Slide
Slide
Slide

خدمتِ دین اور کیرئرزم

خدمتِ دین اور کیرئرزم

✍️ محمد فرید حبیب ندوی

________________

خدمت دین کے مختلف میدانوں سے جڑے ہوئے بہت سے علما وفضلا اور نوجوانوں سے تبادلہ خیالات اور ذاتی مشاہدات وتجربات کے بعد میں نےایک چیز یہ محسوس کی ہے کہ اس وقت کیرئرزم کے بت نے ہمارے دعوتی کاموں کو بہت نقصان پہنچایاہے.

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ہر دور کے کچھ فتنے اور بت ہوتے ہیں. پھر ہر طبقے اور جماعت کے مخصوص بت ہوتے ہیں. بت انسان کو راہ راست سے ہٹانے اور بھٹکانے کا کام کرتے ہیں. دینی خدمات سے وابستہ افراد کا ایک بہت بڑا بت کیرئرزم ہے. ملحوظ رہے کہ بات ان افراد کی ہورہی ہے جو دینی ودعوتی کاموں( تدریس، تصنیف اور اصلاح ودعوت) سے جڑے ہوئے ہیں اور جڑے رہنا چاہتے ہیں اور شاید اسی کو اپنے لئے بہتر بھی سمجھتے ہیں. ان حضرات کی بات نہیں ہورہی جو معاش یا دیگر افکار کی وجہ سے دینی ودعوتی کاموں سے وابستہ نہیں ہیں.

تو ایسے افراد کا ایک بہت بڑا بت کیرئرزم ہے، یعنی وہ دینی ودعوتی کاموں کے ذریعے اصل فوکس اپنے کیرئر پر رکھتے ہیں. وہ دین کے انھی کاموں سے جڑتے ہیں جہاں انھیں اپنا کیرئر بنتا ہوا اور مستقبل چمکتا ہوا نظر آتا ہے. اور اسی طرز وانداز پر کام کرنا چاہتے ہیں جہاں انھیں اپنے اس گوہرِ مطلوب کے حاصل ہونے کی توقع ہوتی ہے.

ایک مدرس کسی بڑے مدرسے میں انھی کتابوں اور اسباق کو پڑھانے کو ترجیح دیتا ہے جن کے نتیجے میں اس کی شناخت بڑے استاد کی بن سکے. اسے اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ کسی علاقے میں اس کی خدمات کی ضرورت اس مدرسے سے زیادہ ہے جہاں وہ تدریس کی خواہش رکھتا ہے.

ایک خطیب ومقرر تقریروں کے ذریعے اپنی قسمت چمکانا چاہتا ہے. اصل نصح وخیر خواہی سے اسے سروکار نہیں ہوتا. وہ انھی اجلاسوں کو زینت بخشتا ہے جہاں اس کی قسمت کے افق پر ستارے طلوع ہوسکتے ہوں.

ایک مصنف دوسرے ضروری کاموں کو چھوڑ کر تصنیف کا راستہ اختیار کرتا ہے؛ تاکہ اس کے ذریعے اسے مصنف کا تمغہ حاصل ہوسکے. پھر وہ ایسے موضوعات پر زیادہ توجہ دیتا ہے جن سے اسے اپنی منزل زیادہ آسان نظر آتی ہے اور ان موضوعات کو چھوڑ دیتا ہے جو گو زیادہ اہم ہوں، مگر اسے اس کی منزل سے دور کرسکتے ہوں.

غرض یہ کہ اپنا کیرئر بنانا پہلا ہدف ہوتا ہے. یہ کیرئر کسی بھی شکل میں مقصود ہوسکتا ہے. کچھ حضرات شہرت وشناخت کی شکل میں اپنا کیرئر بنانا چاہتے ہیں، کچھ روپے اور پیسے کی شکل میں اور کچھ عہدہ ومنصب کی شکل میں.

میرا احساس ہے کہ اگر اپنے کیرئر سے بے پرواہ ہوکر اصل ضرورت اور کام کو سامنے رکھا جائے تو شاید کیرئر بھی بنے گا اور کام کے فوائد بھی زیادہ بہتر طور پر حاصل ہوں گے.

آخر میں دو باتیں اور:

۱. یہ گفتگو تمام افراد کے بارے میں نہیں ہورہی ہے. ظاہر ہے کہ بہت بڑی تعداد اس سے اوپر اٹھ کر بھی کام کررہی ہے.

۲. راقم سطور خود کو بھی اس سے پورے طور پر الگ نہیں رکھتا ہے. ممکن ہے کہ کہیں نہ کہیں وہ خود بھی اسی فریب کا شکار ہو. اللہ پاک ہدایت دے.

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: