Slide
Slide
Slide

یہ جینا بھی کوئی جینا ہے…!

یہ جینا بھی کوئی جینا ہے…!

✍️ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، حیدرآباد

_____________________

ہم نے اپنے اپنے طریقہ سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن منایا۔ یہ بحث تو صدیوں سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی کہ آیا میلادالنبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا جشن بدعت ہے یا نہیں!
عشق رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میں سرشار بعض حضرات نے عید کی نماز بھی باجماعت ادا کرلی۔ تاریخی مکہ مسجد میں خطبہ دیا گیا۔ ویسے حضرت مولانا عبداللہ قریشی الازہری بھی خطبہ میلاد فرمایا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے دور میں خطبہ اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نماز ادا ہوتی تھی یا نہیں‘ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ بانی جامعہ نظامیہ حضرت انواراللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی روایت شروع کی تھی۔ اس معاملہ میں کچھ اور کہہ کر لکھ کر ہم ملی انتشار کا سبب بننا نہیں چاہتے۔ اب اس پر بھی بحث غیر ضروری ہے کہ میلاد مبارک یا سالگرہ مبارک کے موقع پر کیک کاٹا جائے یا نہیں۔ کیک پر مقدس نام لکھ کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کیا جانا چاہئے یا نہیں… ڈی جے کی دھنوں پر زنخوں کی طرح رقص کرنے سے کیا بے ادبی نہیں ہوتی… ہاں ہم نے دل و جان سے ان کی تعریف کی‘ انہیں خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے میلاد مبارک کے موقع پر بلکہ ماہ ربیع الاول کے آغاز سے 12ربیع الاول تک سیرت النبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے واقف کروانے کے لئے محافل سیرت کا اہتمام کیا۔ طلبہ کے لئے تحریری، تقریری اور کوئز مقابلوں کا اہتمام کیا۔ ان کے لئے انعامات دینے کا اعلان کیا۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے یوم ولادت کے موقع پر انسانیت نوازی کے مظاہرے کئے، غرباء مساکین کیلئے طعام کا اہتمام کیا۔ ہاسپٹلس میں مریضوں کی عیادت کرتے ہوئے ان میں پھل تقسیم کئے۔ بلڈ ڈونیشن کیمپس کا اہتمام کیا اور دیگر برادرانِ وطن کو اپنے ساتھ لے کر فلاحی کام کئے۔
اتفاق کی بات ہے کہ گنیش تیوہار (وسرجن) اور میلادالنبی کی تاریخیں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ اگلے دوسال تک ستمبر ہی میں میلادالنبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہوگی۔ جبکہ گنیش تیوہار ہر سال ستمبر ہی میں منایا جاتا ہے۔ لگ بھگ دو دہائی قبل بھی ایسے ہی حالات تھے۔ تب بھی جلسہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے منتظمین نے فراخ دلی اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جشن کی تاریخ آگے بڑھا دی تھی۔ اس سال بھی ایسا ہی ہوا۔ میلاد جلوس اور جلسوں کے منتظمین کی رواداری کی ہر شعبہ حیات سے ستائش کی گئی۔
مسلمانوں کی رواداری کا جواب ویسا ہی ملنا چاہئے۔ اس مرتبہ تو خیر گنیش جلوس اور جلسوں کی تاریخ میں ٹکراؤ تھا۔ مگر ہمیشہ یہ دیکھ کر ذہنی کوفت بھی ہوتی ہے اور سرشرم سے جھک جاتا ہے کہ شہر کی مساجد کو باحجاب کردیا جاتا ہے۔ یعنی انہیں شامیانوں یا چادروں سے ڈھک دیا جاتا ہے تاکہ لاکھوں کے جلوس میں شامل مٹھی بھر اشرار کوئی فتنہ پیدا نہ کریں۔ یہ سچ ہے کہ آج کل کے حالات سازگار نہیں ہیں۔ مگر جب امن و امان تھا تب بھی مساجد کو ڈھانک دینے کا سلسلہ جاری تھا۔ پولیس بندوبست کے باوجود آخر مٹھی پھر اشرار کی ہمت کیسے ہوسکتی ہے۔
بی جے پی 2014ء سے ہے‘ ان دس برسوں میں فرقہ پرستی‘ نفرت دشمنی انتہا پر پہنچ گئی۔ ٹرینوں میں حملے ہورہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک خبر سوشیل میڈیا پر عام ہوئی جس کی تصدیق نہیں ہوئی کہ ایک تبلیغی جماعت کے کارکن کو چلتی ٹرین سے پھینک دیا گیا۔ کچھ دن پہلے کلیان جانے والی ٹرین میں ایک 72سالہ شخص کو حرامی النسل سے تعلق رکھنے والے گمراہ نوجوانوں نے زدوکوب کرکے زخمی کردیا تھا۔ ان کی ایک آنکھ کی بینائی متاثر ہونے کی اطلاع بھی ہے۔ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں جو کچھ ہورہا ہے اسے فرقہ پرست سیاست دانوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ آسام کے چیف منسٹر کی زہر آلود بیان۔ آئی اے ایس آفیسر کی جانب سے مسلم گھرانوں کو مسمار کرنے کی دھمکی بلکہ اس کے ناپاک عزائم نے ہمارے ملک کو ساری دنیا میں رسوا کرکے رکھ دیا ہے۔ مسلم ممالک ہماری اعلیٰ قیادت کو اپنے ملک کا سب سے باوقار اعزاز سے نواز رہے ہیں اور ہمارے سیاست دان ان کے جذبہ خیر سگالی کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ چوں کہ انٹرنیٹ اور سوشیل میڈیا کی وجہ سے ساری دنیا ایک موبائل اسکرین میں سمٹ گئی ہے۔ اس ہئے ہماری پل پل کی خبریں ویڈیوز ہم سے پہلے دنیا والوں تک پہنچ رہے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اس کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند ہورہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایران کے روحانی پیشوا علامہ خامنہ ای نے ہندوستانی مسلمانوں کی حالت پر بیان جاری کیا۔ جس کی مذمت ہندوستانی وزارت خارجہ نے کی ہے۔ ہمیں اس بیان سے کوئی لینا دینا نہیں‘ یہ سفارتی سطح کے معاملات ہیں۔
خلیجی ممالک کے جو حالات ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ان کے پاس بھی انسانی حقوق کا تحفظ نہیں ہے۔ بہرحال! جہاں تک ہندوستانی مسلمانوں کا تعلق ہے‘ موجودہ حکومت اپنی مسلم دشمنی کی انتہا پر ہے۔ اور اس کے ذمہ دار خود ہم مسلمان بھی ہیں کیوں کہ ہم نے کبھی انہیں اپنی تعداد اور طاقت کا احساس نہیں دلایا۔ الیکشن میں مسلم اکثریتی آبادی والے حلقوں سے مسلم دشمن امیدوار سینہ ٹھونک کر جیت جاتے ہیں۔ ایوان پارلیمان میں بیرسٹر ا سدالدین اویسی آواز اٹھارہے ہیں‘ کبھی کبھار عمران پرتاب گڑھی بھی آواز بلند کرتے ہیں۔ اپوزیشن رسمی طور پر آواز اٹھاتی ہے مگر اس کی آواز میں ابھی وہ دَم نہیں ہے۔ موجودہ مرکزی حکومت کے خوف کو ہم نے Covid-19 کی طرح ذہنوں پر مسلط کرلیا ہے۔ اور پہلے ہی سے ہم ذہنی طور پر تیار رہتے ہیں کہ حکومت کے ہر مسلم مخالفت فیصلے کو رسمی احتجاج کے بعد قبول کرلیں۔ یا پھر اپنی بلا عدالت پر ڈال دیں۔ یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ عدالتوں کے فیصلے کیا ہوسکتے ہیں۔ سومقدمات میں سے ایک فیصلہ آپ کے حق میں آجاتا ہے اور 99فیصلے خلاف میں‘ ہم اسی ایک فیصلے پر خوش بھی ہوتے ہیں اور خود کو تسلی بھی دے لیتے ہیں۔
مسلم قائدین‘ مسلم جماعتیں جب بھی آواز دیتی ہیں‘ مسلمان لبیک کہتے ہیں۔ مگر یہ جماعتیں اورتنظیمیں اپنی طاقت کے مظاہرے کے بعد اپنے مفادات کی تکمیل کرلیتی ہیں اور بے چارہ عام مسلمان اسے سمجھ نہیں پاتا۔
خیر بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں پہنچ گئی۔ شاید میں موضوع سے بھٹک گیا ہوں۔ میں کہہ اور لکھ یہی رہا تھا کہ جب کبھی ہندو تیوہار کے موقع پر جلوس نکالے جاتے ہیں‘وہ گنیش جلوس ہو یا ہنومان جینتی کا جلوس‘ مساجد اور آستانوں پر غلاف چڑھادیئے جاتے ہیں۔ آخر کیوں؟ ہم اپنی مساجد کی حفاظت نہیں کرسکتے۔ پولیس فورس کس لئے ہوتی ہے۔ جس طرح میلاد جلوس کے منتظمین کو پہلے سے رہنمایانہ اصولوں اور خطوط سے واقف کروادیا جاتا ہے‘ گنیش منڈپوں کے محلہ واری ذمہ داروں کو بھی پابند کیا جاسکتا ہے۔ کسی ناخوشگوار واقعہ کے لئے انہیں قانونی شکنجہ میں لینے کی وارننگ دی جاسکتی ہے۔ کس محلہ میں کون شرپسند ہے‘ پولیس بھی اس سے واقف رہتی ہے اور مقامی افراد بھی۔ شرپسند سیاست دانوں کو بھی وارننگ دی جاسکتی ہے۔ حالیہ انتخابات کے دوران ایک گھٹیا قسم کی خاتون امیدوار نے مسجدکی طرف شرانگیز اشارے کئے تھے‘ عوام نے اسے ٹھوکر ماردی۔
دوسری ریاستوں اور شہروں کے بارے میں نہیں بلکہ اپنے شہر حیدرآباد کی بات کررہا ہوں۔ آج بھی اس شہر کی اکثریت سیکولر ہے۔ مسلمانوں کی آبادی زبردست ہے۔ یہاں ہماری سیاسی طاقت بھی ہے‘ جو اقتدار میں نہیں ہیں‘ ان کی اپنی طاقت بھی ہے‘ مجموعی طور پر حیدرآبادی مسلمانوں کی طاقت اور تعداد پر رشک کیا جاسکتا ہے۔ ہماری پولیس فورس دوسری ریاستوں کی طرح فرقہ پرست نہیں‘ خاص طور پر حیدرآباد کی۔چند ایک واقعات ہمارے خلاف ضرور پیش ہیں۔ اگرچہ ہندوتوا نے پولیس فورس کے ذہنوں کو بھی زہر آلود کردیا ہے‘ اس کے باوجود تلنگانہ کے اعلیٰ پولیس عہدہ دار لاکھ درجہ بہتر ہیں۔
ہم مسلمان پولیس کا تعاون کرسکتے ہیں‘ تیوہاروں کے موقع پر اپنی مساجد کی حفاظت کے لئے رضاکارانہ خدمات کی پیش کش کرسکتے ہیں۔ شہر میں سینکڑوں Gymsہیں‘ جہاں سے ہزاروں کی تعداد میں گوشت کے پہاڑ نکلتے ہیں۔ تعلیم خانوں کی بھی کمی نہیں‘ باڈی بلڈرس اور پہلوان حضرات آخر قوم کے کام کب آئیں گے۔ جب ہم زمینات کی رکھوالی جان کی پرواہ کئے بغیر کرسکتے ہیں تو اللہ کے گھر کی حفاظت‘ اپنے ملی تشخص، وقار کا تحفظ کیوں نہیں کرسکتے۔ ہر مسجد کی حفاظت کے لئے دس دس صحت مند نوجوان پولیس جوانوں کے ساتھ تعینات کئے جائیں تو ماحول خوشگوار اور امن و امان کے لئے سازگار ہوسکتا ہے۔ جب مساجد پر غلاف چڑھا دیا جاتا ہے اور نفسیاتی خوف کے مارے جلوس کے دوران مسلمان مساجد سے دور رہتے ہیں تو پھر شرپسندوں کی ہمت بڑھ جاتی ہے۔ جس طرح ایک کانسٹبل نہ ہونے پر اچھے خاصے تعلیم یافتہ مہذب افراد بھی ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کرتے ہیں‘ اسی طرح مساجد کے پاس مسلمانوں کو نہ دیکھ کر گلال پھینکا جاتا ہے‘ نعرے لگائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات زعفرانی پرچم بھی لگادیئے جاتے ہیں۔
ہماری قیادت کو اس بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ یہ عام مسلمانوں کی نہیں ہماری قیادت کی بھی کمزوری سمجھی جائے گی۔ ہماری مذہبی اور سیاسی قیادت کی ولولہ انگیز تقاریر سے ہمارا جوش ولولہ سوڈا واٹر کی طرح اُبلتا ہے اور جو کچھ دیر میں ختم ہوجاتا ہے۔
ہماری قیادت قانون کے دائرہ میں رہ کر ہمارے حوصلے بڑھائے۔ ہم نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی میلاد کا جشن منایا، ان سے محبت‘ عقیدت کا اظہار کیا۔ مگر اصل محبت کا اظہار تو تب ہوگا جب ہم آپ کے حقیقی معنوں میں امتی ہونے کا ثبوت دیں گے۔ آپ محسن انسانیت ہیں‘ آپ نے پہلوانی بھی فرمائی‘ شہسواری بھی کی، شمشیر زنی اور ہر اس فن میں مہارت حاصل کی جو دشمن کو زیر کرنے کے لئے ضروری تھی۔ جو حضرات میلاد جلوس کا اہتمام کرتے ہیں‘ ان سے بھی ہماری یہی التجا ہے کہ ان نوجوانوں کی صلاحیتوں اور توانائیوں کو ملی اتحاد اور مساجد کے تحفظ کے لئے استعمال کریں۔ نوجوانوں کو صحت مند بنائیں تاکہ وہ خود کی‘ اپنے اہل خاندان کی اور اس ملک کی حفاظت کرنے کے اہل ہوسکیں۔

Covid میں مساجد پر تالے لگادیئے گئے تھے‘ پولیس کے پہرے تھے، تب ہمارا ایمان تازہ ہوگیا تھا۔ چھپ چھپ کر مساجد میں نماز پڑھ رہے تھے۔ اور جنہیں اس کا موقع نہیں مل پارہا تھا وہ خون کے آنسو رو رہے تھے۔ مساجد کی حفاظت تو اسی وقت ممکن ہے جب یہ پانچوں وقت آباد رہیں۔ کم آبادی کی وجہ سے اگر بعض مساجد میں مصلیوں کی تعداد کم ہے تو ان حالات میں پولیس کی اجازت سے والینٹرس ان علاقوں کی مساجد کی حفاظت کے لئے خدمات کا پیشکش کرسکتے ہیں۔

مساجد پر غلاف دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔ دل کے اندر سے آواز آتی ہے… لعنت ہے ایسی بزدلی، نامردی کی زندگی پر… یہ جینا بھی کوئی جینا ہے…!

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: