کشن گنج ضلع میں نالج سٹی کا قیام: وقت کی اہم ضرورت
کشن گنج ضلع میں نالج سٹی کا قیام: وقت کی اہم ضرورت
✍️ محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال
________________
ضلع کشن گنج بلکہ پورے سیمانچل اور ضلع اتر دیناج پور اور اطراف کے علاقوں کے لیے ایک نیا تعلیمی خواب حقیقت کا روپ دھارنے جا رہا ہے۔ یہ خواب ماہر فکر و قلم ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی کا ذہنی اختراع ہے، جنہوں نے کشن گنج سے چند ہی کلومیٹر کے فاصلے پر دولہ کے مقام پر نالج سٹی کے قیام کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس منصوبے میں امام احمد رضا یونیورسٹی کا قیام بھی شامل ہے، جو مجدد اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے موسوم ہوگی۔ اب تک اس نیک مقصد کے لیے 8 ایکڑ زمین خریدی جا چکی ہے اور تعمیری کام برسات کے بعد شروع ہونے جا رہا ہے۔ ڈاکٹر جابر صاحب کا عزم ہے کہ مزید 100 بیگھہ زمین خریدی جائے گی تاکہ ایک مکمل تعلیمی شہر تعمیر کیا جا سکے۔
یہ اقدام انتہائی خوش آئند ہے، کیونکہ سیمانچل اور اتر دیناج پور جیسے علاقے تعلیمی میدان میں پسماندگی کا شکار ہیں۔ اگرچہ یہ علاقے مسلم اکثریتی ہیں، لیکن یہاں کے مسلمانوں کی تعلیمی حالت نہایت ابتر ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق سیمانچل کے اضلاع کشن گنج، ارریہ، پورنیہ، اور کٹیہار میں مسلمانوں کی تعلیمی شرح انتہائی کم ہے۔ خاص طور پر کشن گنج میں مسلمانوں کی خواندگی کی شرح 47 فیصد سے بھی کم ہے، جو کہ قومی اوسط سے بہت پیچھے ہے۔ ضلع اتر دیناج پور میں بھی تعلیمی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت دیہی علاقوں میں بستی ہے اور بنیادی تعلیمی سہولیات سے محروم ہے۔
تعلیمی پسماندگی کی یہ تاریک تصویر ہم سے سوال کرتی ہے: کیا ہم اس پسماندگی سے نکلنے کے لیے کچھ کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے علم کی شمع کو روشن کرنے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا ہے؟ اس تناظر میں نالج سٹی کا قیام ایک نیا انقلاب ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں ہوگا، بلکہ ایک تحریک ہوگی جو سیمانچل اور اتر دیناج پور کے مسلمانوں کو علمی ترقی کی راہ پر گامزن کرے گی۔
امام احمد رضا یونیورسٹی کا قیام ایک خواب سے بڑھ کر حقیقت کی طرف پہلا قدم ہے۔ ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی کا یہ خواب دراصل ہماری آئندہ نسلوں کے مستقبل کو روشن کرنے کی کاوش ہے۔ اس یونیورسٹی میں اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی تعلیم بھی دی جائے گی تاکہ طلباء دنیاوی اور دینی تعلیم کے ساتھ بہترین معاشرتی و دینی کردار ادا کر سکیں۔
ایسے اداروں کی شدید ضرورت اس لیے ہے کہ یہ علاقے نہ صرف تعلیمی میدان میں پیچھے ہیں بلکہ غربت، بے روزگاری، اور سماجی مسائل کا بھی شکار ہیں۔ علم ہی وہ ہتھیار ہے جو ان مسائل کا حل پیش کر سکتا ہے۔ جب یہاں کے بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں گے تو وہ اپنے خاندانوں، معاشروں اور ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس حوالے سے صرف ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی کی کاوشیں ہی کافی ہیں؟ یقیناً نہیں۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس عظیم تعلیمی کاز میں حصہ لیں۔ اہل خیر حضرات، علم دوست افراد اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ استطاعت بھر اس منصوبے میں مالی اور اخلاقی تعاون کریں۔ یہ ادارہ صرف سیمانچل یا اتر دیناج پور کے مسلمانوں کا نہیں، بلکہ پورے ملک کی ملت اسلامیہ کا ادارہ ہوگا، جو ہر ایک کے لیے فخر کا باعث بنے گا۔
آئیں! ہم سب اس تعلیمی انقلاب کا حصہ بنیں، تاکہ سیمانچل اور اتر دیناج پور کے بچے بھی علم کی روشنی سے منور ہوں اور ایک روشن مستقبل کی جانب قدم بڑھا سکیں۔ علم کی شمع روشن کرنے میں جو بھی قدم اٹھایا جائے گا، وہ نہ صرف ہماری دنیوی فلاح کا باعث بنے گا بلکہ آخرت میں بھی اجر عظیم کا ذریعہ ہوگا۔