہاں بھی یہی روش زندگی دیکھنے کو ملتی ہے، کہ ایک طرف وہ کار دعوت بھی انجام دے رہے ہیں اور دوسری طرف کسی پیشے سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔
صوفیاے عظام اور اولیاے کرام کی زندگیاں دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں کوئی حکیم ہے، کوئی تاجر ہے، کوئی فوجی ہے، کوئی سپہ سالار ہے، کوئی کا تب ہے، کوئی حج ہے۔ گو کہ ہر ایک کی روزی روٹی کا انتظام کسی نہ کسی پیشے سے ہو رہا ہے اور ساتھ ہی دعوت وتبلیغ اور رشد و ہدایت کا کام بھی چل رہا ہے۔ یہ ہم متاخرین کا دور ہے جس میں روزی روٹی کے معاملے میں ہم دوسروں پر منحصر ہو گئے ہیں۔ درس و تدریس ہو، امامت ہو، وعظ و خطابت ہو یا نعت خوانی و شعر گوئی ۔ ہم نے اس چیز کو اپنا پیشہ بنالیا ہے اور پیشے کے دوسرے تمام کاروبار سے یک لخت کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ بلکہ اب مزاج ہی کچھ ایسا بنالیا ہے کہ ایک مدرس اپنے درس و تدریس کے ساتھ، ایک امام اپنی امامت کے ساتھ اگر کوئی سائڈ بزنس کرتا ہے، کاروبار کرتا ہے تو اسے معیوب گردانا جاتا ہے۔ جس کا سائڈ افیکٹ یہ ہو رہا ہے کہ مدرسین اور ائمہ کا ایک بڑا طبقہ سدِ رمق بھر روٹی پر کسی طرح گزر بسر کر رہا ہے۔ جولوگ با حوصلہ اور باہمت ہیں وہ توکسی قدر صبر و قناعت کے ساتھ جمے ہوئے ہیں ، لیکن جن میں مشکلات کا سامنا کرنے کی تاب نہیں وہ ہر طرح کے مکروز ور ، دھوکا، فریب اور جعل سازی کے ذریعہ مالی منفعت کے چکر میں پڑے رہتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ ایک ایسی سچائی ہے جس سے ہم منہ نہیں چھپا سکتے ۔
ادھر فارغین مدارس علما نے اپنی دوڑ مسجد سے مدرسہ تک محدود کر لی ہے۔ گو کہ اب اس میں بڑی حد تک وسعت آئی ہے۔ لوگ اب دوسرے شعبہ جات کی طرف بھی پیش قدمی کر رہے ہیں، مگر ابھی بھی ایسوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اکثر مسجد و مدرسہ کی چہاردیواریوں ہی سے لیٹے ہوئے ہیں ۔ تمام تر کاروبار اور دیگر پیشوں سے الگ ہو کر محض مسجد و مدرسہ تک محدود ہو جانے کا ناجائز فائدہ متولیان و منتظمین خوب اٹھا رہے ہیں۔ آج بھی چند جگہوں کو چھوڑ کر اکثر جگہوں پر ائمہ و مدرسین کو سات آٹھ ہزار سے لے کر دس بارہ ہزار کے قلیل مشاہرے پر گزر بسر کرنا پڑ رہا ہے۔ آپ ایمانداری سے بتائیں، کیا ایک عام آدمی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سادہ قسم ہی کا کھانا کھا کر آٹھ دس ہزار میں گزر بسر کر سکتا ہے؟ نہیں کر سکتا ہے۔ تو پھر ان ائمہ و مدرسین ہی کو کیوں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اتنے قلیل مشاہرے پر زندگی گزاریں۔ میرا اپنا تجربہ ہے اور آپ سب کا بھی تقریباً یہی تجربہ ہوگا کہ عموماً مساجد و مدارس کے متولیان و منتظمین اپنے ایک ایک بچے پر آٹھ دس ہزار روپیہ ماہانہ خرچکرتے ہیں۔ گو انھیں اپنے اعتبار سے دو تین بچوں کے ساتھ سادہ زندگی گزارنے کے لیے بھی چالیس سے پچاس ہزار ماہانہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب کہ ان کے انڈر میں درس و تدریس اور امامت و خطابت کی ذمہ داری ادا کرنے والوں کے لیے سات آٹھ ہزار سے لے کر دس بارہ ہزار کو ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ یہ کیسی سمجھ ہے؟ گویا ایک بڑا طبقہ علما کی جماعت کو دانستہ مفلوک الحال دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ کسی صورت نہیں چاہتا کہ علما بھی سماج کے دیگر لوگوں کی طرح مین اسٹریم میں شامل ہو سکیں۔
ادھر ہمارے علما کا طبقہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔ ایک جگہ کسی عالم کی جگہ لگ رہی ہے جہاں لوگ آٹھ دس ہزار مشاہرہ دینے کی بات کر رہے ہیں اور وہ عالم بارہ چودہ ہزار پر اڑا ہوا ہے کہ ایک دوسرا عالم چھہ سات ہزار ہی میں اپنی خدمات پیش کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ ۔ رِیر کیس میں کسی کے ساتھ کوئی بڑی مجبوری آجائے، کوئی کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہو جائے اور وہ اس طرح کا قدم اٹھالے تو بات کسی قدر سمجھ میں آتی ہے۔ مگر یہاں تو عام حالات یہی بنتے جارہے ہیں۔ ایک جگہ کسی سے چھوٹی نہیں کہ دوسرا اس جگہ پر اس سے بھی کم مشاہرے پر تیار کھڑا نظر آتا ہے۔ اسے کہتے ہیں اپنی عزت آپ گوانا ۔ ایک مزدور جو روزانہ مزدوری کر کے اپنے بال بچو ں کا گزربسر کرتا ہے وہ بھی روزانہ کا چھہ سات سو روپیہ پاتا ہے۔ گویا اس کی آمدنی اٹھارہ سے اکیس ہزار روپیہ ماہانہ ہوتی ہے ۔ جبکہ علما پانچ سے آٹھ سے دس ہزار پر ٹکا ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسے میں کوئی مزدور بھی اپنے بچوں کو عالم بنانا چاہے تو کیوں کر بنائے؟ صاحب ! صرف بھجن کرنے سے پیٹ نہیں بھرتا ہے۔ اس کے لیے روکڑے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لیے کم از کم مساجد و مدارس میں ائمہ و مدرسین کا مشاہرہ دیہی علاقوں میں پندرہ سے اٹھارہ ہزار اور شہری علاقوں میں میں سے پچیس سے تیس ہزار لازماً ہونا چاہیے۔ اگر اس سے کم کہیں ہے تو آپ مجبور نہیں ہیں ۔ دوسرا ذریعہ معاش تلاش کریں۔ بزنس کریں، کاروبار کریں، تجارت کریں ۔ کیوں کہ سات آٹھ ہزار یا نو دس ہزار میں خلوص کے ساتھ دینی کام تو ہو نہیں رہا ہے۔ ہرلمحہ توجہ پیسوں پر لگی رہتی ہے، ہمہ وقت یہی فکر دامن گیر رہتی ہے کہ کہیں سے کچھ پیسہ آجائے ، دعوت آجائے کہ کچھ انتظام ہو جائے ۔ اس طرح خلوص بھی ختم ہوجاتا ہے اور ادھر فلوس بھی ہاتھ سے جاتا ہے۔ گویا، کام کا بارہ آنہ اورمزدوری ملی چار آنہ۔
ابھی حال ہی میں دو تین جگہوں کی ایسی خبریں ملیں کہ ائمہ و مدرسین کی بہت ہی معمولی اورچھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بنا کر متولیان و منتظمین نے انھیں درس و تدریس اورامامت سے نکال دیا ہے۔ اچانک نکالے جانے کی وہ سے ان علما و ائمہ کو بیوی بچوں اور دیگر سامان زندگی کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں کافی دقتوں کا سامنا رہا ۔ اس طرح کی چیزوں میں سارے منتظمین و متولیان شامل نہیں ہیں۔ بہت سے ذمہ داران مساجد و مدارس کو پرسنلی بھی جانتا ہوں کہ وہ اپنے یہاں خدمات انجام دینے والے علما و ائمہ کا بھرپور سہارا بنتے ہیں۔اچھا مشاہرہ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر نوازشات ا الگ سے ہوتی رہتی ہیں، مگر اس طرح کے لوگ بہت ہی کم ہیں۔ اکثر ایسے ہی لوگوں کی ہے جو اپنے یہاں خدمت کرنے والے علما و ائمہ کو بندھوا مزدور ہی سمجھتے ہیں۔ جب چاہا ڈانٹ دیا اور جب چاہا نکال دیا۔ ان ساب حالات کے پیش نظر دل کو چھوتی بات یہی ہے کہ آدمی کو طلب معاش کے معاملے میں دوسروں پر منحصر نہیں رہنا چاہیے۔ اور خاص کر علما طبقہ کو تو بالکل نہیں۔بلکہ ایک بار پھر ضرورت ہے کہ علما اپنا ہاتھ اپنی کمائی والی انبیائی سنت کو زندہ کریں۔ بلاکسی شرم و عار کے اور بلاخوف لومۃ لائم کا روبار سے جڑیں، بزنس کریں، تجارت کریں، اپنے ہاتھ سے محنت کریں ، خوب کمائیں اور عالم ہونے کی جو دینی ذمہ داری ہے: درس و تدریس، تصنیف و تالیف، دعوت و تبلیغ اور رشد و ہدایت، یہ کار خیر بھی پوری دیانت داری کے ساتھ کریں ۔ نہ کمانے میں کوتاہی کریں نہ راہ دکھانے میں کوتاہی کریں کہ یہی طریق انبیا ہے ، یہی طریق صحابہ ہے اور متقدمین و متوسطین کی بھی یہی روش رہی ہے۔ ہاں ! جو لوگ صاحب ہمت ہیں ، صبر و قناعت کے پیکر ہیں، بڑے سے بڑے مشکل حالات میں بھی جن کا خلوص متاثر نہیں ہوتا ، وہ جہاں کہیں بھی مساجد ، مدارس یا مکاتب میں اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں وہ کرتے رہیں۔ ہاں ! وہاں کے ذمہ ذمہ داران ان خدا مست دیوانوں کے مشاہرے کا خاص خیال رکھیں۔ زمانے کے حساب سے انہیں مناسب مشاہرہ دیں اور اگر کہیں اس میں کمی ہو تو با اثر علما آگے آکر ان کے مسائل حل کروائیں۔ اگر ایسے لوگ دیہی علاقوں میں ہوں تو کم سے کم پندرہ سےبیس ہزار ماہانہ اور اگر شہری علاقوں میں ہوں تو پچیس ہزار سے تیس ماہانہ دلوانے کا ضرور انتظام کروائیں کہ یہ آپ کی اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے، جس سے پہلو تہی کسی صورت امتِ مسلمہ کے مستقبل کے حوالے سے مناسب نہیں ہے۔