نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک
✍️ محمد ناصر ندوی پرتابگڑھی
سیدنگر،رائےبریلی ،یوپی انڈیا
______________
حضور ﷺ کے اخلاق صرف مسلمانوں کےلئے ہی نہ تھے بلکہ خدا تعالی نے آپ کو تمام جہانوں کےلئے رحمت بنا کر بھیجا تھا جیسا کہ قرآن میں فرمایا: وَمَآ اَرْسَلْنٰك اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔(سورۃ الانبیاء:108) کہ اے نبی ﷺ ہم نے تجھے تمام جہانوں کےلئے رحمت بناکر بھیجا ہے۔ اوراس حسن کے پیکر نے اپنے عملی نمونہ سے خود کو رحمةللعالمین ثابت کیا،سارے عالم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا برتائو قابل تقلید ہے ۔
غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کے نمونے:
غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کا اس سے بہترنمونہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہیں تباہی سے بچا لیا جائے اور یہی فکر تھی جو آنحضور ﷺ کو شب و روز رہتی تھی۔ آپ کی اس حالت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے:۔
لَعَلَّك بَاخِعٌ نَّفْسَك اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (سورۃ الشعراء:4)
کہ کیا توُ اپنی جان کو اس لئے ہلاک کر دے گا کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔
السَّامُ عَلَیْکُمْ کے جواب میں بھی نرمی کی تلقین:
یہود آنحضور ﷺ کی مخالفت میں بہت بڑھے ہوئے تھے اور اپنے شاطر دماغوں سے کوئی نہ کوئی طریقہ آپ ﷺ یا مسلمانوں کو تکلیف دینے کا ڈھونڈتے رہتے تھے۔ لیکن آنحضورﷺ نے ہمیشہ ان کو نرمی سے جواب دیا اور اپنے اصحاب کو بھی نرمی کی تلقین فرمائی۔چنانچہ حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں :۔
ایک دفعہ ایک یہودی گروہ آنحضور کی خدمت میں آیا اور انہوں نےاَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کے بجائے اَلسَّامُ عَلَیْکمْ(یعنی تم پر ہلاکت ہو)کہا،میں نے انہیں کہا کہ ہلاکت تم پر ہو اور انہیں ملامت کی لیکن رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا کہ عائشہ ٹھہرو ‘‘اِنَ اللہَ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْاَمْرِ کُلِّہٖ’’ کہ اللہ تعالی ہر معاملہ میں نرمی پسند کرتا ہے۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے کیا کہا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا میں نے انہیں جواب میں کہہ دیا تھا کہ ‘‘وَعَلَیْکُمْ’’ یعنی تم پر بھی۔
(صحیح البخاری کتاب الادب باب الرفق فی الامر کلہ حدیث6024)
عیادت مریض:
آپﷺ کو سب کے درد کا احساس تھا اس لیے اگر کوئی غیر مسلم بھی بیمار ہوتا تو آپ اس کی تیماداری کے لیے تشریف لے جاتے۔حضرت انس ؓ بیان فرماتے ہیں:۔
‘‘أَنَّ غُلَامًا لِیَھُوْدَ،کَانَ یَخْدُمُ النَّبِیَّ ﷺ،فَمَرِضَ فَأَتَاہُ النَّبِیُّﷺیَعُوْدُہُ۔’’
(صحیح البخاری کتاب المرض باب عیادۃ المشرک حدیث نمبر 5657)
کہ رسول کریم ﷺ کا ایک خادم یہودی تھا جو بیمار ہو گیا۔ رسول کریم ﷺ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔
نبی کریم ﷺ کا جنگ میں دشمنوں سے حسن سلوک:
حضور ﷺ سے غیر مسلموں سے اعلی حسن سلوک کا ظہور صرف عام حالات میں ہی نہیں تھا بلکہ جنگ کی حالت میں جس میں آج بھی قومیں ہر طرح کی فریب دہی جائز سمجھتی ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے دشمن کو پسپا کرنے کا نہیں جانے دیتیں اس جنگی حالت میں بھی حضور ﷺ نے حسن سلوک کی ایسی اعلیٰ مثالیں قائم کیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہےچنانچہ جنگ بدر کے موقع پر جب مسلمانوں نے پانی کے چشمہ پر حوض بنا کر وہاں پڑاؤ ڈال لیا تو باوجود حالت جنگ کے جب دشمن پانی لینے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں پانی لے لینے دو۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ424ذکر رؤیا عاتکۃ بنت عبد المطلب۔اسلام ابن حزام)
حضور ﷺ کا غیر مسلموں کے لئے دعائیں کرنا ثابت کرتا ہے کہ آپﷺ کو ان سے سچی ہمدردی تھی اور آپ ﷺ کی حد درجہ خواہش تھی کہ خدا کا پیغام وہ سنیں اور اس کے احکام وہ مانیں۔اس لئے مسلسل ان کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے اور بخشش مانگا کرتے تھے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ کی غیر مسلم والدہ کے لئے دعا اور ان کا ایمان لے آنا:۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی مشرک والدہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا تھا۔ ایک دن میں نے انہیں تبلیغ کی تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے بارہ میں ناپسندیدہ باتیں کیں۔ میں رسول کریم ﷺ کے پاس روتا ہوا حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میں اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دیتا تھا تو وہ انکار کرتی تھیں۔ آج میں نے دعوت دی تو انہوں نے آپ کے متعلق نازیبا باتیں کیں جنہیں میں ناپسند کرتا ہوں۔ آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ میری والدہ کو ہدایت دے۔ رسول کریم ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ! ابوہریرہ کی والدہ کو ہدایت دے۔ میں رسول کریم ﷺ کی دعا سے خوش خوش واپس ہوا۔ جب میں گھر کے دروازہ کے پاس آیا تو وہ بند تھا۔ میری والدہ نے میرے قدموں کی آواز سنی تو کہا اے ابو ہریرہ ادھر ہی ٹھہر جاؤ۔ ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے پانی کے گرنے کی آواز سنی۔ ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ انہوں نے غسل کیا اور کپڑے زیب تن کئے ۔ دوپٹہ اوڑھا اور دروازہ کھول دیا۔ پھر انہوں نے کہا اے ابو ہریرہ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔
(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ حدیث نمبر6396)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ طفیل بن عمرو الدوسی اور ان کے ساتھی نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ۔یا رسول اللہ!دوس قبیلے نے اسلام کی دعوت کا انکا رکر دیا ہے۔اس لئے آپ ان کے خلاف بد دعا کریں ۔کسی نے کہا کہ اب تو دوس قبیلہ ہلاک ہو گیا۔مگر نبی کریم ﷺ نے اس طرح دعا کی کہ اے اللہ!تُو دوس قبیلے کو ہدایت دے اور ان کو لے آ۔
(صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیر باب الدعا للمشرکین بالھزیمۃ و زلزلۃ حدیث نمبر 2937)
قبیلہ ثقیف کے لئے ہدایت کی دعا:۔
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہمیں ثقیف کے تیروں نے چھلنی کر چھوڑا ہے۔ اس لئے آپ ان کے خلاف بد دعا کریں۔ آپ ﷺ نے اس طرح دعا فرمائی:۔
‘‘اَللّٰھُمَّ اھْدِ ثَقِیْفًا ’’کہ اے اللہ تُو ثقیف قبیلہ کو ہدایت دے۔
(سنن ترمذی کتاب المناقب باب مناقب فی ثقیف و بنی حنیف حدیث نمبر 3942)
غیر مسلموں کے حق میں بارش کی دعا:۔
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ جب قریش نے اسلام کی مخالفت کی اور اس کو قبول کرنے میں تاخیر سے کام لیا تو اس وقت آنحضورﷺ نے ان کے خلاف بددعا کی۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں ان کو قحط کا سامنا کرنا پڑا۔ اور وہ بھوک کی وجہ سے مرنے لگ گئے اور مردار اور ہڈیاں کھانے تک نوبت آگئی،توحضرت ابوسفیان رض(اس وقت تک ایمان نہ لائے تھے ) آنحضور ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور کہا اے محمد ﷺ! آپ صلہ رحمی کرنے کا حکم لے کرآئے ہیں۔ آپ کی قوم ہلاک ہورہی ہے۔ ان کے واسطے اپنے مولا سے دعا کریں۔ اس پر آنحضور ﷺ نے دعا کی اور مسلسل سات دنوں تک ابر رحمت ان پر اس قدر برسا کہ لوگوں نے بارش کی زیادتی کی وجہ تکلیف سے آپ کو آگاہ کیا اس پر آپ نے یہ دعا کی ‘‘اَلّٰلھُمَّ حَوْالَیْنا وَلَاعَلَیْنَا۔’’کہ اے خدا! ہمارے اردگرد برسا اور ہم پر نہ برسا۔‘‘ اس پر بادل آپ کے سر سے چھٹ گئے اور اردگرد کے علاقوں کو سیراب کرنے لگے۔
(صحیح البخاری کتاب الاستسقاء باب اذا استشفع المشرکون بالمسلمین حدیث1020)
پتھر برسانے والوں کے حق میں دعا:۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ کیا آپ پر احدکے دن سے بھی زیادہ کوئی سخت دن آیا ہے؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے جو تمہاری قوم کی طرف سے پہنچا وہ تو پہنچا ہی لیکن ان کی جانب سے سب سے تکلیف دہ عَرَفَہ کا دن تھاجب میں ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے پاس گیا ۔ جس چیز کا میں نے ارادہ کیا ہوا تھا اس کا انہوں نے جواب نہ دیا۔ میں واپس اس حال میں لوٹا کہ میرے چہرے پر غم کے آثار تھے ۔ میں مسلسل چلتا رہا یہاں تک کہ قرن الثعالب مقام پر آپہنچا۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس جگہ آکر میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بادل کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کیا ہوا ہے۔ اور اس میں جبرئیل ہے۔ جبرئیل امین نے مجھے پکارا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے بارے میں قوم کی باتیں سن لیں اور ان کا ردعمل دیکھ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجاہے کہ آپ ان (طائف والوں) کے بارہ میں جو چاہیں اس کو حکم دیں۔ چنانچہ پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے پکارا ، مجھ پر سلامتی بھیجی اور عرض کی کہ آپ حکم فرمائیں۔ وہی ہوگا جو آپ چاہیں گے۔ اگر آپ چاہیں تو میں ان پر دونوں پہاڑ گرادوں۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں سے ایسے لوگ پیدا کردے گا جو کہ خدائے واحد کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔
(صحیح البخاری کتاب بدء الخلق باب اذا قال احدکم آمین والملائکہ…حدیث 3231)
زہر دینے والی عورت کو معاف فرمادیا:۔
حضرت انسؓ بن حارثؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی عورت نے نبی کریم ﷺ کو بکری کا گوشت دیا جس میں زہر ملا ہوا تھا۔ آپ نے اس میں سے کچھ کھایا جب اس عورت کو حضورﷺ کے پاس لایا گیا تو صحابہ نے عرض کیا کَیا ہم اسے قتل نہ کردیں؟ فرمایا کہ نہیں۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ آپ کے تالو میں اس زہر کا اثر ہمیشہ باقی رہا۔
(صحیح البخاری کتاب الھبۃ وفقلھا باب قبول الھدیۃ من المشرکین حدیث نمبر 2617)
غیر مسلموں کے جنازہ کا احترام:
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں کہ سھل بن حُنَیف اور قیس بن سعد قادسیہ کے مقام پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو وہ دونوں کھڑے ہوگئے جب ان کو بتایا گیا کہ یہ ذمیوں میں سے ہے تو ان دونوں نے کہا کہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ (احتراماً) کھڑے ہوگئے۔ آپ کو بتایا گیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ‘‘اَلَیْسَتْ نَفْسًا’’ کیا وہ انسان نہیں تھا؟
(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب من قام لجنازۃ یہودی حدیث1312)
فتح مکہ کے موقع پر عظیم الشان عفو کا نمونہ:
فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر فرمایا:-
اے قریش کے گروہ تم مجھ سے کس قسم کے سلوک کی امید رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا خیر کی۔ آپ ہمارے معزز بھائی ہیں اور ایک معزز بھائی کے بیٹے ہیں۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ’’لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ‘‘ کہ آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ733 دخول الرسول ﷺ الحرم)
غیر مسلموں کو مسجد میں اپنے طریق پر عبادت کی اجازت دینا:۔
جب نجران کے عیسائی مدینہ میں حضرت رسول کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں نماز عصر سے فارغ ہوئے تھے۔ یہ لوگ نہایت عمدہ لباس پہنے ہوئے تھے۔ جب ان کی نماز کا وقت ہوا تو وہ مسجد میں ہی نماز ادا کرنے لگے۔ اس پر آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ انہیں نماز پڑھنے دو۔ انہوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔
(السیرۃ النبویۃلابن ہشام صفحہ396 امر السید والعاقب وذکر المباھلۃ )
باب چہارم: مستشرقین کا خراج تحسین:
آنحضور ﷺ کے لائے ہوئے پیغام کی حقانیت اور آپ کا غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک ہی ہے جس نے ساری دنیا کے انسانوں کے قلوب نرم کردیئے، اورلوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے امن و امان والے دین کو اپناکر دونوں جہان کی سعادت کے مستحق بنے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین نے بھی وہی طریق اپناکر ساری دنیا کو سکون فراہم کیا،اور رہتی دنیا تک اسلام امن و سلامتی عطا کرتا رہے گا۔
"وما أرسلناك الا رحمة للعالمین”۔