بخدمت:
حضرت مولانا ابوالقاسم نعمانی صاحب مدظلہ العالی
مہتمم دارالعلوم دیوبند
حضرت مولانا سید بلال حسنی ندوی صاحب مدظلہ العالی
ناظم داراالعلوم ندوہ العلماء
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوگا۔
دارالعلوم دیوبنداور دارالعلوم ندوہ العلماء کی عظیم الشان خدمات اور کارنامے امت اسلامیہ ہندیہ کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ بلا شبہ دارالعلوم دیوبند کو ام المدارس کہاجاتا ہے اور بجا کہا جاتا ہے۔ برصغیر ہندوپاک ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی مدارس کا جو جال بچھ گیا اسکا سہرا ام المدارس دارالعلوم دیوبند کوہی جاتا ہے۔ جہاں تک ندوہ کا تعلق ہے تو دارالعلوم ندوہ العلماء نے اپنی ایسی شناخت بنائی ہے کہ عالمی پیمانہ پر وہ اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ہندوستان کے بہت سے مدارس اس کے نقش قدم پر چلنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ندوہ کی سیکڑوں شاخیں پورے ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہیں جو اس کی مقبولیت کی غماز ہے۔ ہندوستان میں ان دو نوں مدارس کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور مدرسہ کو حاصل نہ ہوسکی۔ اس بات سے آپ اتفاق کریں گے کہ اس مقبولیت کے پیچھے اسکی شاندار عمارتوں کا رول نہیں بلکہ اس کے مخلص اساتذہ کا رول رہا ہے، جن کی قربانیوں نے ان اداروں کو عالمی شہرت عطا کی۔ ان اداروں کی چہار دانگ عالم میں شہرت ان اساتذہ کی رہین منت ہے جنھوں نے اپنی آسائش کو چھوڑ دیا، بڑی بڑی نوکریوں کو ٹھکرادیا اور ان اداروں کی خدمت میں اپنی عمر عزیز صرف کردی اور وہاں سے ایسے علماء، مفکرین، مجاہدین اور مصنفین نکلے جنھوں نے ان اداروں کی شہرت دور دور تک پہونچادی۔ ان اداروں کے اساتذہ اتنے باصلاحیت ہوتے ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو بڑی بڑی نوکریاں حاصل کرسکتے ہیں۔ مگر وہ معمولی تنخواہ اور ناپید سہولیات کے باوجود اپنے ادارے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردیتے ہیں اور انھیں کی محنتوں اور قربانیوں کی بدولت ایسے ایسے علماء اور قائدین ان اداروں سے پیدا ہوتے ہیں جن پر یہ امت فخر کرتی ہے۔
آج میں انھیں اساتذہ کے حالات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ آپ لوگ اپنے اساتذہ کا بھرپور خیال رکھتے ہیں اور جو بھی ممکن ہو ان اساتذہ کے لئے کرنے سے کبھی آپ اور آپ کی انتظامیہ گریز نہیں کرتی۔ مگر بیشتر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان مدارس میں جب ایک استاذ اپنی پوری عمر صرف کرنے کے بعد رٹائر ہوجاتا ہے، یا اپنے ضعف کی وجہ سے یا اپنی بیماری کی وجہ سے پڑھانے کے قابل نہیں رہتا یا ما قدر اللہ وفات ہوجاتی ہے، اس وقت ان کے بیوی بچوں کو جو مالی پریشانیاں ہوتی ہیں اور جن مشکلات سے انکی فیملی گذرتی ہے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
اس موضوع پر اس سے پہلے میں نے اپنے ایک خط میں دارالعلوم ندوہ العلماء کے سابق ناظم حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی ؒ کی توجہ مبذول کرائی تھی۔ مگر ابھی حال میں سوشل میڈیا کے توسط سے یہ پتہ چلا کہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ سرائمیر کی انتظامیہ نے اپنے مدرسین اور ملازمین کے لئے رٹائرمنٹ کے بعد پنشن دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے جو ایک خوش آئیند قدم ہے۔پنشن کا یہ سلسلہ خواہ وہ معمولی رقم ہی کیوں نہ ہو اس فیملی کے لئے انتہائی اہم بن جاتا ہے جب اس کا کمانے والا گذر جائے یا وہ کمانے کے لائق نہ رہے۔ ایسے اقدامات تو دیوبند اور ندوہ سے شروع کیا جانا چاہئے تھا تاکہ دوسرے مدارس ومکاتب کے لئے وہ نظیر بن سکے۔ اگر مدرسہ بیت العلوم سرائمیر نے اپنے اساتذہ کے لئے پینشن کی اسکیم شروع کی ہے تو میں درخواست کرتا ہوں کہ دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوہ العلماء دونوں اپنے اساتذہ کے لئے یپنشن کی یہ اسکیم جلد از جلد شروع کرے۔ آپ کا یہ قدم نہ صرف یہ کہ وہاں کے اساتذہ کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوگا بلکہ دیگر مدارس کے لئے بھی ایک مثال بن جائگا اور بہت سے مدارس آپ کے اداروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ مستحسن اقدام کرنا شروع کردیں گے۔
فنڈ کہاں سے آئیگا؟ ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ آپ جیسی شخصیات ایک مرتبہ اپنے حلقہ میں اس فنڈ کے لئے اگر اپیل کریں تو قوم کبھی بھی مایوس نہیں ہونے دیگی۔
جس دن دیوبند اور ندوہ یہ مستحسن قدم اٹھائے گا یقین مانئے سیکڑوں مدارس آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے اپنے مدارس میں اس کا سلسلہ شروع کردیں گے اور اس کا سہرا آپ کے دور اہتمام اور نظامت کو جائیگا۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری اس درخواست پر مثبت انداز میں غور فرماکر جلد ہی اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالی ہم سب کو نیک عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
والسلام
نقی احمد ندوی
ریاض، سعودی عرب