وقف ترمیمی بل کا مقصد کیا صرف مسلمانوں کی املاک ضبط کرنا ہے؟
✍️ عبدالماجد نظامی
_________________
ہندوستان میں دوسری اقلیتوں کے مقابلہ مسلم اقلیت کا مسئلہ سب سے زیادہ سنگین ہے کیونکہ آر ایس ایس نامی ایک ملک گیر تشدد پسند تنظیم اپنی تاسیس کے روز اول سے ہی مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی کیے ہوئے ہے اور مسلمانوں کو ان کے تمام حقوق اور ان کے دینی و تہذیبی تشخص سے محروم کرکے انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنا دینا اس کا بنیادی مقصد ہے۔ آر ایس ایس کی اپنی بے شمار ذیلی تنظیمیں بھی ہیں جو سماجی زندگی کی ہر سطح پر سر گرم عمل ہیں۔ ان ذیلی تنظیموں میں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل ایسی ہیں جو ہمیشہ ہی مسلمانوں کے خلاف تشدد کا استعمال کرنے میں یقین رکھتی ہیں اور ماب لنچنگ، گئورکشا اور لو جہاد وغیرہ کے نام پر مسلمانوں کی جانیں لینے اور ان میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے جتنے واقعات پیش آئے ہیں، ان میں ایسی ہی تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔ آر ایس ایس کے نظریہ کو مسلمانوں کے خلاف ملکی سطح پر سب سے پہلی کامیابی تب ملی جب وشو ہندو پریشد کی قیادت میں مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد کو فسادیوں کے ہاتھوں شہید کروایا گیا۔ اس مذموم عمل میں وہ تمام سرکردہ شخصیات بھی شامل تھیں جو سنگھ پریوار کی سیاسی وِنگ بھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ تھیں اور انہوں نے ملک کی سیاست میں اعلیٰ مناصب حاصل کیے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مجرمانہ عمل کو ملک کے سپریم کورٹ نے جواز فراہم کر دیا باوجودیکہ کورٹ کا یہ ماننا تھا کہ کسی مندر کو توڑ کر بابری مسجد کی تعمیر نہیں کی گئی تھی۔ اب بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر قائم ہے جس کی تعمیر میں جمہوری ہندوستان نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا اور عملی طور پر یہ واضح پیغام دیا گیا کہ حق اور انصاف کے اوپر ملک کی اکثریت کے جذبات کو ترجیح دینا زیادہ ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا ملکی آئین کی روح کے سراسر خلاف تھا لیکن چونکہ ملک میں ہندوتو کا ایسا طوفان کھڑا کیا جا چکا ہے کہ اب اسی شور میں مسلم اقلیت کے تمام دستوری حقوق گم کر دیے جاتے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کو ان کے تمام تر دستوری حقوق سے محروم کرنے کا دوسرا قدم تب اٹھایا گیا جب سی اے اے کے ساتھ ملک گیر سطح پر این آر سی کو نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ این آر سی کے نفاذ کے بارے میں وزیر داخلہ امت شاہ نے خود اپنی زبان سے کئی جگہوں پر اعلان کیا تھا اور مسلمانوں کو کبھی بنگلہ دیشی تو کبھی ٹرمائیٹ کہہ کر ان سے ان کی انسانیت تک چھین لینے کی کوشش کی تھی۔ البتہ جب مسلمانوں اور دیگر انصاف پسند ہندوستانیوں نے اس کے خلاف اپنا سخت احتجاج درج کروایا تو رام لیلا میدان میں وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ این آر سی کے بارے میں سرکاری سطح پر کوئی بات ہی نہیں ہوئی ہے۔ حالات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ وزیراعظم سچائی بیان نہیں کر رہے تھے۔ ابھی 2024 میں جو عام انتخابات ہوئے ہیں، اس کے دوران تشہیری جلسوں میں خود نریندر مودی مسلمانوں کو ’’گھس پیٹھیا‘‘کہہ کر پکار چکے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اسی فکر سے اتفاق رکھتے ہیں جس کی تشہیر امت شاہ مسلمانوں کو بنگلہ دیشی اور ٹرمائیٹ کہہ کر کر چکے ہیں۔ یہ تو بھلا ہو ہندوستان کی جمہوریت اور عوام کی ہوش مندی کا کہ انہوں نے 2024 میں دستور کی روح کی حفاظت کا کام کیا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو اکثریت سے محروم کرکے ملک کو مزید منتشر ہونے سے بچا لیا۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے باوجود آر ایس ایس کی سیاسی وِنگ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے مسلم مخالف رویہ میں کوئی تبدیلی کرنے کے بجائے ان کے خلاف ہو رہے مظالم سے چشم پوشی ہی کرتی رہی ہے۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کے دستوری حقوق کے تحفظ کے بجائے وقف ترمیمی بل کی شکل میں اب ان کی ان جائیدادوں پر بھی قابض ہونا چاہتی ہے اور مستقبل میں مسلمانوں کی مساجد، مدارس، خانقاہوں اور قبرستانوں تک سے انہیں محروم کرکے تشخص سے عاری ایک قوم میں انہیں تبدیل کر دینے پر تلی ہوئی ہے۔ مسلمانوں میں سے بھی بعض خود غرض عناصر یا کوتاہ اندیش اس بل کی حمایت میں ہیں اور ان ہی کی پشت پر سوار ہوکر یہ کام کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ابھی یہ بل جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے پاس ہے اور عوام سے اس سلسلہ میں آراء کو جمع کرنے کا کام جاری ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہندوؤں سے بھی اس معاملہ میں رائے لی جا رہی ہے جب کہ وقف کی جائیدادوں پر خالص مسلمانوں کا حق ہے کیونکہ مسلمانوں نے اپنی ذاتی املاک کو دینی و ملی مقاصد کے لیے وقف کیا ہے۔ ایسی صورت میں ہندوؤں سے رائے لینے کا کیا جواز پیدا ہوتا ہے؟ کیا کل ہوکر اس بات پر ہندوؤں یا دیگر طبقوں سے رائے لی جائے گی کہ مسلمانوں کو اس ملک میں رہنا چاہیے یا نہیں رہنا چاہیے؟ یہ نہایت خطرناک بات ہے۔ مسلم اقلیت تو پہلے ہی سے سیاسی و سماجی نمائندگی سے عملاً محروم کی جا چکی ہے۔ اب ان کی املاک پر قبضہ کرنے کے لیے قانون سازی کا جو راستہ اختیار کیا جا رہا ہے، اس سے مسلمانوں کے مذہبی و ثقافتی وجود کو سخت خطرہ لاحق ہوجائے گا اور وہ کسی بھی طرح کے نامساعد حالات میں اپنے تشخص کی حفاظت نہیں کر پائیں گے۔ وقف ترمیمی بل نہ صرف مسلم اقلیت کے مذہبی معاملوں میں کھلی مداخلت ہے بلکہ سماجی اور اقتصادی سطح پر بھی انہیں بے دست و پا کرنے کی منظم سازش ہے۔ تمام سیکولر اور دستوری حقوق کی محافظ سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ متحد ہوکر اس بل کو مسترد کریں اور مسلم اقلیت کے بنیادی حقوق کو ضائع ہونے سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس معاملہ میں اسی قسم کی یکجہتی کا مظاہرہ کریں جیسا کہ انہوں نے این آر سی کے خلاف احتجاج درج کروانے میں اپنے آئینی حقوق کا استعمال کیا تھا۔ اگر وقف ترمیمی بل قانون کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو اس کا پورا خدشہ ہے کہ کسی بھی مسجد یا مدرسہ کو ناجائز قرار دے کر ان پر قبضہ جما لیا جائے گا جس کا سیدھا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمان اپنے ان دینی و ثقافتی آزادی سے متعلق حقوق سے فیض یاب نہیں ہو پائیں گے جن کی ضمانت آئین ہند میں دی گئی ہے۔