تلنگانہ میں فرقہ وارانہ تشدد اور ملک میں بڑھتے ہجومی تشددکے واقعات
✍سید سرفراز احمد
_________________
فسطائی طاقتوں نے اکثریتی طبقے کےعام شہریوں کے دلوں اور زہنوں میں نفرت کواس قدر پیوست کردیا کہ وہ کسی بھی مسلمان کو جان سے مارنے میں ہی اپنی بھلائی اور اپنے مذہب کا اصل کام سمجھ رہے ہیں حالانکہ انھیں اس ملک کی تاریخ تک پتہ نہیں ہوتی نہ ان میں انسانیت نام کی کوئی شئے باقی ہوتی ہم دیکھ رہے ہیں کہ کوئی دن مسلمانوں کے خلاف زہریلے بیانات اور مار پیٹ کے بغیر نہیں گذر رہا ہے اب تو اس ملک میں مسلمانوں کا لہو اس قدر ارزاں ہوچکا ہے کہ اگر کہیں مار پیٹ اور تشدد کے واقعات بھی پیش آرہے ہوں تو اس کا درد نہ ہی حکمرانوں کو ہورہا ہے نہ انصاف کے علمبرداروں کو لگتا ہے عام شہریوں سے لے کر حکمرانوں اور حکمرانوں سے لے کر عدلیہ تک ان سبھی کو اس طرح کے واقعات سننے کی ایک عادت سی ہوگئی ہے شائد کہ ان کے ضمیر مردہ اور دل بے حس ہوگئے ہوں یہ سچ بھی ہے کہ جب جرم کو جرم مان کر سزا کا تعین کیا جائے گا تو سماج کو جرائم سے نفرت سے پاک بنایا جاسکتا ہے اگر ایسے ہی کھلی چھوٹ دی جائے گی تو مجرمین کے حوصلوں کو تقویت پہنچانے کے مترادف کہلائے گا اس ملک میں ابھی تک یہی ہوتا آرہا ہے ابھی تک جو جو بھی واقعات سامنے آرہے ہیں ان سبھی میں سب سے ناقص اور بدترین کارکردگی نظم و نسق کی دیکھی گئی۔
علحدہ تلنگانہ کے بعد بی آر ایس پارٹی نے دس سال حکومت کی بی آر ایس کے اس دس سالہ دور اقتدار میں نظم و نسق ایک مضبوط جال کی طرح مربوط تھا اس دور حکومت میں ضلع نرمل کے شہر بھینسہ میں دو فرقہ وارانہ تشدد رونما ہوئے اس کے علاوہ کہیں پر بھی ریاست میں فرقہ وارانہ تشدد دیکھنے کو نہیں ملا آج تلنگانہ میں کانگریس برسر اقتدار ہے جس کے ماضی سے ہر کوئی اچھی طرح واقف ہے لیکن جو توقعات اس بار کی کانگریس حکمرانی سے کی جارہی تھی کہ تلنگانہ میں کہیں بھی فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہوگا لیکن یہ توقعات خمیازے کے روپ میں سامنے آرہے ہیں کانگریس حکومت کا ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا لیکن تشدد کے واقعات ایک کے بعد ایک سامنے آرہے ہیں جس میں قابل ذکر حالیہ بقر عید کے موقع پر میدک میں شرپسندوں کی شر انگیزی کا ننگا ناچ دیکھنے کو ملا نظام آباد کے ویل پور میں مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا اور تازہ ترین فرقہ وارانہ تشدد ضلع آصف آباد کے جینور میں پیش آیا۔
جینور میں قبائلی طبقے کا الزام ہے کہ ایک مسلم آٹو ڈرائیور نے انکے طبقے کی عورت کو بطور مسافر آٹو میں بٹھاکر راستے میں عصمت ریزی کی کوشش کی موقع نہ ملنے پر اس پر پتھر ڈال دیا جس کے بعد دواخانے میں متاثرہ عورت جانبر نہ ہوسکی لیکن مختلیف زرائع سے یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ جس مسلم شخص پر یہ الزام لگایا جارہا ہے اس نے 22 سال قبل ایک قبائلی لڑکی سے شادی کی تھی اس کا انتقام لینے کی غرض سے قبائلی طبقے نے اس مسلم شخص پر یہ الزام لگایا ہے جب کہ بتایا گیا کہ فوت شدہ عورت کی موت ایک کار کی ٹکر سے ہوئی لیکن قبائلی طبقے نے اس انتقام کی آڑ میں ایک احتجاجی ریالی نکال کر جس طرح مسلمانوں کی املاک کو چن چن کر نشانہ بنایا وہ اپنے آپ میں ریاست کے نظم و نسق اور ریاست کی حکمرانی پر ایک بدنما داغ ہے میڈیا رپورٹس کے حوالے سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ پولیس کی موجودگی میں اس قبائلی طبقے کے کم سے کم دو ہزار افراد کا مجموعہ لگاتار مسلمانوں کی دکانات کو لوٹتا رہا مساجد کو نشانہ بناتے رہے گاڑیوں اور دکانات کو نذر آتش کیا گیا مساجد میں قرآن اور دینی کتابوں کو بکھیر دیا گیا گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کرنا اور لوٹ مار بھی کی گئی لیکن پولیس اور اس کے اعلی عہدیدار خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔
مودی 3 دور حکومت میں ہجومی تشدد کی بھی ایک نئی لہر کا آغاز ہوچکا ہے لوک سبھا کے نتائج آتے ہی اس سلسلے کا آغاز ہوا ہے جو سلسلہ وار جاری ہے ہریانہ میں ایک مغربی بنگال کے مزدور صابر ملک جو پیشے سے کباڑ خرید کر فروخت کیا کرتے تھے جن کو نوجوان ہندو شر پسندوں نے گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگاکر پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا اس مار پیٹ کرنے والے ہجوم میں دو نابالغ بچے(ملزم) بھی تھے اسی طرح مہاراشٹر میں چلتی ٹرین میں ایک معمر شخص حاجی اشرف جو کلیان جارہے تھے انھیں بیف لے جانے کے جرم میں ہندو گروپ کا ایک گروہ تشدد کا نشانہ بناکر مار پیٹ کی اسی طرح ہریانہ کے فریدآباد میں ایک اور لنچنگ کا جو واقعہ پیش آیا وہ تھوڑا سا مختلیف ہےجس میں گاؤ رکھشکوں نے گائے کی منتقلی کے الزام میں ایک نوجوان کو مسلم سمجھ کر ایک ہندو طبقے کے 19 سالہ آرین مشرا برہمن لڑکے کے سر اور سینے میں گولی مار کر ہلاک کردیا ہریانہ اور مہاراشٹر پولیس نے ملزمین کو گرفتار تو کرلیا لیکن ہریانہ کے وزیر اعلی نائب سنگھ سینی کے بیان نے یہ صاف کردیا کہ ایسے واقعات تو ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔
دراصل نائب سنگھ سینی کہہ رہے ہیں کہ نوجوان ہیں جوش و جذبات میں بہہ کر ایسا کردیتے ہیں ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا نائب سنگھ سینی کے بیٹے یا خاندان کے کسی فرد کے ساتھ بھی اگر ایسا ہو تو کیا ان کا رد عمل ایسا ہی آئے گا؟ لیکن اس وزیر اعلی کا جواب نیوز24 پر اترپردیش کے سابق ڈی جی پی وکرم سنگھ نے دیتے ہوئے کہا کہ ہریانہ کے وزیر اعلی یہ بھول رہے ہیں کہ یہ ملک جذبات سے نہیں دستوراور قانون کی رو سے چلتا ہے اگر جذبات سے چلایا جائے تو ایسے ہی کھلے عام قتل و غارت گیری ہوتی رہے گی انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کے واقعات میں سیاسی پشت پناہی اور پولیس کی کھلی چھوٹ شامل ہوتی ہے جیسا کے ہریانہ کے آئی جی نے جنید اور ناصر کے ساتھ پیش آئے ہجومی تشدد معاملے میں بیان دیا تھا کہ جب ناصر کو زخمی حالت میں پولیس اسٹیشن لے جایا گیا تو پولیس نے کہا یہاں سے لے جاؤ تو گاؤ رکھشکوں نے واپس لاکر ایک گاڑی میں رکھ کر آگ لگادی ہریانہ آئی جی کے بیان نے واضح کردیا تھا کہ پولیس نے اس معاملہ کو کس نگاہ سے دیکھا ہے اور یہ معلوم ہوچکا ہے کہ پولیس اپنے فرائض کو کس طرح سے انجام دے رہی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال 2015 سے سال 2018 میں 44 ہجومی تشدد کے کیسس درج ہوئے ہیں جن میں 36 کیسس مسلمانوں کے ہیں اس بات پر بھی اترپردیش کے سابق ڈی جی پی وکرم سنگھ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک کس رخ پر جارہا ہے جب کہ وزیراعظم خود یہ کہتے ہیں کہ جو لوگ گاؤ رکھشک کے نام پر ایسی حرکتیں کررہے ہیں ان میں 80 فیصد لوگ غیر سماجی کاموں میں ملوث ہوتے ہیں جو رات کو جرائم کرتے ہیں اور دن میں گاؤ رکھشک بن جاتے ہیں لیکن یہی وزیراعظم ان گاؤ رکھشکوں پر نہ قانون بنانے کی بات کرتے ہیں نہ لنچنگ پر سخت قانون بناتے ہیں اور نہ ہی ان گاؤ رکھشکوں کو سخت سزا دی جاتی ہے جب کہ مسلمانوں کے خلاف مختلیف سازشوں کے تحت چن چن کر قانون بنائے جارہے ہیں اس سے بڑی گہری منافقت اور کیا ہوسکتی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا لوک سبھا انتخابات کے دوران وزیراعظم نریندر مودی نے نہ اپنے عہدے کا اور نہ انتخابی ضابطہ اخلاق کا پاس و لحاظ رکھا تھا بلکہ انسانیت کو بھی انھوں نے شرمسار کردیا تھا اس قدر انھوں نے مسلمانوں کے تیئں بدزبانی کی تھی اور کیا کچھ نہیں کہا تھا کیا ایک وزیراعظم کی زبان کے کلمات صرف زبان تک محدود ہوجاتے ہیں نہیں بلکہ اس کا اثر قبول کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے جس کا اثر لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے فوری بعد دیکھنے کو ملا رپورٹ کے مطابق این ڈی اے سرکار کے صرف بیس دن میں چھ لنچنگ کے واقعات رونما ہوئے ایسا ہی کچھ کچھ دن پہلے مہاراشٹر کے رکن اسمبلی نتیش رانے نے ایک جلسہ عام سے کھلے عام زہر اگلتے ہوئے مسلمانوں کو مسجد میں گھس کر مارنے کی دھمکی دی ان پر تو ایک پولیس کیس ہوجائے گا کچھ بڑی کاروائی نہیں ہوگی لیکن اس کا اثر ان ہی کے سماج کےنوجوان لیں گے جو سماج میں آئے دن مخلتیف واقعات کے روپ میں سامنے آرہے ہیں یہ نفرت تب ہی رک سکتی جب ایسے نفرتی پروانوں پر از خود عدلیہ نوٹس لیتے ہوئےسخت قانونی کاروائی کرے گی جو شائد کہ نا ممکن ہے۔
چاہے تلنگانہ میں ہورہے فرقہ وارانہ تشدد ہو یا ملک بھر میں مسلمانوں پر ہورہے ماب لنچنگ کے واقعات ان میں سیاست کا سب سے بڑا دخل ہے اور اس کے پیچھے نظم و نسق کی بدنظمی ہے ایک کامیاب حکومت کا سب سے پہلا اور اولین فریضہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی ریاست میں لااینڈ آرڈر کو برقرار رکھے لیکن ابھی تک تلنگانہ میں کانگریس سرکار اس لا اینڈ آرڈر کی برقراری میں بہت پیچھے نظر آرہی ہے جب کہ ریاست کے مسلمانوں نے متحد ہوکر کانگریس کے حق میں ووٹ دیا کیا اسی لیئے کہ آج یہ دن یکھے جائیں اگر کانگریس حکومت چاہتی ہے کہ وہ مسلمانوں میں اپنا دبدبہ رہے تو فوری کانگریس سرکار جینور واقعہ کی جامع تحقیقات کروائیں اصل مجرمین کو کیفرکردار تک پہنچائیں اور جتنے مسلم خاندانوں کا املاکی نقصان ہوا ہے اس کی پابجائی کی جائے تب ہی ریاست کے مسلمانوں میں یہ راہ ہموار ہوسکتی ہے کہ کانگریس پارٹی حقیقی طور پر مسلمانوں کی ہمدرد ہے ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ کانگریس کیلئے مسلمان صرف ایک ووٹ بینک کی طرح ہیں۔
اور سب سے اہم نکتہ جو فسادات اور ہجومی تشدد میں مشترکہ پایا جاتا ہے وہ ہے پولیس کے تماشائی ہونے پر سوالیہ نشان؟کیا پولیس حکومت کے فیصلوں اور احکامات پر عمل آواری نہیں کرتی ہے؟کسی بھی ریاست میں پولیس حکومت کا ایک ماتحت شعبہ ہے اگر حکومت سختی سے کام کرے گی اور پولیس پر دباؤ بنائے گی تو پولیس اپنے فرائض میں رتی برابر بھی کوتاہی نہیں کرسکتی جس کی مثال سابق بی آر ایس حکومت میں دیکھنے کو ملی ہے حکومت کی کھلی چھوٹ ہی پولیس کو آزادی فراہم کرتی ہے ایسا ملک کی بیشتر ریاستوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے چاہے وہ لنچنگ کا معاملہ ہو یا دیگر معاملات سب میں ایسا ہی ہورہا ہے اور شائد تلنگانہ میں بھی یہی ہوا ہے تو عوام کا یہ مطالبہ ہے کہ تلنگانہ سرکار جینور میں ہوئے تشدد میں پولیس کے جانبدار رویے اور انکے حقیقی چہرے کو آشکار کریں اور ان پولیس عہدیداروں کو فوری معطل کریں جو اس تشدد کے دوران ہاتھ باندھ کر کھڑے تھے اور ان کی سزا کا بھی تعین کریں تاکہ ریاست میں دوبارہ پولیس کا ایسا چہرہ کبھی سامنے نہ آئیں جب جرم کرنے والے کو کھلی آزادی دے دی جاتی ہے تو اصل مجرم آزادی فراہم کرنے والے ہی کہلاتے ہیں خواہ وہ پولیس ہو یا حکومت شائد اسی پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے خورشید ربانی نے کہا ہوگا
یہ کون آگ لگانے پہ ہے یہاں مامور
یہ کون شہر کو مقتل بنانے والا ہے