مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
___________________
بنگلہ دیش کی آمریت پسند حکمران شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کے زوال میں نوجوان تحریک کا روں کا بڑا رول رہا ہے، ہاتھ چاہے امریکہ کا ہو یا برطانیہ کا، منصوبے پاکستان نے بنائے ہوں یا چین نے اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ افرادی قوت وہاں کے طلباء اور نوجوان بنے اور انہوں نے مضبوط حکمراں حسینہ واجد کو اس طرح اکھاڑ پھینکا جیسے گھاس پھوس اکھاڑ دیے جاتے ہیں، یہی حال وہاں کے چیف جسٹس کا ہوا انہیں ملک چھوڑنا تو نہیں پڑا لیکن استعفیٰ دے کر الگ ہو جانا پڑا، وہاں کی عبوری حکومت چاہتی ہے کہ ہندوستان شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش واپس کرے تاکہ ان کے کرتوتوں کی سزا انہیں دی جا سکے، اس واقعہ نے لوگوں کو دوسری نوجوان تحریکوں کی بھی یاد دلانے کا کام کیا ہے ہندوستان میں آج سے 50 سال پہلے نوجوانوں نے گجرات میں "نو نرمان اندولن” کے نام سے تحریک چلائی تھی اس تحریک نے جو برگ و بار لائے اس کی وجہ سے گجرات ہندوستان کی ترقی یافتہ ریاست بن کر کھڑا ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ سیاسی اور معاشی بالادستی پورے طور پر گجرات کوہی حاصل ہے۔
اسی طرح مکمل انقلاب” سمپورن کرانتی” کے نام سے عبدالغفور صاحب کی وزارت کے زمانےمیں نوجوانوں کا ہی برپا کیا ہوا تھا جسے” جے پی اندولن” کے نام سے جانا جاتا ہے اس سے قطع نظر کہ وہ تحریک انقلاب برپا کرنے کے لیے تھی یا بہار میں آزادی کے بعد پہلے مسلم وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کی غرض سے، واقعہ یہ ہے کہ اج آر جے ڈی ہو یا جے ڈی یو بلکہ اور پارٹیوں کی قیادت جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے وہ سب اسی جے پی اندولن کی پیداوار ہیں، جس کی قیادت ان دنوں جے پرکاش نارائن کر رہے تھے، بہار کی تاریخ میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پہلی بار طلبہ اور نوجوانوں کا استعمال مہا مایا پرشاد کے زمانہ میں کیا گیا تھا اور دوسری بار جے پی اندولن میں ،اس کے بعد سیاسی پارٹیوں نے طلبہ اور نوجوانوں کی طاقت کو محسوس کیا اور نوجوانوں اور طلبہ کا ایک ونگ الگ سے بنا ڈالا اور گاہ بگاہ موقع بموقع سیاسی حضرات ان کا استعمال کرتے رہتے ہیں۔
ہندوستان سے باہر نکلیں تو عرب بہاریہ نے کئی مسلم ممالک میں تختہ پلٹ کا کام کیا تھا جس کا آغاز تیونس سے ہوا تھا پھر دیکھتے دیکھتے یہ مغربی ایشیا کے بہت سارے ممالک میں پھیلتا چلا گیا اس کے پیچھے عوام کے ساتھ نوجوانوں ہی کی اصل قوت تھی، لیبیا یمن، شام، بحرین اور لبنان جیسے ملکوں میں نوجوان سڑکوں پر آ ئے انہوں نے اپنی جان گواءی حسنی مبارک کو مصر میں اقتدار سے بے دخل کیا، لیبیا کے معمر قذافی کو حکومت سے بے دخل اور بعد میں قتل کیا گیا یہ آندھی اس قدر شدید تھی کہ اس کے جھونکے مراکش، عراق، الجیریا، لبنان ،اردن ،کویت عمان سوڈان اور کسی حد تک سعودی عرب میں بھی محسوس کیے گئے یہ تحریک ایک محدود حلقہ تک ہی چل رہی تھی لیکن دنیا کے کئی حکمرانوں کے دل اس تحریک سے دہل رہے تھے کہ کہیں وہ بھی اس کی چپیٹ میں نہ آجائیں کیونکہ یہ دور موبائل انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا ہے اس لیے تحریک کو جلد منظم کر لینا بہت دشوار کام نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ جب کوئی واقعہ ہوتا ہے تو حکومت سب سے پہلے انٹرنیٹ بند کرتی ہے، تاکہ سوشل میڈیا کی کارکردگی ٹھپ ہو کر رہ جائے انٹرنیٹ کی مدد سے لوگوں کو جوڑنا آسان ہوتا ہے ،متحد کر کے انہیں احتجاج مظاہرہ کی جگہ پر آسانی سے جمع کیا جا سکتا ہے ،جو لوگ نہیں آئے یا آپاتے وہ بھی لائک کمنٹ اور پیغام کو دوسروں کے پاس منتقل فارورڈنگ کر کے اپنی حصہ داری نبھاتے ہیں نوجوانوں کو سڑک پر اترنے کا سبب ان کی بے روزگاری کو قرار دیا جاتا ہے اور تجویز یہ رکھی جاتی ہے کہ انہیں روزگار سے لگا کر ان کے بھڑکے جذبات کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے لیکن حکومت کی توجہ اس طرف ذرا کم ہی ہوتی ہے نوجوانوں کے جذبات برانگیختہ اور ان کے احساسات شدید ہو جائیں تو پھر وہ کسی کی سننے کو تیار نہیں ہوتے اور کبھی کبھی فائدہ کے ساتھ نقصان بھی بہت ہو جاتا ہے جیسا بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے قیام کے باوجود فساد تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے یمن کے امن کے ایک داعی نے کہا تھا کہ نوجوان خود ایک انقلاب ہیں، انہیں روکا نہیں جا سکتا ان پر ظلم نہیں کیا جا سکتا اور انہیں چپ بھی نہیں کرایا جا سکتا ،بات بالکل صحیح ہے ان کے اندر گرم خون ہوتا ہے وہ ملک کے مستقبل ہوتے ہیں ان کا دماغ زرخیز ہوتا ہے اس لیے انہیں تحریک کے راستے پر نہیں جانے دینا چاہیے اسلام میں بھی نوجوانوں کو اہمیت دی گئی ہے اور دین کے راستے میں جدوجہد کے نتیجے میں عرش کے سائے میں انہیں جگہ ملنے کی بات کہی گئی ہے یہ بڑی بات ہے کہ ان کا شمار ان سات افراد میں کیا گیا ہے جو اس دن عرش کے سائے میں ہوں گے جس دن کو کوئی دوسرا سایہ نہیں ہوگا۔
نوجوانوں کی اسی قوت و طاقت کی وجہ سے بنگلہ دیش کے حالیہ انقلاب کے بعد کئی سیاسی قائدین نے یہ بات دہرائی ہے کہ ہندوستان میں بھی بنگلہ دیش جیسے احوال پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ ایک خاص طبقہ اور پارٹی کی طرف سے ملک کو آمریت کی طرف لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ داخلی امریت اور بے روزگاری جوانوں کو کسی رخ پر ڈال سکتی ہے۔