منزل سے زیادہ حسین سفر
(دوسری قسط)
✍️ ظفر امام قاسمی
__________________
پہلی قسط: منزل سے زیادہ حسین سفر(1)
تدفین کے عمل سے فارغ ہوئے تو ہمارے ادارے کے ایک قدیم شاگرد نے ہمیں اپنے گھر عشائیہ کی دعوت دے ڈالی،ان کا اصرار اِس زور کا تھا کہ ہمیں ہامی بھرنی پڑی اور قبل اس کے کہ ہم اپنے اُس عزیز شاگرد کے گھر کی طرف روانہ ہوتے،ہمارے ایک دیرینہ دوست، اخلاص و سادگی کے پیکر اور ایثار و وفا کے خوگر جناب مولانا عارف صاحب مدظلہ العالی (استاذ جامعہ حسینیہ مدنی نگر فرینگورا کشن گنج) اور آپ کے کچھ احباب نے ہمارے قافلہ کو کھینچ کر چائے کی میز پر لے بٹھایا اور چائے کے ساتھ وائے سے ہماری لذتِ کام و دہن کا سامان فراہم کیا،اس بیچ چائے کی میز پر ہماری نگاہیں برابر اپنے ایک اہم رفیقِ سفر کو ڈھونڈنے میں سرگرداں رہیں اور ہماری سماعت ان کے قدموں کی آہٹ سننے کے لئے سیمابی کیفیت سے دو چار رہی جو عقیدت مندوں کے اس سمندر میں کہیں بُلبُلہ بن گئے تھے اور باوجود فون ملانے کے وہ ہمارے رابطے میں نہ آسکے تھے، اس طرح پورے سفر میں ساتھ نباہنے والے اس رفیق کی چائے کی میز پر عدم حاضری کا ملال ہمیں آج تک کچوکے لگا رہا ہے۔
؎ اب بھی آجاتا ہے میرے خیالوں میں وہ
آج بھی لگتی ہے حاضری اُس غیر حاضر کی
چائے سے فراغت ہوئی تو ہمارا کارواں چہل قدمی کرتا ہوا اس شاگرد کے گھر جا پہونچا جو جنازہ گاہ سے نصف کیلو میٹر کی دوری پر موجود تھا،ہمارے اس شاگرد یعنی عزیزی حافظ نفیس اختر سلمہ نے اس مختصر سے وقت میں جس عجلت اور چابک دستی کے ساتھ دسترخوان کو سجایا اسے اس کی اپنے اساتذہ کے تئیں محبت کی بھرپور نشانی ہی کہی جا سکتی ہے،اس دسترخوان کو آپ خوانِ الوان بھی کہہ سکتے ہیں،جس میں دعوت و ضیافت کے جملہ لوازمات موجود تھے،پردیسی مسافروں کو اس سے بڑھ کر اور کچھ چاہیے بھی نہیں،خودغرضی اور نفسا نفسی کے اس دور میں بہت کم لوگ ایسے خلوص و سخاوت کی تصویر ہوتے ہیں جو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مہمانوں کو اپنے گھر بلاتے ہیں،ورنہ فی زمانہ عام طور پر لوگ اپنے مہمانوں اور متعلقین کو دیکھ کر گھروں میں جا دبکتے ہیں کہ کہیں نظر نہ پڑجائے اور خواہ مخواہ کی مصیبت گلے کا طوق بن جائے،ایسے میں عزیزی نفیس کی وہ خلوص اور سادگی بھری دعوت ہمارے لئے کسی دعوتِ شیراز سے کم نہ تھی،اور یہ دعوت شاید اتنی شاندار انداز میں نبھائی نہ جاتی اگر عزیزی نفیس کا ہاتھ بٹانے کے لئے عزیزی حافظ یسین سلمہ کی موجودگی نہ ہوتی،آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دعوت گرچہ نفیس کی تھی مگر اس میں نفاستی رنگ بھرنے کا کام عزیزی یسین سلمہ نے کیا،نیز اس کے گھر والوں نے جس فراخ دلی، کشادہ قلبی اور وسعتِ ظرفی کا مظاہرہ کیا اس کے لئے بطور خاص وہ بھی ہماری ادائیگئ شکر کے مستحق ہیں، فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔
عشائیہ کے بعد اب ہم تازہ دم ہو چکے تھے،مسجدوں کے منارے اللہ اکبر کے روح پرور نغمے الاپ رہے تھے، تاہم ابھی ہمارے کاروانِ شوق کے آگے دومنزلیں اور تھیں،جن کی دید سے ہمیں اپنے قلب و جگر کو سرور بخشنا تھا،پہلی منزل وہاں سے تقریبا سات آٹھ کیلو میٹر آگے کی دوری پر بنیاٹول نامی گاؤں میں واقع ایک دینی اور منفرد ادارہ تھی جبکہ دوسری اور آخری منزل واپسی پر جامعہ حسینیہ مدنی نگر فرینگورا کشن گنج کی زیارت تھی۔
چند منٹوں میں ہماری تیز رفتار گاڑی نے سات آٹھ کیلو میٹر کے سفر کو طے کرلیا اور ہم بنیاٹول کے اس نامی اور شہرۂ روزگار ادارے کے صدر گیٹ پر جا پہونچے،یہ ادارہ جس کے صدر دروازے پر ہم اس وقت کھڑے تھے ان اداروں میں سے ایک تھا جو نام و نمود سے پاک مکمل اخلاص اور گمنامی کے ساتھ اپنا کام سر انجام دیتے ہیں مگر ان کے کام کی نوعیت،نظامِ تعلیم اور طریقۂ تربیت ان کو معروفِ دوراں بنا دیتے ہیں،کشن گنج کو مغربی بنگال سے ملاتی پختہ اور چلنسار سڑک کے کنارے واقع بنیاٹول نامی گاؤں کی آب و ہوا خالص بدویانہ اور ٹھیٹھ دیہاتانہ ہے،ہمیں راہ چلتے ہوئے اس گاؤں کی اندرونی سڑکوں پر ڈھور ڈنگروں کی کثیر تعداد کھنٹیوں میں بندھی ہوئی نظر آئی،بستی سے باہر نگاہ دوڑائیے تو وہی دھان کے کھیت،آم اور چائے کے باغات لہلہاتے نظر آتے ہیں،ان کے علاوہ مزید کوئی ایسی خصوصیت اس گاؤں کی ہمیں نظر نہیں آئی جو اسے دوسرے گاؤں کے بالمقابل انفرادی وقعت عطا کرے سوائے اس ادارے کے جس کی حیثیت اس گاؤں میں کانٹوں کے بیچ گلاب اور کیکر کے درمیان خوبصورت اور شگفتہ پھول کی ہے،جونہی ہم مدرسہ کے احاطے میں قدم رنجہ ہوئے ہماری نگاہیں دارالاقامہ کی خوبصورت اور حسین عمارت اور عمارت کے بیچ فن تعمیر کی داد وصول کرتی دیدہ زیب اور منقش مسجد سے جا ٹکرائیں، اُس خوبصورت اور دیدہ زیب منظر کو دیکھ کر بےساختہ ہمارے ایک رفیق کی زبان سے نکلا ”اسے کہتے ہیں صحرا کے بیچ کا گلستاں“میں نے اس پر مزید گرہ بندی کرتے ہوئے کہا: اسے آپ ریگستان کا نخلستان بھی کہہ سکتے ہیں“۔
مدرسے کا محل وقوع ہے بھی نہایت شاندار اور دلآویز،گاؤں کے آخری سرے پر واقع ادارے کا حسن اور اس کی خوبصورتی باہر سے اتنی معلوم نہیں ہوتی،بس ایک ٹاور پر چند بھیپر لائٹس اپنی تیز شعاعوں کے ساتھ جلتے نظر آتی ہیں،مگر آپ جونہی صدر دروازے سے اندر قدم رکھیں گے تو اولِ وہلہ میں آپ کو یہ احساس ہوگا کہ جیسے کسی نے دھوپ کی پریشان کُن تمازت سے اٹھا کر کسی فرحت بخش سائے میں پہنچا دیا ہو،صدر گیٹ سے لیکر مسجد سے کچھ فاصلے تک بڑی خوبصورتی اور سلیقہ مندی کے ساتھ سرو کے دو رویے لانبے درخت لگائے گئے ہیں،جس کی بائیں روش میں بچوں کے کھیل کے لئے والی بال کا انتظام ہے جبکہ دائیں روش کی سرحد پر فی الحال بڑے قرینے سے ٹین کا ڈائننگ ہال بنا ہوا ہے،جس میں طلبہ کھانا کھاتے ہیں،اور سامنے کی جانب نگاہ اٹھائیں تو مدرسے کی شاندار اور دیدہ زیب عمارت ہر آنے والے کے استقبال کو کھڑی ہے، دوطرفہ عمارت کے بیچ مسجد کے خوبصورت اضافے نے اس منظر کے آب و رنگ کو مزید نکھار دیا ہے۔
یہ ادارہ سرزمین اتر دیناجپور بنگال کی ایک نئی دریافت ہے،اس کی بنیاد مارچ ٢٠١٧ء کو رکھی گئی،اس ادارے کے خمیر کو ایسے منفرد طریقۂ تعلیم،نرالی تربیت اور مستحکم نظام کاری سے گندھا گیا ہے کہ ادارے نے دیکھتے ہی دیکھتے تعلیم و تربیت کے اوج پر کمندیں ڈال دی،مزید برآں اساتذۂ کرام کی جاں گسل محنت،مہتمم اور منتظمین کے قابلِ قدر خیالات و افکار نے اس کی قوتِ نمو میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا ہے،ڈیڑھ دو سال کے عرصے میں ہی اس کا شہرہ دور دراز علاقوں میں پھیل گیا، آج صرف اتر دیناجپور ہی نہیں بلکہ دوسرے ضلعوں بالخصوص ضلع کشن گنج کی بہت سی قد آور ہستیوں (حضرت اقدس الحاج مفتی جسیم اختر صاحب قاسمی،جنرل سکریٹری جمعیة علماء کشن گنج و استاذ دارالعلوم بہادرگنج،حضرت مولانا عاصم صاحب سرائے کوڑی،حضرت مفتی ابصار عالم صاحب قاسمی حضرت مولانا مسعود عالم صاحب پھول گاچھی،مدرسین مدرسہ بدرالعلوم پھول گاچھی)کی اولادیں وہاں زیر تعلیم ہیں۔(ان تمام حضرات سے بھی اس رات وہاں اتفاقیہ ملاقات ہوگئی،یہ حضرات اپنے اپنے بچوں کو چھوڑنے کے لئے وہاں پہنچے ہوئے تھے)
ویسے تو یہ ادارہ بھی عام اداروں ہی کی طرح ہے جس کے چشمۂ فیض سے دو سے ڈھائی سو طالبانِ علوم نبوت سیراب ہو رہے ہیں مگر اس ادارے کے کچھ ایسے مستحکم اصول اور منظم قوانین ہیں جو اس ادارے کو دیگر اداروں سے امتیاز و انفراد عطا کرتے ہیں،یہ اس ادارے کے اصول و ضوابط بندی کا ہی ثمرہ ہے کہ اس کا ہر غنچہ خورشیدِ جہاں بن کر افق پر چمکتا ہے،اس ادارے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ادارہ اشتہار بازی اور فارورڈ کی دنیا سے کامل مجتنب رہتا ہے،جیسا کہ بعد میں ادارے کے بانی و مہتمم حضرت مفتی تنویر احمد صاحب قاسمی نے اپنے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ: ہم داخلے کے لئے نہ کوئی اعلان نکالتے ہیں اور نہ ہی اشتہار بازی کا سہارا لیتے ہیں،بلکہ اِس سلسلے میں ہمارا طریقۂ کار یہ ہوتا ہے کہ جس دن ہمیں داخلہ لینا ہوتا ہے اس سے ٹھیک چار مہینے پہلے ہم میٹنگ کے ذریعے داخلے کی تاریخ طے کر لیتے ہیں،اور خواہش مندوں کے فون آنے پر انہیں منہ ہی منہ اس تاریخ کی اطلاع دے دیتے ہیں،اور داخلہ کی کارروائی صرف دو دن چلتی ہے،اب ان دو دنوں میں جو لوگ اپنے بچوں کو لیکر پہنچ جاتے ہیں امتحان کے ذریعے بس انہی کے بچوں کا داخلہ ہوتا ہے،بعد میں آنے والوں کو ایک سال تک انتظار کی زحمت اٹھانی پڑتی ہے۔بحمداللہ انہی دو دنوں میں طلبہ کی اتنی تعداد اکٹھی ہو جاتی ہے کہ بہت سوں کے آگے ہمیں ہاتھ جوڑنے تک کی نوبت پہنچ جاتی ہے“۔
”داخلہ لیتے وقت طالب کی عمر کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے، وہ یہ کہ بچے کی عمر آٹھ اور نو سال سے زیادہ کی نہ ہو“،انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید آگہی بخشی کہ” ہمارے یہاں داخلہ یا تو نورانی قاعدہ میں ہوتا ہے یا فارسی میں،یعنی اگر کوئی بچہ حفظ میں داخلہ لینے آئے یا عربی اول یا اس سے اوپر کی جماعت میں تو ہم ان کا داخلہ نہیں لیتے“،ہمارے اس سوال پر کہ”ابھی ادارے میں کہاں تک تعلیم ہے؟“ آپ نے جواب دیا کہ: ابھی ادارے میں ناظرہ اور حفظ کے ساتھ فارسی اور عربی اول کی جماعت کے طلبہ ہیں،عربی دوم کی جماعت اس لئے نہ بن سکی کہ سالِ گزشتہ ہمارے یہاں عربی اول کی جماعت میں چار طلبہ تھے،ان چاروں طلبہ نے ام المدارس دارالعلوم دیوبند میں قسمت آزمائی کے لئے اپنی خواہش کا اظہار کیا،ہم نے اِس قید کے ساتھ اجازت دی کہ اگر وہاں داخلہ نہ ہو تو پھر یہیں واپس آنا ہے، اس پر طلبہ نے رضامندی کا اظہار کیا مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ان چاروں طلبہ کا دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ہوگیا “ گویا ع۔۔۔ ایں خانہ ہمہ آفتاب است
مہتمم صاحب کے اس انکشاف سے بےاختیار ہماری زبانوں سے ” سبحان اللہ اور ماشاء اللہ“کے فوارے چھوٹ پڑے،ہم مارے استعجاب کے ایک دوسرے کے منہ تکنے لگے،بےیقینی کی ایک رَو ہمارے بدن میں سرایت کر گئی مگر یقین نہ کرنے کا کوئی جواز بھی تو ہمارے سامنے نہ تھا، اگر یہی کارنامہ کسی دوسرے ادارے کے طلبہ انجام دئے ہوتے تو نہ جانے کتنے جشن منائے جاتے،کتنی اشتہار بازیاں ہوتیں،مگر قربان اخلاص کے اُس جبلِ عظیم پر کہ اتنی اہم خبر دیتے وقت بھی ان کے چہرے پر فخر و مباہات کی ہلکی سی لکیر بھی ہمیں نظر نہ آئی۔
ان کے علاوہ ادارے کی اور بھی بہت سی خصوصیات و امتیازات ہیں،مثلاً:آغازِ دن سے ہی وہاں یہ ضابطہ ہے کہ ہر دو مہینے میں طلبہ کی چار دنوں کی چھٹی ہوتی ہے،اس بیچ آمد و رفت کا سلسلہ بالکل موقوف رہتا ہے،اور دو مہینے کے بعد جن چار دنوں کی چھٹی ہوتی ہے ان کے آخری دن ہر طالب علم کا مدرسہ پہونچنا سخت ضروری ہوتا ہے،ورنہ بلا کسی امتیاز کے سخت کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی گارجین حضرات کو اس کی پاسداری کرنی پڑتی ہے۔
اُس دن بھی دو ماہی رخصت پوری ہو رہی تھی،رات گئے تک طلبہ کی آمد کا سلسلہ جاری تھا،ہم جب مدرسے کے احاطے میں داخل ہوئے عشاء کی جماعت تیار کھڑی تھی،ہم نے جلدا جلدی وضو کیا اور جماعت میں شریک ہوگئے،نماز میں امام صاحب کی بےتصنع اور سادگی بھری قرأت آج بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے،نماز کے بعد ہمارا قافلہ حضرت مولانا مسعود صاحب قاسمی پھول گاچھی کی معیت میں دفتر میں داخل ہوا، وہاں حضرت مہتمم صاحب سے کافی یادگار گفتگو ہوئی اور بہت سی نئی باتیں علم میں آئیں،جی تو چاہ رہا تھا کہ ہماری وہ مجلس دراز سے دراز تر ہو،مگر وقت کافی ہو چکا تھا اور ہمارے سامنے ایک منزل کی زیارت ابھی باقی تھی،سو نہ چاہتے ہوئے بھی ہم وہاں سے اٹھے اور خوشی و حیرانی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ اس دینی اور مثالی گہوارۂ علم پر الوداعی نظریں ڈالتے ہوئے اس حال میں اپنی راہ پر ہولئے کہ ہمارے ہونٹوں کے ابھار پر یہ دعائیہ شعر آکر مچل رہا تھا اور ہم اس کی تانوں میں کھوئے تھے کہ:
؎ ناز کرتا ہے زمانہ ناز کو بھی ناز ہے
تم بلندی پر رہو دل کی یہی آواز ہے