عمر گوتم کی گرفتاری کے بعد میڈیا ٹرائل کی کہانی
✍️ افروز عالم ساحل
________________
عمر گوتم ومفتی جہانگیر کی گرفتاری کے بعد میڈیا ٹرائل کی کہانی بھی بڑی عجیب ہے۔ ان کہانیوں کے لکھنے والے صحافی نہ صرف صحافت کے بنیادی اصولوں کو بھول گئے بلکہ کئی جگہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے بھی باز نہیں آئے اور کئی کہانیاں ایسی لکھ ڈالیں جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ بے شرمی کی حد یہ ہے کہ ایک ہی کہانی کو ہر اخبار اپنی خاص اسٹوری بتا کر چھاپتا رہا، جبکہ کہانی کا اسلوب بتا رہا ہے کہ ان کی یہ ’ایکسکلوسیو اسٹوری‘ کسی سرکاری دفتر میں یا سرکاری منشا کے مطابق لکھی گئی ہے۔
ہفت روزہ دعوت نے ٹی وی چینلوں پر چلنے والے میڈیا ٹرائل سے ہٹ کر، اتر پردیش کے دو بڑے اخبارات ’دینک جاگرن‘ اور ’ہندوستان‘ کا بطور خاص جائزہ لیا۔ اس پڑتال میں ۲۱ جون سے لے کر ۳ جولائی تک کے اخباروں کو پوری باریکی کے ساتھ دیکھنے پر محسوس ہوا کہ ہر دن ’تبدیلی مذہب‘ کو لے کر پورے پورے صفحات پر جم کر من گھڑت وبے بنیاد کہانیاں شائع کی گئی ہیں۔
اخباروں میں کہانیوں کا یہ سلسلہ ۲۲ جون سے شروع ہوا۔ ۲۲ جون کو اتر پردیش ہی نہیں، بلکہ ملک کے تمام ہندی اور انگریزی اخبارات نے ’ایک ہزار سے زیادہ کا کرایا مذہب تبدیل، دو گرفتار، آئی ایس آئی دے رہی تھی پیسہ‘ ’اے ٹی ایس نے کیا راز فاش، اسلامک دعوہ سنٹر کا اہم رول‘ ’مہاراشٹر، ہریانہ، کیرالا، دہلی اور آندھرا پردیش سے بھی جڑے ہیں تار ‘ ’نوئیڈا مقیم اسکول کے بہرے بچوں، خواتین کو بنایا شکار‘ جیسی سرخیوں کے ساتھ اسٹوری لکھی۔ اس کام میں کچھ اردو اخبارات اور ویب سائٹس بھی برابر شریک نظر آئے۔
دراصل یہ پوری کہانی 20 جون 2021 کو یو پی اے ٹی ایس کے ذریعہ ہندی زبان میں تین صفحات پر مشتمل جاری ایک پریس ریلیز کی بنیاد پر لکھی گئی۔ اس پریس ریلیز میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ عمر گوتم اور مفتی جہانگیر آئی ایس آئی اور دیگر غیر ملکی فنڈنگ سے مذہب تبدیل کرواتے تھے۔ حیرانی کی بات ہے کہ اتر پردیش کے زیادہ تر اخباروں نے اس پریس ریلیز کی بنیاد پر لکھی اسٹوری میں کہیں یہ ذکر نہیں کیا کہ یہ یو پی پولیس یا اے ٹی ایس کے ذریعہ جاری کردہ ’پریس ریلیز‘ ہے۔
۲۲ جون کو ’دینک جاگرن‘ نے ایک خبر یہ سرخی لگاتے ہوئے لکھی کہ ’کانپور اور گروگرام کے ۱۸ طلبہ کو بنایا تھا نشانہ‘۔ ’دینک جاگرن‘ کے نمائندے نے اپنی اس خبر میں لکھا کہ ’نوئیڈا کے سیکٹر ۱۱۷ میں مقیم ’نوئیڈا ڈیف سوسائٹی‘ میں پڑھائی کرچکے ۱۸ طلبہ کا مذہب تبدیل کروایا گیا ہے۔ ان کے بارے میں نوئیڈا پولیس تفصیلی جانکاری جمع کر رہی ہے۔ جانچ میں سامنے آیا ہے کہ ان میں ایک لڑکا کانپور کا رہنے والا ہے اور دوسرا گروگرام کا باشندہ ہے۔ گروگرام میں آئی ٹی آئی کی پڑھائی کے دوران ہی طلبہ کی دوستی کچھ مسلم طلبہ سے ہوئی تھی۔ مسلم دوستوں نے اسے ’نوئیڈا ڈیف سوسائٹی‘ میں داخلہ دلانے میں مدد کی تھی۔ داخلے کے بعد طلبہ یہاں پڑھائی کے بجائے مسلم دوستوں کے ساتھ دلی میں منعقد ہونے والی مجلس میں جانے لگے، دلی کے مرکز میں ان کی ملاقات عمر گوتم سے ہوئی تھی۔ عمر گوتم نے ہی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر طلبہ کے اصل مذہب کے تئیں بدنیتی ونفرت پیدا کر کے اسلام کے تئیں یقین مزید پکا کر کے ان کا مذہب تبدیل کروا دیا۔ انہوں نے طلبہ کے قریبی چھ دیگر لوگوں کا بھی مذہب تبدیل کرایا ہے۔ وہیں کانپور سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے بارے میں پولیس کو کچھ خاص جانکاری ہاتھ نہیں لگی ہے۔
اب اس پوری کہانی کو پڑھنے کے بعد کہیں سے بھی یہ ظاہر نہیں ہو رہا ہے کہ عمر گوتم یا ان کے ساتھیوں نے ان طلبا کو کوئی لالچ یا زبردستی کرکے مذہب تبدیل کرایا ہوگا۔ اور اس سے بھی ضروری بات یہ ہے کہ صحافی نے جن طلبہ کی کہانی لکھی ہے ان سے بات کرنا بھی شاید کسی نے گوارا کیا ہو۔ پولیس نے جو کچھ کہا بس اسی کو سچ مان کر پوری کہانی لکھ ڈالی۔
غورطلب بات یہ ہے کہ اسی معاملے پر بی بی سی ہندی کے نمائندہ دلنواز پاشا نے اتر پردیش کے اے ٹی ایس کے سربراہ جی کے گوسوامی سے پوچھا کہ اب تک کتنے بہرے اور گونگے بچوں کا مذہب تبدیل کرایا گیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ ’اب تک ہمیں دو بہرے گونگے بچوں کی تبدیلی مذہب کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ ہم جانچ کر رہے ہیں کہ اب کتنے بچوں کے مذہب تبدیل کرائے گئے ہیں۔‘ بی بی سی نے یہ بات اپنی رپورٹ میں بھی لکھی ہے۔
ہفت روزہ دعوت نے اس سلسلے میں نوئیڈا ڈیف سوسائٹی سے بھی رابطہ کیا، لیکن یہ رپورٹ لکھے جانے تک ہماری بات نہیں ہو سکی اور ہمارے سوالوں کا جواب نہیں مل سکا۔ لیکن بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ’نوئیڈا ڈیف سوسائٹی‘ کے پروگرامنگ افسر منیش شکلا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں میڈیا کے توسط سے دو افراد کی گرفتاری کے بارے میں پتہ چلا ہے۔ ان کا ہماری این جی او سے کسی طرح کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ کچھ دن پہلے پولیس پوچھ گچھ کرنے آئی تھی اور ہم نے تمام ضروری معلومات دے دی تھیں۔‘
یہی نہیں، منیش شکلا کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر گرفتار ملزمان بہرے وگونگے بچوں کے رابطے میں آئے ہیں تو وہ انسٹیٹیوٹ سے باہر آئے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمارے یہاں سیکڑوں بچے آتے ہیں جنہیں تربیت دی جاتی ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ یہاں سے چلے جانے کے بعد کس سے ملتے ہیں۔‘
اب سوال یہ ہے کہ جب خود اتر پردیش، اے ٹی ایس سربراہ جی کے گوسوامی یہ بتا رہے ہیں کہ ان کے پاس اب تک صرف دو بہرے گونگے بچوں کی تبدیلی مذہب کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ تو پھر ’دینک جاگرن‘ کے نمائندے کو ۱۸ بچوں کے اعداد وشمار کہاں سے مل گئے؟ اب اگر یہ اعداد وشمار مقامی پولیس کے پاس ہیں تو پھر یہ جانکاری اتر پردیش اے ٹی ایس کو کیوں نہیں؟ خیال رہے کہ بی بی سی نے اے ٹی ایس سربراہ جی کے گوسوامی سے یہ بات چیت ۲۲ جون کو ’دینک جاگرن‘ میں خبر شائع ہونے کے بعد کی ہے۔
’دینک جاگرن‘ یہیں نہیں رکا بلکہ ۲۳ جون کو بھی اس سے متعلق ایک خبر شائع کی۔ یہ رپورٹ محمد بلال کے نام سے شائع کی گئی۔ اس خبر کی سرخی تھی، ’گونگے بہرے بچوں کو انسانی بم بنا کر ملک کو دہلانے کی بڑی سازش‘۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ پوری خبر جہانگیر عالم قاسمی وعمر گوتم کا حوالہ دیتے ہوئے لکھی گئی تھی کہ انہوں نے یہ خطرناک خلاصہ اے ٹی ایس سے پوچھ تاچھ میں کیا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ خاص طور پر ان کی فنڈنگ پاکستان اور عرب ممالک سے کی جارہی تھی۔
۲۳ جون کو ’دینک جاگرن‘ میں ایک خبر کے ذریعے بتایا گیا کہ اے ٹی ایس کی چھان بین میں سامنے آیا ہے کہ عمر گوتم اور اس کے ساتھیوں نے نوئیڈا ڈیف سوسائٹی میں ۶۰ سے زائد گونگے بہرے بچوں کا تبدیلی مذہب کرایا ہے۔ اگلے دن یعنی ۲۴ جون کو ’دینک جاگرن‘ کے لوکیش چوہان نے اس سے متعلق ایک اور خبر لکھی اور اس خبر کی سرخی تھی، ’آتنکی شیویروں میں ہو سکتے ہیں لاپتہ چھاتر‘۔
اس خبر میں یہ بتایا گیا کہ نوئیڈا ڈیف سوسائٹی کے قریب ۶۰ گونگے وبہرے بچوں کے ذریعے تبدیلی مذہب کرنے کی بات سامنے آچکی ہے۔ ان میں سے ۲۰ طلبہ کو نیپال اور پاکستان میں خاص ٹریننگ دینے کے لیے بنائے کیمپوں میں بھیجا گیا ہے۔ خفیہ ایجنسیاں ان بچوں کے بارے میں جانکاری جمع کر ان کے غیر ملکی موومنٹ کی جانچ کر رہی ہیں۔ اب یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ۲۰ طلبہ کو نیپال اور پاکستان میں خاص ٹریننگ کے لیے بھیجا گیا ہے، یہ بات رپورٹر کو کس نے بتائی؟ کیا وہ رپورٹر ان کیمپوں میں جاکر ان ۲۰ بچوں سے مل چکا ہے؟ کیونکہ رپورٹ لکھتے وقت اس صحافی نے کسی کا بھی حوالہ نہیں دیا ہے۔
’دینک جاگرن‘ کے لوکیش چوہان نے اس معاملے کو مزید آگے بڑھایا۔ جو بچے ان کی رپورٹ کے مطابق نیپال اور پاکستان پہنچ چکے تھے، وہ انہیں دو دنوں بعد ہی ہندوستان کے مدرسوں میں نظر آنے لگے۔ ۲۶ جون کو لوکیش چوہان نے ایک خبر لکھی جس کی سرخی تھی، ’لاپتہ گونگے بہرے طلبہ کی مدرسوں میں ہوگی تلاش‘۔
اس خبر میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’نوئیڈا ڈیف سوسائٹی کے تبدیلی مذہب کے معاملے اور لاپتہ طلبہ کی تلاش اب دہلی این سی آر کے مدرسوں میں کی جائے گی۔ اس کے لیے اے ٹی ایس نے تیاری کرلی ہے۔ این سی آر کے مدرسوں میں پڑھنے والے طلبہ کی تفصیلات کا موازنہ نوئیڈا ڈیف سوسائٹی کے طلبہ کی تفصیلات سے کیا جائے گا۔‘ اس خبر میں انہوں نے یہ بھی لکھا، ’سوسائٹی کے لاپتہ ۲۰ طلبہ کے بارے میں شک ہے کہ ان کا مذہب تبدیل کرانے کے بعد مدرسوں میں پڑھایا گیا۔‘
’ہندوستان‘ اخبار تو اس معاملے میں مزید دو قدم آگے نظر آیا۔ ۲۳ جون کو گورو چودھری نے ایک خبر لکھی، اس خبر میں اس نے لکھا کہ ۲۲ برس کے نوجوان کے ذریعہ فروری میں تبدیلی مذہب کے دستاویز گھر والوں کو دکھانے کے بعد انہوں نے سختی برتنی شروع کردی تھی۔ ایسے میں دو مہینوں تک گھر والوں نے بیٹے کو گھر پر ہی رکھا اور اس کا فون بھی لے لیا تھا۔۔۔ اپریل میں جب وہ دوبارہ جانے لگا، تو ایک دن گونگے بہرے منو یادو کے فون پر پاکستان کے نمبر سے وہاٹس ایپ پر کال آیا۔ فون میں کچھ قابل اعتراض ویڈیو بھی ملے تھے۔ فون کرنے والے کے ساتھ والد راجیو یادو کی کافی بحث ہوئی۔ راجیو یادو نے بتایا کہ بیٹے کے فون پر جانچ کرنے کے دوران وہاٹس ایپ پر کچھ ویڈیو ملے، جن میں بچے ہاتھوں میں ہتھیار لے کر ٹریننگ لے رہے ہیں اور گولیاں بھی چلا رہے ہیں۔ اس پوری کہانی میں رپورٹر نے یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ یہ گونگا بہرہ منو یادو ہے کون؟ یہ خبر کس کے حوالے سے لکھی گئی ہے۔
۲۶ جون کو ’ہندوستان‘ میں نشانت کوشک نے ایک خبر لکھی۔ اس خبر کی سرخی تھی ’مغربی اتر پردیش میں مذہبی جذبات بھڑکانے کی ہے آتنکی سازش: تبدیلی مذہب کے دہشت گرد تنظیموں سے تار جڑنے کا معاملہ سنگین، کشمیر کنیکشن آرہا ہے سامنے‘ یہ کہانی ’ہندوستان‘ میں اگلے دن بھی دہرائی گئی۔ ۲۷ جون کو ’ہندوستان‘ نے ایک خبر شائع کی۔ اس خبر کی سرخی تھی ’بڑی سازش کو انجام دینے کی تیاری کر رہا تھا ملزم‘۔
اس خبر میں لکھا گیا کہ ’عمر گوتم سال ۱۹۲۶ دہرانے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ اے ٹی ایس نے اس کے پاس سے جو دستاویز ضبط کیے ہیں، اس میں سال ۱۹۲۶ کا ذکر کیا ہے۔ اس سال ہندوستان میں سب سے بڑا تبدیلی مذہب کا واقعہ ہوا تھا۔
اسی خبر میں بتایا گیا ہے کہ ۱۴ اکتوبر ۱۹۲۶ کو ملک میں ۳.۸ لاکھ لوگوں نے ایک ساتھ بودھ مذہب اپنایا تھا۔ وہیں پورے ملک میں یہ آبادی ۳۰ لاکھ کے پار پہنچ گئی تھی۔ عمر گوتم کے دماغ میں ایسا ہی کچھ چل رہا تھا۔ اے ٹی ایس نے اس کے یہاں سے کاغذات، ڈائری وغیرہ برآمد کی ہیں۔ اس میں اس نے لکھا ہے کہ وہ پورے ہندوستان میں اسلام کا پرچم لہرانے کا خواہش مند ہے۔
یہی نہیں، عمر گوتم کے گھر کے افراد کو لے کر بھی کئی کہانیاں اخباروں میں شائع کی گئیں اور ان کو ’دہشت گرد‘ جیسا بنا کر پیش کیا گیا۔ ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں شائع کی گئیں۔ ۲۴ جون کو ’دینک جاگرن‘ نے ایک خبر شائع کی۔ اس خبر کی سرخی تھی، ’۲۲ بار بیرون ملک گیا تھا عمر‘
یہ خبر ایک ویڈیو کے حوالے سے لکھی گئی تھی۔ جس میں بتایا گیا کہ عمر گوتم نے ۱۸ بار انگلینڈ، ۴ بار امریکہ، افریقہ اور دیگر ممالک کا سفر کیا ہے۔
ان الزامات کے بارے میں بات کرنے پر ان کے مقدمے کو دیکھ رہے چار وکلا میں ایک وکیل آشمہ عزت نے سوال کیا ہے کہ کیا انگلینڈ یا امریکہ افریقہ جانا کوئی گناہ ہے؟ ہمارے وزیر اعظم صاحب تو پتہ نہیں اب تک کتنے غیر ملکی اسفار کر چکے ہیں تو انہی کے ملک کے ایک شہری کا ۲۲ بار ملک کے باہر جانا غلط کیسے ہو گیا؟ وہ ایک مبلغ ہیں۔ انہیں پوری دنیا سے بلایا جاتا ہے اور وہ قانونی طریقے سے کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ یہ میڈیا والے یہ تمام خبریں اسٹیٹ کے اشارے پر شائع کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت میں اسٹیٹ اسپانسر یہ تمام کہانیاں نہیں ٹکیں گی، کیونکہ عدالت حقائق کی بنیاد پر کام کرتی ہے اور ابھی تک ایسے حقائق اے ٹی ایس نے ثابت نہیں کیے ہیں جن سے ان پر لگے ایک بھی الزام کو صحیح کہا جا سکے۔
آشمہ عزت کہتی ہیں کہ ابھی ہم عدالت کے فیصلے کا انتظار کریں گے۔ اور چونکہ اس معاملے کے ٹرائل میں کافی وقت لگنے والا ہے اس لیے ہم عدالت میں ان کی ضمانت کے لیے درخواست دیں گے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ اس معاملے میں عدالت میں انصاف ہوگا۔ بتا دیں عمر گوتم کے معاملے کو چار وکلا وجئے وکرم سنگھ، آشمہ عزت، پیوش منی تریپاٹھی اور کمیل حیدر دیکھ رہے ہیں۔۔۔