وقف امینڈمینٹ بل 2024 : اعتراضات اور تشویشات
محمد شہباز عالم مصباحی
اسسٹنٹ پروفیسر سیتل کوچی کالج
سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال
____________________
وقف کا تصور اسلامی نظام عقائد اور اخلاقیات سے جڑا ہوا ہے۔ یہ عمل مسلمانوں کے لیے ایک مذہبی خیرات کا مظہر ہے جس میں ایک فرد اللہ کے نام پر اپنی منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادوں کو وقف کر دیتا ہے۔ یہ جائیدادیں ہمیشہ کے لیے ان مقاصد کے لیے وقف ہو جاتی ہیں جن کے لیے انہیں عطیہ کیا گیا ہے، جیسے مساجد، مدرسے، یتیم خانے، اور دیگر خیراتی ادارے۔
وقف کا تصور اور اس کی معنویت اسلامی معاشرت کا ایک بنیادی حصہ ہیں۔ وقف کے ذریعے معاشرتی اور اقتصادی ترقی کے اہداف پورے کیے جاتے ہیں، اور یہ جائیدادیں ہمیشہ کے لیے معاشرے کے کمزور طبقوں کے فائدے کے لیے وقف رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وقف کے امور میں حکومت کی مداخلت کو کم سے کم ہونا چاہیے تاکہ یہ مذہبی و معاشرتی نظام محفوظ رہ سکے۔
وقف امینڈمینٹ بل 2024 موجودہ وقف ایکٹ 1995 کے بنیادی ڈھانچے کو کمزور کرنے کی کوشش ہے، جس کے نتیجے میں وقف کی اصل روح متاثر ہو سکتی ہے۔ یہاں ہم چند اہم اعتراضات اور تشویشات پر روشنی ڈالیں گے جو اس بل کے حوالے سے اٹھائے گئے ہیں۔
وقف امینڈمینٹ بل 2024 کے حوالے سے اعتراضات:
1. مسلمانوں کی نمائندگی میں کمی اور غیر مسلموں کی نمائندگی میں اضافہ:
سنٹرل وقف کونسل: اب سنٹرل وقف کونسل میں غیر مسلم اراکین کی تعداد 13 ہو سکتی ہے، جبکہ پہلے صرف ایک غیر مسلم رکن ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ، کونسل میں دو غیر مسلم اراکین کی شمولیت لازمی ہوگی۔ (دفعہ 9)
ریاستی وقف بورڈ: پہلے ریاستی وقف بورڈ میں صرف ایک غیر مسلم چیئرپرسن ہو سکتا تھا، جبکہ باقی تمام اراکین مسلمان اور منتخبہ ہوتے تھے۔ اب بورڈ کے 7 اراکین غیر مسلم ہو سکتے ہیں، جن میں سے دو غیر مسلم ہونا لازمی ہے۔ اراکین کا انتخاب اب ریاستی حکومت کے ذریعہ نامزدگی کے ذریعے ہوگا۔ (دفعہ 14)
چیف ایگزیکٹو افسر: وقف بورڈ کا چیف ایگزیکٹو افسر مسلمان ہونا ضروری تھا، لیکن اب اس شرط کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، ریاستی حکومت کسی غیر مسلم کو چیف ایگزیکٹو افسر مقرر کر سکتی ہے، اور اس نام کے لیے وقف بورڈ کی سفارش کی ضرورت نہیں ہوگی۔ (دفعہ 23)
مسلم فرقے کا اعتراض:
مسلمانوں کی نمائندگی میں کمی، غیر مسلم اراکین کی لازمی شمولیت، اور چیف ایگزیکٹو افسر کے مسلمان ہونے کی شرط کا خاتمہ، دستور ہند کی دفعہ 26 کے منافی ہے۔
ہندو اور سکھ جائیدادوں کے قوانین:
اتر پردیش، یوپی، کیرالا، کرناٹک، اور تمل نادو میں قوانین ہیں کہ ہندو جائیدادوں کا انتظام صرف ہندو ہی کر سکتے ہیں۔ بہار اینڈومنٹ ایکٹ کے تحت ہندو، شوتمبر جین، اور ڈگمبر جین اینڈومنٹ بورڈ قائم ہیں جن کے اراکین لازمی طور پر ہندو ہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح گردوارہ پربندھک کمیٹی کے اراکین بھی لازمی طور پر سکھ فرقے میں سے ہوتے ہیں۔
یہ تبدیلیاں مسلمانوں کے لیے شدید تشویش کا باعث ہیں، کیونکہ وقف کا نظام بنیادی طور پر مسلمانوں کے مذہبی اصولوں اور عقائد پر مبنی ہے۔ غیر مسلم اراکین کی شمولیت سے وقف کے مقاصد اور اس کے انتظام میں غیر ضروری مداخلت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ مزید برآں، چیف ایگزیکٹو افسر کے مسلمان ہونے کی شرط کو بھی ختم کر دیا گیا ہے، جس سے وقف جائیدادوں کے انتظام میں حکومت کی مداخلت بڑھنے کا خدشہ ہے۔
2. کلکٹر کے اختیارات کے تحت وقف جائیدادوں کا انتظام:
بل کے تحت کلکٹر کو وقف جائیدادوں کے انتظام میں زیادہ اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ اب کلکٹر یہ طے کرے گا کہ کوئی جائیداد وقف ہے یا سرکاری، اور اس کے فیصلے کو حتمی قرار دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، وقف جائیدادوں کی رجسٹریشن کے لیے بھی کلکٹر کی رائے ضروری ہوگی۔
اس اقدام سے وقف جائیدادوں کی حیثیت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، کیونکہ حکومت کے اہلکاروں کو یہ اختیار مل جائے گا کہ وہ وقف جائیدادوں کو سرکاری جائیداد قرار دے کر ان پر قبضہ کر لیں۔ اس سے وقف کی قانونی حیثیت اور اس کے مذہبی مقاصد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
3. حکومت کی جانب سے وقف بورڈ پر مداخلت:
بل میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ وقف بورڈ کے اراکین کا انتخاب حکومت کے ذریعے کیا جائے گا اور چیف ایگزیکٹو افسر کے تقرر میں بھی وقف بورڈ کی رائے کو نظرانداز کیا جائے گا۔ اس سے وقف بورڈ کی خود مختاری ختم ہو جائے گی اور حکومت کا عمل دخل بڑھ جائے گا۔
یہ اقدامات وقف جائیدادوں کے انتظام میں حکومت کی بے جا مداخلت کا باعث بن سکتے ہیں، جو کہ وقف کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ وقف بورڈ کی حیثیت ایک ڈاک خانے کی سی ہو جائے گی جہاں حکومت کے احکام کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکے گا۔
4. وقف ٹریبیونل کو کمزور کرنا
وقف امینڈمینٹ بل 2024 میں وقف ٹریبیونل کے اختیارات کو بڑی حد تک کمزور کر دیا گیا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت وقف ٹریبیونل کے پاس وقف جائیدادوں کے بارے میں حتمی فیصلے کا اختیار ہوتا ہے، مگر نئے بل کے تحت دیگر ٹریبیونلز کو بھی وقف ٹریبیونل کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی ٹریبیونل موجود نہ ہو، تو فریقین عدالت سے براہ راست رجوع کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ٹریبیونل کی تشکیل میں بھی تبدیلی کی گئی ہے، جس کے تحت اب ٹریبیونل میں 3 کی بجائے 2 ارکان ہوں گے، اور جونیئر رکن کی غیر موجودگی میں سینئر رکن تمام فرائض انجام دے گا۔
مسلم فرقے کا اعتراض اس بات پر ہے کہ اس سے نہ صرف ٹریبیونل کی حیثیت کمزور ہو جائے گی بلکہ وقف جائیدادوں کے فیصلے میں تاخیر اور بے یقینی بھی پیدا ہوگی۔ مزید برآں، وقف جائیدادوں کے حوالے سے عدالت میں اپیل کی مدت کو نوے دن تک محدود کر دیا گیا ہے، جو تنازعات کے حل میں مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
5. وقف برائے استعمال کا خاتمہ
وقف امینڈمینٹ بل 2024 کے ذریعے "وقف برائے استعمال” کی شق کو ختم کیا جا رہا ہے، جو کہ وقف کی تاریخ میں ایک بنیادی اصول رہا ہے۔ یہ اصول اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ اگر کوئی جائیداد طویل عرصے سے مذہبی یا خیراتی مقاصد کے لئے استعمال ہو رہی ہو، تو اسے وقف جائیداد کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔ مگر اس بل کے تحت ایسی جائیدادیں جو کسی وقت وقف جائیداد کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہوں، مگر مال گزاری ریکارڈ میں درج نہ ہوں، انہیں وقف جائیداد تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
مسلم فرقے کا اعتراض ہے کہ اس سے وقف جائیدادوں پر فرقہ وارانہ دعوے اور تنازعات بڑھ سکتے ہیں، اور ریاستی حکام کو ایسی جائیدادوں پر ناجائز قبضہ کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
6. وقف کی تشکیل میں معطی کے مذہب کو ضروری قرار دے کر فتنہ انگیزی
نئے بل میں یہ شرط شامل کی گئی ہے کہ وہی شخص وقف قائم کر سکتا ہے جو گزشتہ کم سے کم 5 سال سے اسلام پر عمل پیرا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جائیدادیں جو کسی غیر مسلم نے وقف کے لئے عطیہ کی ہوں، ان کا وقف جائیداد کے طور پر تسلیم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
مسلم فرقے کا اعتراض ہے کہ وقف کی تشکیل میں مذہب کی شرط غیر ضروری ہے اور وقف کا اصول یہ ہے کہ وقف جائیداد کو اس کے مقصد کے لئے تسلیم کیا جائے، نہ کہ معطی کے مذہب کے لئے۔ مزید برآں، سنٹرل وقف کونسل میں غیر مسلم اراکین کی لازمی شمولیت کی شرط بھی ایک عجیب و غریب اقدام ہے جو وقف کے اصولوں کے خلاف ہے۔
7. خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے غلط دعویٰ
بل میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سنٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں دو خواتین اراکین کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا، جبکہ حقیقت میں موجودہ وقف امینڈمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت پہلے ہی سے یہ نمائندگی موجود ہے۔
8. وقف جائیدادوں کی حدود اور ان کی حفاظت
موجودہ بل میں وقف جائیدادوں کی قانونی حیثیت اور ان کی حفاظت کے حوالے سے موجود قوانین کو کمزور کیا گیا ہے۔ لیمیٹیشن ایکٹ کے تحت غیر منقولہ جائیداد کی ملکیت کے تحفظ کی شرط کو ختم کر دیا گیا ہے، جس سے وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضہ کرنے والے افراد اور تنظیموں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
9. وقف ایکٹ کو کمزور کرنے کی کوشش
مہاجر جائیداد سے متعلق شرط کو ختم کر دیا گیا ہے، اور غیر ہموار قوانین پر وقف ایکٹ 1995 کا اطلاق بھی نہیں ہوگا۔ وقف جائیداد کو علیحدہ کرنے کے حوالے سے قید با مشقت کی شرط کو سادہ قید میں تبدیل کر دیا گیا ہے، اور وقف ایکٹ کے دیگر کئی اہم نکات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، جس سے وقف جائیدادوں کی حفاظت اور ان کے انتظام میں دشواریاں پیش آ سکتی ہیں۔
نتیجہ:
وقف امینڈمینٹ بل 2024 میں تجویز کردہ تبدیلیاں مسلمانوں کے مذہبی عقائد اور وقف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں۔ ان تبدیلیوں سے وقف جائیدادوں کا انتظام حکومت کے ہاتھ میں چلا جائے گا اور مسلمانوں کی نمائندگی کو محدود کر دیا جائے گا۔ مسلمانوں کے لیے یہ بل شدید تشویش کا باعث ہے اور اس کے خلاف قانونی اور سماجی سطح پر مزاحمت ضروری ہے تاکہ وقف جائیدادوں کو ان کے اصل مقاصد کے لیے محفوظ رکھا جا سکے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مسلم برادری کی تشویشات کا سنجیدگی سے جائزہ لے۔
خلاصہ:
وقف امینڈمینٹ بل 2024 مسلم کمیونٹی میں شدید تشویش اور بے اعتمادی پیدا کر رہا ہے۔ بل کی ترامیم یکطرفہ اور من مانی ہیں اور ان کا مقصد وقف جائیدادوں کے تحفظ کو کمزور کرنا ہے۔ مسلم فرقہ اس بل کو دستور ہند کی دفعہ 25، 26، 29، اور 14 کے منافی سمجھتا ہے اور اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس بل کے نفاذ سے فرقہ وارانہ اختلافات اور انتشار میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو کہ مسلم کمیونٹی کے لیے باعث تشویش ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس بل کے خلاف متحد ہو کر آواز اٹھائیں اور حکومت سے مطالبہ کریں کہ وقف کے معاملات میں مسلمانوں کی نمائندگی کو برقرار رکھا جائے اور حکومت کی مداخلت کو کم سے کم کیا جائے۔ حکومت کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ وقف جائیدادیں مذہبی اور سماجی فلاح و بہبود کے لیے ہیں، اور ان کا انتظام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔