تحفظ اوقاف ہمارا دینی فریضہ
از: شمس الدین سراجی قاسمی
_______________
حالیہ دنوں میں فسطائی ذہنیت کی حامل موجودہ حکومت نے اوقاف کی جائدادوں پر اپنا تسلط حاصل کرنے اور قبضہ جمانے کے لئے پارلیامینٹ میں ایک بار پھر ایسا بل پیش کیا ہے جو اگر پاس ہوگیا تو آئین ہند کے دستور نمبر ٢٥_٢٦ سے ملی مذہبی کاموں پر عمل کی آزادی اور وقف بورڈ کی خود مختاری سلب ہو کر رہ جائے گی اور مسلمان تماشائی بنے بے بس، لاچار، مجبور اور مفلوج ہو کر رہ جائے گا اور اسی طرح مسلمانوں کی وہ قدیم روایت جو سنت و شریعت کی روشنی میں ہمیشہ سے چلتی آ رہی ہے کہ اوقاف کی دیکھ ریکھ اور تمام لوازمات مسلمانوں ہی کے ذمہ ہے، وہ ختم ہوکر رہ جائے گی اور نتیجتاً مسلمانوں کی مساجد، مدارس، خانقاہ، قبرستان، دینی و فلاحی ادارہ اور ان تمام جگہوں پر خطرات آجائیں گے جو اوقاف کی جائدادوں پر ہیں۔
واضح رہے کہ مسلمانوں کے اوقاف کو ہڑپنے اور ناجائز قبضہ کرنے کی یہ کوئی پہلی کوشش نہیں ہے، اس سے پہلے بھی ١٩٩٥- ٢٠١٠ اور ٢٠١٣ میں حکومت ہند کوشش کر چکی ہے؛ لیکن اس بار پوری تیاری کے ساتھ میدان عمل میں آئی ہے؛ چنانچہ وقف ترمیمی بل ٢٠٢٤؍ میں تقریباً چالیس ترامیم کی گئیں ہیں اور یہ ترامیم ایسی ہیں کہ جس سے وقف کی موجودہ شکل ہی مسخ ہو جائے گی، اس بل میں وقف بورڈ کے اختیارات کو نہ صرف یہ کہ محدود بلکہ مخدوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے؛ چنانچہ اس بل کے مطابق وقف بورڈ کے اختیارات ضلع کلکٹر کو سونپا جائے گا، کلکٹر جس زمین کے بارے میں یہ لکھ دے گا کہ یہ سرکاری زمین ہے تو وہ سرکاری زمین مان لی جائے گی، اسی طرح اس بل میں یہ تجویز بھی ہے کہ صوبائی حکومتیں ، بورڈ میں ایک غیر مسلم چیف اِگزیکٹیو افسر اور کم از کم دو غیر مسلم ممبران کی تقرری کر سکے گی، جو کہ کسی بھی صورت میں مسلمانوں کے لئے روا دار نہیں ہے کیونکہ جب مندروں کے ٹرسٹ اور انتظامیہ کمیٹی میں کسی مسلمان کو اگزیکٹیو افسر اور ممبر نہیں بنایا جاتا تو پھر مسلمان کیسے انہیں بنادیں۔
ظاہر ہے کہ اوقاف کا معاملہ یہ خالص ہمارا اسلامی اور مذہبی معاملہ ہے ہم اس میں کسی کی مداخلت کیسے برداشت کرسکتے ہیں اور ویسے بھی اوقاف کی جائداد تو خیرات کا جذبہ رکھنے والے مسلمانوں کی دی ہوئی ہیں، نہ کہ حکومت کی دی ہوئی ہیں، تو پھر ہم کیوں کر اس کی اس پالیسی کو قبول کریں، اوقاف کی جائداد تو اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے ہم کیسے برداشت کرسکتے ہیں کہ کوئی اللہ تعالیٰ کی ملکیت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے۔
اگر آج ہم نے وقف ترمیمی بل ٢٠٢٤؍ کی ناقابل تردید حقائق کو نظر انداز کردیا تو خدا کی قسم مستقبل میں ظلم و ستم کا وہ سیاہ باب رقم ہوگا جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں، ہم اپنی ہی مسجدوں میں سجدہ ریز ہونے کے لئے غیروں سے اجازت طلب کرتے پھریں گے، اپنے ہی مدارس میں اپنے بچوں کی تعلیم کی اجازت کے لئے دوسروں کے دروازے پر دستک دیتے پھریں گے، اپنے ہی قبرستان میں اپنے مردوں کو دفن کرنے کی اجازت کے لئے سرگرداں پھرتے رہیں گے اور ہمارا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوگا، اس لئے وقت رہتے مسلمانوں کو ہوش کا ناخن لے لینا چاہیے۔
#ہمارے_پاس_اب بھی اس بل کو رد کرانے کا وقت ہے، ہماری مسلم تنظیموں نے بالخصوص امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جہارکھنڈ پھلواری شریف پٹنہ اور مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس کے خلاف مضبوط لائحہ عمل تیار کیا ہے اور باضابطہ اس بل کو رد کرنے کے لئے کیو آر کوڈ اور لنک بھی جاری کیا ہے کہ جس سے میل کرکے ہم اپنی آراء جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (JPC) تک پہنچا سکتے ہیں جسے وقف ترمیمی بل ٢٠٢٤؍ کی تحقیق و تفتیش وغیرہ کے لئے تشکیل دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ جے پی سی کو کئے گئے میل پر اس بل کے رد ہونے اور نہ ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی دنوں سے مسلسل اس پر کام جاری ہے، امارت شرعیہ کا مؤقر وفد جگہ جگہ پہنچ کر اس کی تشکیل کر رہے ہیں اور لوگوں کو کیو آر کوڈ کے ذریعہ احتجاج درج کرنے اور کرانے کی ترغیب دے رہے ہیں اور باضابطہ امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جہارکھنڈ کی ایک ٹیم بھی بنی ہوئی ہے جس میں خود راقم الحروف بھی شامل ہے، جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ تمام علماء و دانشوران اور ارباب حل و عقد وغیرہ کو فرداً فرداً فون کرکے انہیں اس تعلق سے بیدار کرایا جائے اور احتجاج درج کرنے اور کرانے کو کہا جائے، مجھے ریاست بہار کے مدھوبنی ضلع کی ذمہ داری ملی تھی، الحمد للہ کام جاری ہے، یہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔
امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ و جھارکھنڈ نے وقف املاک کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے ایک اور مستحسن قدم اٹھایا ہے چنانچہ امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ و جھارکھنڈ کے زیر اہتمام بڑے تزک و اہتمام کے ساتھ 15/ستمبر 2024ء روز اتوار کو شہر پٹنہ کے باپو سبھا گار ہال نزد گاندھی میدان پٹنہ میں ایک عظیم الشان اجلاس بعنوان ”تحفظ اوقاف کانفرنس“ کا انعقاد ہو رہا ہے جس کی صدارت امیر شریعت سابع: حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب کے جانشین و صاحبزادے امیر شریعت مفکر ملت حضرت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی مدظلہ فرمائیں گے، واضح رہے کہ اس پروگرام میں ملک کے اکثر نامور علماء، دانشوران اور وکلاء قانون داں حضرات شامل ہوں گے، "دین بچاؤ دیش بچاؤ کانفرس” شاید آپ کو یاد ہو اس کانفرنس میں قریب ٢٥؍ لاکھ لوگوں نے شرکت فرمائی تھی جس کی وجہ سے یہ پروگرام کامیاب ہوا تھا اور حکومت تک ایک مضبوط و مستحکم آواز پہنچی تھی، بالکل اسی طرح اس پروگرام کو بھی کامیاب بنانے کی کوشش کرنی ہے، تمام مسلمانوں سے اپیل ہے کہ آپ تحفظ اوقاف کے لئے سب کچھ چھوڑ کر ایک دن نکال دیجئے، زیادہ سے زیادہ تعداد میں یہاں تشریف لائیں تاکہ حکومت تک مضبوط آواز پہنچے اور یہ بل رد ہوجائے۔
واضح رہے کہ تحفظ اوقاف یہ ہمارا دینی فریضہ ہے، اس لئے اس تعلق سے بہرحال مستعدی کی ضرورت ہے، کل اگر اللہ تعالیٰ نے ہم سے پوچھ لیا کہ بتاؤ تم تو اپنی زمین کا ایک انچ بھی کسی کو دینے کے روادار نہیں تھے تو پھر تم اس وقت کیسے خاموش رہے جب میری مملوکہ زمین پر قبضہ ہو رہا تھا تو ہم کیا جواب دیں گے، اس لئے بہرحال ہم کو بیدار ہونا ہوگا اور اپنے گاؤں محلہ سماج کے لوگوں کو بھی بیدار کرانا ہوگا ۔
اب میں چاہتا ہوں ،نظام کہن بدل ڈالوں
مگر یہ بات فقط میرے بس کی بات نہیں
اٹھو اٹھو میرے دنیا کے عام انسانوں !!!!!
یہ کام سب کا ہے ،دوچار دس کی بات نہیں
(نامعلوم )