Slide
Slide
Slide

وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں جارج سوروس کے تنقیدی بیانات

وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں جارج سوروس کے تنقیدی بیانات

✍️ محمد شہباز عالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی

کوچ بہار، مغربی بنگال

____________________

جارج سوروس کون ہیں؟

جارج سوروس ایک مشہور ہنگری نژاد امریکی فلسفی، سیاسی ایکٹیویسٹ، بزنس مین اور سرمایہ کار ہیں، جنہوں نے عالمی مالیاتی نظام میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان کی "اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن” (Open Society Foundation) دنیا بھر میں انسانی حقوق، جمہوریت، اور آزاد میڈیا کی حمایت کے لیے کام کرتی ہے۔ لیکن ان کا اثر و رسوخ صرف فلاحی کاموں تک محدود نہیں ہے، وہ سیاسی میدان میں بھی اپنی رائے اور نظریات کے ذریعے مختلف حکومتوں اور رہنماؤں پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ سوروس، بنیادی طور پر، قوم پرستی، آمرانہ طرز حکومت، اور سخت گیر پالیسیوں کے ناقد ہیں، اور وہ ایسے رہنماؤں کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں جو ان کے مطابق جمہوریت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

نریندر مودی اور سوروس کی تنقید:

نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی حکومت کو جارج سوروس نے کئی مرتبہ نشانہ بنایا ہے۔ خاص طور پر 2020 کے بعد سے، جب سوروس نے مودی کی حکومت پر کھل کر تنقید کی۔ سوروس کا ماننا ہے کہ مودی کی پالیسیاں بھارت میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ان کی تنقید کا محور زیادہ تر مودی کے ہندو قوم پرست ایجنڈے، مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک، اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے جیسے اقدامات پر رہا ہے۔

سوروس کے مطابق، مودی کی حکومت کا رجحان جمہوریت کو کمزور کرنے کی طرف ہے، اور وہ بھارت کو ایک ایسی قوم کی طرف دھکیل رہے ہیں جہاں فرد کی آزادیوں پر قدغن لگائی جا رہی ہے اور اقلیتوں کے حقوق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ سوروس نے 2020 میں ایک عالمی فورم کے دوران مودی کی حکومت کو "آمرانہ” قرار دیا اور کہا کہ بھارت میں جمہوریت کا مستقبل خطرے میں ہے۔

سوروس کے خدشات:

سوروس نے مودی کی حکومت کو سماجی تقسیم بڑھانے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان کے مطابق، بھارت جیسے متنوع ملک میں ایسی پالیسیاں اپنانا جن سے اکثریتی طبقے کو تقویت ملے اور اقلیتوں کو نظر انداز کیا جائے، سماجی ہم آہنگی کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ سوروس کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی پالیسیاں معاشرتی تفریق کو فروغ دیتی ہیں اور اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں، کو معاشرتی، اقتصادی، اور سیاسی سطح پر الگ تھلگ کرتی ہیں۔

1. کشمیر اور شہریت ترمیمی قانون (CAA) پر تنقید:

مودی حکومت کے تحت بھارت نے 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی، جو سوروس اور دیگر بین الاقوامی ناقدین کے مطابق جمہوری اصولوں کے خلاف تھا۔ سوروس کا ماننا ہے کہ اس اقدام سے کشمیری عوام کے حقوق سلب کیے گئے اور ان کی آزادی محدود ہو گئی۔

اسی طرح شہریت ترمیمی قانون (CAA) کے تحت بھارت میں پناہ گزینوں کو شہریت دینے کے قوانین میں تبدیلی کی گئی، جسے سوروس نے مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ قرار دیا۔ سوروس کے مطابق، یہ قانون ایک خاص مذہبی گروہ کے خلاف بھید بھاؤ کو فروغ دیتا ہے اور بھارت میں مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ سوروس کا کہنا ہے کہ یہ قانون بھارت کی سیکولر شناخت کے خلاف ہے اور مسلمانوں کو جان بوجھ کر اس میں شامل نہ کرکے ان کے ساتھ تفریق برتی گئی ہے۔ اس قانون نے بھارت بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاجات کو جنم دیا، اور سوروس کے مطابق، مودی حکومت نے ان مظاہروں کو دبا کر جمہوری اصولوں کی پامالی کی۔

2. ہندو قوم پرستی کا فروغ:

سوروس کا خیال ہے کہ مودی کی حکومت نے بھارت میں ہندو قوم پرستی کو فروغ دیا ہے، جس کے نتیجے میں مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو دباؤ میں لایا جا رہا ہے۔ بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کی حمایت یافتہ تنظیمیں اور گروہ کھلے عام ہندو برتری کا پرچار کرتے ہیں، اور مودی حکومت کی خاموشی یا ناکافی ردعمل ان اقدامات کی توثیق سمجھا جاتا ہے۔ سوروس کے مطابق، مودی نے ایک ایسے ماحول کو جنم دیا ہے جہاں مذہبی تفریق اور تشدد کو ہوا دی جا رہی ہے، اور حکومت کی پالیسیوں نے ان عناصر کو مزید تقویت دی ہے۔

3. اظہار رائے کی آزادی پر قدغن:

سوروس نے مودی حکومت پر آزادی اظہار کو دبانے کا الزام بھی لگایا ہے۔ ان کے مطابق، جو بھی شخص یا گروہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، اسے مختلف طریقوں سے خاموش کیا جاتا ہے۔ صحافی، سماجی کارکن، اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو جیل میں ڈالنا یا ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنا مودی حکومت کی آمریت کی نشاندہی کرتا ہے۔ سوروس کا کہنا ہے کہ یہ رویہ جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے اور بھارت کو ایک آمرانہ ریاست میں تبدیل کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

4. اقلیتوں کے ساتھ سلوک:

سوروس کے مطابق، مودی کے دور حکومت میں اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ "گاؤ رکشا” (گائے کی حفاظت) کے نام پر مسلمانوں پر حملے کیے گئے، اور اس دوران حکومت کی خاموشی یا مناسب کارروائی نہ کرنا مودی کے اقلیت مخالف رویے کو ظاہر کرتا ہے۔ سوروس کا ماننا ہے کہ مودی کی حکومت نے ان انتہا پسند گروہوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جو اقلیتوں کے خلاف تشدد اور نفرت کو فروغ دیتے ہیں۔

نتیجہ

جارج سوروس کی تنقید کے تناظر میں نریندر مودی کا چہرہ ایک ایسے شخص کے طور پر سامنے آتا ہے جو مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو سماجی، سیاسی، اور اقتصادی لحاظ سے کمزور کرنے کے درپے ہے۔ مودی کی پالیسیاں نہ صرف بھارت کی جمہوریت کے لیے خطرہ ہیں بلکہ اقلیتوں کے حقوق اور ان کی آزادی کو بھی شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔ سوروس کے مطابق، مودی کی حکومت کا رجحان جمہوری اصولوں کی پامالی اور ہندو قوم پرستی کے فروغ کی طرف ہے، جس کے نتیجے میں بھارت میں اقلیتوں کے خلاف تعصب اور امتیاز کو فروغ مل رہا ہے۔ ان کے مطابق، مودی حکومت کی پالیسیاں جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے منافی ہیں اور بھارت کی سیکولر بنیادوں کو کمزور کر رہی ہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: