Slide
Slide
Slide

مودی عہد میں گستاخیِ رسالت: سنی خانقاہوں، مدارس، علما اور دانشوران کے اتحاد کی جبری ضرورت

مودی عہد میں گستاخیِ رسالت: سنی خانقاہوں، مدارس، علما اور دانشوران کے اتحاد کی جبری ضرورت

✍️ محمد شہباز عالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی

کوچ بہار، مغربی بنگال

__________________

ہندوستان اپنی گنگا جمنی تہذیب کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہے، جہاں مختلف مذاہب اور فرقے صدیوں سے مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ مذہبی رواداری اور مختلف عقائد و مذاہب کا احترام ہمیشہ سے ہندوستان کی خصوصیت رہی ہے۔ لیکن، حالیہ برسوں میں، خاص طور پر نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے دوران، ہندوستانی سماج میں مذہبی تشدد اور نفرت انگیزی کی فضا پیدا کی گئی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کو خصوصی طور پر نشانہ بناتے ہوئے گستاخیِ رسالت کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جو مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہیں۔

حالیہ واقعات میں رام گیری مہاراج (مہاراشٹر) اور یتی نرسمہانند سرسوتی (اتر پردیش) جیسے شدت پسند اور نفرت انگیز افراد نے کھلے عام رسول اللہ ﷺ کی شان میں توہین آمیز اور گستاخانہ بیانات دے کر مسلمانوں کے دلوں کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ یہ بیانات مسلمانوں کے جذبات اور مذہبی روایات پر سنگین حملے ہیں، جو نہ صرف مذہبی امن و امان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، بلکہ ملک کی قومی یکجہتی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔

بی جے پی حکومت اور گستاخیِ رسالت کا فروغ:
بی جے پی حکومت کے دور میں جس طرح اسلام مخالف بیانیے کو فروغ دیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلانے والے افراد کو کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے، وہ نہایت تشویش ناک ہے۔ رام گیری مہاراج اور یتی نرسمہانند جیسے افراد نے نہ صرف نفرت انگیز تقاریر کیں بلکہ اسلام اور اس کے پیروکاروں کے خلاف سخت زبان استعمال کی۔ ان دریدہ دہنوں کے بیانات نے مذہبی منافرت کی آگ بھڑکائی اور معاشرتی عدم استحکام کا ماحول پیدا کیا ہے۔

بدقسمتی سے، حکومت ایسے گستاخوں کے خلاف کوئی مؤثر اقدام نہیں اٹھا رہی ہے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت یا تو اس صورتحال سے لاپروا ہے یا پھر در پردہ ایسے اشتعال انگیز عناصر کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ بی جے پی حکومت کی پالیسیوں میں مسلمانوں کے خلاف رویے کو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جہاں مذہبی آزادی اور روا داری کو نظر انداز کرتے ہوئے نفرت اور تشدد کو ہوا دی جا رہی ہے۔ ایسے میں سنی خانقاہوں، مدارس، علما اور دانشوران کا اتحاد نہایت ضروری ہو گیا ہے تاکہ متحدہ طور پر حکومت پر دباؤ ڈال کر گستاخیِ رسالت کے مرتکب افراد کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کا مضبوط مطالبہ کیا جا سکے۔

سنی خانقاہوں، مدارس اور علما کا کردار:

سنی خانقاہیں اور مدارس ہندوستان میں مسلمانوں کی مذہبی، روحانی اور اخلاقی تربیت کے مراکز ہیں۔ یہ ادارے نہ صرف دینی تعلیم دیتے ہیں، بلکہ سماجی و اخلاقی رہنمائی بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان خانقاہوں اور مدارس کو موجودہ صورتحال میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مسلمان عوام کو گستاخیِ رسالت کے معاملے میں ایک منظم اور مضبوط لائحہ عمل اختیار کرنے کے لیے متحرک کیا جا سکے۔

1. خانقاہوں کا کردار: ہندوستان میں سنی خانقاہیں ہمیشہ سے محبت اور روا داری کی درسگاہیں رہی ہیں، جہاں روحانی تربیت کے ذریعے لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت سکھائی جاتی ہے۔ موجودہ حالات میں خانقاہوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مریدین اور عام مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کے خلاف منظم ہونے کی ترغیب دیں۔ خانقاہوں کو مسلمانوں کے دلوں میں عشقِ رسول ﷺ کا جذبہ مزید مضبوط کرنا ہوگا تاکہ وہ کسی بھی گستاخانہ عمل کے خلاف کھڑے ہو سکیں۔

2. مدارس کی ذمہ داری: مدارس کو اپنے نصاب اور درس و تدریس کے ذریعے طلبہ میں یہ شعور پیدا کرنا ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ کی ناموس اور حرمت کے تحفظ کے لیے انہیں ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ انہیں سیرت النبی ﷺ کو اپنے درس کا حصہ بناتے ہوئے یہ بتانا چاہیے کہ اسلام نے ہمیشہ رواداری اور محبت کی تعلیم دی ہے، مگر ناموسِ رسالت ﷺ کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

3. علما اور دانشوران کا کردار: علما اور دانشوران کو مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا۔ وہ نہ صرف مذہبی محاذ پر بلکہ سیاسی اور قانونی سطح پر بھی اپنی آواز بلند کریں تاکہ گستاخوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی ممکن ہو سکے۔ دانشوران کو میڈیا، سیمینارز، اور عوامی فورمز پر اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہوئے دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ مسلمانوں کے لیے رسول اللہ ﷺ کی حرمت کی اہمیت کیا ہے۔

قانونی جدوجہد اور سیاسی دباؤ:

گستاخیِ رسالت کے خلاف جدوجہد صرف مذہبی اور فکری محاذ پر محدود نہیں ہو سکتی، بلکہ اس کے لیے قانونی اور سیاسی دباؤ ڈالنا بھی ضروری ہے۔ ہندوستان میں آئین اور قوانین ہر شہری کو مذہبی آزادی اور عزت کا حق دیتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے موجودہ حکومت ان قوانین کی پاسداری میں ناکام نظر آتی ہے۔ مسلمانوں کو قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ مل کر ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنی ہوگی جو رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔

مسلمانوں کو ایک منظم، متحدہ اور پُرامن تحریک کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوگا تاکہ وہ گستاخی کرنے والے افراد کو سخت سے سخت سزا دے۔ یہ دباؤ بنانا اس لئے ضروری ہے تاکہ حکومت کو احساس ہو کہ مسلمان اپنے مذہبی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔

اتحاد کا راستہ:

مودی عہد میں مسلمانوں کو جس بحران کا سامنا ہے، اس سے نمٹنے کے لیے سنی خانقاہوں، مدارس، علما اور دانشوران کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس اتحاد کے بغیر حکومت اور گستاخی کرنے والے افراد کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی ممکن نہیں ہے۔ سنی مسلمانوں کو اپنے تمام فروعی اختلافات کو بھلا کر ایک صف میں آنا ہوگا اور مل کر ناموسِ رسالت ﷺ کی حفاظت کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی اور سنی مسلک کے علاوہ دوسرے مسالک کے مسلمانوں کو بھی اپنے مسلکی نظریات کے تحفظ کے ساتھ اس اتحاد میں ساتھ لانا ہوگا تاکہ یہ جد و جہد زیادہ سے مضبوط اور مؤثر ہو، کیوں کہ گستاخی رسالت کا سد باب ایک ایسا نقطہ ہے جس پر کسی بھی مسلک کے مسلمان کو اختلاف نہیں ہے اور اس کے علاوہ دیگر ملی و ملکی مشترکہ مسائل میں بھی یہ اتحاد ناگزیر ہے۔

یہ اتحاد نہ صرف مسلمانوں کے جذبات کے اظہار کا مضبوط پلیٹ فارم ہوگا، بلکہ یہ ملک کی فکری اور سماجی یکجہتی کے تحفظ کا ضامن بھی ہوگا۔ جب مسلمان منظم ہو کر اور متفقہ لائحہ عمل کے تحت گستاخیِ رسالت کے خلاف کھڑے ہوں گے، تو حکومت کو مجبوراً ایسے افراد کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی جو اسلام کے خلاف نفرت اور تشدد کو فروغ دے رہے ہیں۔

اختتامیہ:

مودی عہد میں ہندوستان میں گستاخیِ رسالت کے بڑھتے ہوئے واقعات ایک سنگین مسئلہ بن چکے ہیں، جو مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہیں۔ رام گیری مہاراج اور یتی نرسمہانند جیسے افراد کی توہین آمیز اور شر انگیز تقاریر نے مسلمانوں کو انتہائی رنجیدہ کر دیا ہے، اور حکومت کی خاموشی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ در پردہ ان کی حمایت کر رہی ہے۔

ایسے حالات میں سنی خانقاہوں، مدارس، علما اور دانشوران کا اتحاد نہایت ضروری ہے تاکہ بی جے پی حکومت پر دباؤ ڈالا جا سکے اور گستاخیِ رسالت کے مرتکب افراد کے خلاف قانونی سطح پر کارروائی ممکن ہو سکے۔ اس اتحاد کے بغیر، مسلمانوں کی آواز کمزور رہے گی، اور گستاخی کا یہ سلسلہ جاری رہنے کا خدشہ ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ مسلمان اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور عشقِ رسول ﷺ کی بنیاد پر ایک مضبوط تحریک کا آغاز کریں تاکہ گستاخوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جا سکے اور رسول اللہ ﷺ کی حرمت کا دفاع کیا جا سکے۔ اس جدوجہد میں کامیابی حاصل کرنا ہر مسلمان کا دینی اور ملی فریضہ ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: