ملک کو آئین کے مطابق پابند کرنا ہوگا
✍️ آفتاب رشکِ مصباحی
شعبہ فارسی، بہار یونیورسٹی ، مظفرپور
___________________
سب کا ساتھ ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کے نعرے کے ساتھ بی جے پی تقریبا گزشتہ ایک دہائی سے مرکز میں سرکار بنائے ہوئے ہے۔ اسی کے ساتھ ملک کے کئی صوبوں میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے۔ لیکن، سچائی یہی ہے کہ جب سے بی جے پی بھاری اکثریت کے ساتھ آئی ہے تب سے اقلیتی طبقہ خاص طور سے مسلمان خود کو کمزور، بے بس اور دبا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ بی جے پی محبتوں کی بجائے نفرتوں کی بنیاد پر حکومت کر رہی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں بی جے پی حکومت کے تحت کچھ ایسی چیزیں ہوئیں جس نے تجزیہ نگاروں کے تجزیے کی بڑی حد تک تائید بھی کی ہیں۔ مثلاً: تمام تر ثبوت کے باوجود صرف آستھا اور عقیدت کی بنیاد پر’ بابری مسجد، کو اکثریت کے حوالے کر دینا اور مسجد کی جگہ عالی شان مندر کی تعمیر کے بعد اس کے افتتاح میں اعلی حکام کے ساتھ تمام بڑے لوگوں کی شرکت اور اس موقعہ پر مسلمانوں کے باہر نکلنے پر خوف کا ماحول۔ اسی طرح گو کشی کے نام پر 2014/ ہی سے ماب لنچگ اور ہجومی تشدد کے واقعات ایک کے بعد ایک ہوتے جا رہے ہیں۔ نوجوانوں کی ایک ٹولی جب جہاں چاہتی ہے جمع ہو جاتی ہے اور پھر متعینہ شخص کو بری طرح مارا جاتا ہے یا مار ہی دیا جاتا ہے۔ ملک کے کئی ریاستوں میں مہا پنچایت کے نام پر اکثریتوں کا ایک مخصوص گروہ جمع ہوتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف نازیبا زبانیں استعمال کی جاتی ہیں، اکثریت کو اقلیت کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے، ان سے تشدد آمیز کوششوں پر حلف اٹھوایا جاتا ہے۔ ویڈیوز بنتے ہیں، اشتہارات دیے جاتے ہیں۔ مگر، ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا، کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ بسا اوقات حکومتی عملہ بھی ان کی حوصلہ افزائی کرتا نظر آتا ہے، جس سے ایسے افراد و گروہ کے حوصلے دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔
اسی طرح کبھی کسی نام پر اور کبھی کسی نام پر اقلیتوں/ مسلمانوں پر الزام دھرا جاتا ہے۔ ان کے نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے جہاں وہ اپنی قیمتی عمر برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ ادھر تقریباً گزشتہ پانچ چھہ سالوں سے ’ بلذور ‘ نامی قہر آفت ڈھائے ہوئے ہے۔ جہاں کہیں کسی معاملے کو لے کر کسی بااثر مسلمان کا نام سامنے آیا ، کسی چیز کا الزام آیا بس پھر سوچنا کیا ہے؟ مسلمان ہونا ہی اس کے مکان کی انہدامی کے لیے سب سے بڑا جواز ہو جاتا ہے۔ اور اس پر دلیل کیا ہوتی ہے؟ غیر قانونی تعمیر کی بنیاد پر حکومت نے خالی کرائی زمین۔ غیر قانونی طور پر نبی عمارت پر چلا بلڈوزر۔ ارے صاحب! یہ مکان کوئی آج اچانک تعمیر تو نہیں ہوا تھا؟ برسوں سے تعمیر شدہ مکان ہے۔ حکومت سے اس کا نقشہ پاس ہے۔ اس زمین پر تعمیر کا اجازت نامہ بھی موجود ہے۔ مگر، بگڑتی ہے جب ظالم کی نیت- نہیں کام آتی ہے دلیل اور حجت۔ ان سب برے حالات کے ساتھ مزید برا تو یہ ہے کہ نفرتوں کی کھیتیاں ایسی لہلہا رہی ہیں کہ اکثریتی طبقہ کے سامنے اقلیتی طبقے کا مکان گرایا جاتا ہے، بچے ، عورتیں اور دیگر افراد خانہ رو رو کر بیہوش ہو رہے ہوتے ہیں اور وہ سب کنارے کھڑے مزے لے رہے ہوتے ہیں، ہنس رہے ہوتے ہیں، لطف اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ ذات پات اور مذہب کے نام پر نفرتوں کی کھائی کس قدر گہری ہو گئی ہے کہ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی دلوں میں انسانیت نہیں جاگتی ہے۔ مظلوم کا ساتھ دینا، تکلیف میں مبتلا لوگوں کا دکھ بانٹنا اور روتی ہوئی آنکھوں سے آنسوں پوچھنا یہ بنیادی انسانی قدریں تھیں جو اب سماج سے ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں کا سارا نظام آئین ہند / سنبیدھان کا پابند ہوتا ہے۔ یہی اس ملک کی خوب صورتی ہے۔ لیکن، جس طرح کے حالات دیکھنے کو ملتے ہیں اور وہ بھی خاص کر بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں وہ یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ کیا واقعی ہمارا ملک سنبیدھان کا پابند ہے اور اسی کے تحت یہاں کی حکومت کام کر رہی ہے؟ یا حکومت کے پردے میں آئین اور قانون کی سر عام خلاف ورزی اب حکومت کا اپنا قانون اور آئین بن گیا ہے؟ آئین اور سنبیدھان کے حوالے سے یہ خوف نہ صرف اقلیتی طبقے / مسلمانوں میں بڑھ رہا ہے ، بلکہ اعلی سیاسی شعور رکھنے والے حضرات بھی خواہ جس مذہب کے ہوں- خاصہ فکر مند نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2024/ کے الیکشن میں بی جے پی کے علاوہ دیگر سیاسی پارٹیوں نے بی جے پی ورسیز سنبیدھان کے نام پر ووٹ مانگا تھا جس میں انھیں ایک حد تک کامیابی بھی ملی۔ اور اب پارلیا مینٹ میں بی جے پی کے مقابل دوسری پارٹیاں بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں اور اپنی باتیں بڑی مضبوطی سے رکھ رہی ہیں۔ خاص طور سے نوجوان نسل جو عوامی اعتماد پا کر ایوان بالا تک پہنچی ہے وہ سماج اورملک کے ضروری اور انسانیت کے لیے مفید مدوں کو اٹھا رہی ہے ، یہ ایک خوش آئند چیز ہے۔
’ بلڈوزر کار روائی‘ کے نام پر جس طرح سے ظالمانہ رویہ ایک مخصوص طبقے کے ساتھ اپنایا جا رہا ہے سپریم کورٹ نے اس سے جڑے مقدمے کی سماعت میں جو بات کہی ہے کہ : ’’ اگر ملزَم شخص قصور وار ہو تو بھی گھر پر بلڈوزر نہیں چلایا جا سکتا‘‘۔ سپریم کورٹ کا یہ وقتی بیان بھی بہت اہم ہے۔ حالاں کہ آنے والے پیر کے دن مزید سنوائی کرتے ہوئے اس حوالے سے سپریم کورٹ کا کوئی اہم فیصلہ آ سکتا ہے۔ امید ہے کوئی بہتر گائڈ لائن بھی آئے جس سے لوگوں کے ساتھ ہو رہے ظلم کو روکا جا سکے۔ لیکن، حالیہ بیان سے اتنا تو واضح ہو گیا ہے کہ بلڈور کارروائی کے نام پر جو مکانات منہدم کیے گئے وہ ایک طرح سے غیر قانونی اور آئین ہند مخالف اقدامات تھے جو ’’قابل مذمت‘‘ جیسے الفاظ سے آگے بڑھ کر ’’مزید کسی اورچیز ‘‘ کے متقاضی ہیں۔ آئندہ سماعت کے بعد سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ اور گائڈلائن آئے جس سے آئندہ کسی کا مکان زمین دوز اوربلڈوز نہ ہو – یہ ضروری ہے ، ایسا ہی ہونا چاہیے۔ لیکن، سوال تو یہ ہے کہ ’’ غیر قانونی کارروائی ‘‘ کرتے ہوئے اب تک جو مکانات بلڈوز کیے گئے ان کا کیا ہوگا؟ کیا سپریم کورٹ مکان والوں کو ان کے نقصان کا مناسب معاوضہ ریاستی حکومتوں سے دلوائےگی؟ کتنے دنوں میں انھیں یہ معاوضہ ملےگا؟ انھیں کہاں اور کس طرح کے علاقوں میں گھر بنانے کی اجازت ملےگی؟ سماجی سطح پر اکثریتی طبقے کا رویہ ان کے ساتھ کیسے بہتر ہو سکتا ہے اس بارے میں کیا کوئی گائڈ لائن جاری ہو سکتی ہے؟ آئندہ انھیں یا ان کے پریوار کے لوگوں کو حراساں نہ کیا جائے اس کے لیے کس طرح کے اقدامات ہوں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جنھیں آئندہ سماعت میں واضح ہونا چاہیےتاکہ صحیح معنوں میں اقلیتی طبقے/ مسلمانوں کے اندر اس ملک میں جان و مال کے تحفظ کے ساتھ برابر کے شہری ہونے کا یقین ہو سکےجو انھیں آئین ہند اور سنبیدھان نے بنیادی حقوق کے طور پر دے رکھا ہے۔
یہ وقت ذات پات، صنعت و حرفت اور علاقائیت کے ساتھ مذہب اور دھرم سے اوپر اٹھ کر ایک بار پھر سے تمام ہندوستانیوں کو متحد کرنے کا ہے۔ ہمارا ملک جس طرح سے عالمی اسٹیج پر ترقی پذیر ہے اسے مزید اور اونچائیوں تک لے جانے کا ہے۔ ملک میں باہم ایک دوسرے کے تعلق سے اعتماد بحال کرنے کا ہے۔ لوگوں میں بڑھ رہی نفرتوں کو ختم کرنے کا ہے۔ اور یہ کام حکومتی سطح سے لے کر عدلیہ سب کو مل کر کرنا ہے۔ ملک میں امن و امان کی فضا ہموار کرنا اور آپسی بھائی چارے کو بناتے ہوئے گنگا جمنی تہذیب کی آب یاری کرنا ہر ایک ہندوستانی کی اولین ذمہ داری ہے جسے سب کو انصاف اور ایمان داری کے ساتھ پورا کرنی چاہیے۔