خوش خصال حضرت مولانا ندیم الواجدی سے میری پہلی اور آخری گفتگو
خوش خصال حضرت مولانا ندیم الواجدی سے میری پہلی اور آخری گفتگو
🖊ظفر امام قاسمی
_____________________
گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں ایک دن بس یونہی میسنجر پر حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب کو سلام بھیجا،اس امید کے ساتھ کہ حضرت کی عدیم الفرصتی اور بےپناہ مشغولیت شاید آپ کو جواب کی مہلت نہ دے۔
مگر یہ کیا کہ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ میری توقع کے برخلاف اُدھر سے حضرت کا جواب آگیا،اس وقت مجھے جو خوشی ہوئی اسے میں لفظوں کی لڑی میں پرونے کی صلاحیت نہیں رکھتا،کافی دیر تک میں اس حسنِ مجسم کے اس پیار بھرے جواب کو نہارتا رہا،زیر لب مسکراتا رہا،کروٹیں بدلتا اور انگڑائیاں لیتا رہا یا یوں کہہ لیجیے کہ اس دوران ہر اس کیفیت سے محظوظ ہوتا رہا جو عموما خوشی کے وقت انسان کو پیش آیا کرتی ہے۔
در اصل میری یہ پیش آمدہ کیفیت اگلی گفتگو کی تیاری کے طور پرتھی،کیونکہ روبرو ہونے والا انسان کوئی ہمہ شمہ انسان نہ تھا بلکہ وقت کا ایک ادیبِ شہیر،درجنوں کتابوں کا مصنف،علم و فن کا بحر بیکراں اور نامور عالم دین تھا،میں نے جھجکتے ہوئے پوچھا حضرت آپ سے کچھ ضروری بات کرنی تھی،اس پر آپ نے بلا تردد مجھے اپنا نمبر ارسال کردیا،میں نے نہایت خوشی کے عالم میں آپ کا نمبر ڈائل کیا،سامنے سے کانوں میں رس گھولتی ہوئی آواز کے ساتھ مولانا نے سلام کیا،کافی دیر تک باتیں ہوئیں،اسی اثناء میں شرماتے ہوئے میں نے حضرت سے کہا”حضرت ایک بات کہنی تھی،اگر اجازت ہو تو عرض کروں“ آپ نے ”جی فرمائیے“ کہتے ہوئے میری ہمت بندھائی،اس پر میں نے عرض کیا ”حضرت! خاکسار نے مولانا اسماعیل میرٹھی صاحبؒ کی اردو زبان کی تیسری (چوتھی کا مسودہ تیار ہے مگر اس کی طباعت کے لئے جیب کی اجازت کا انتظار ہے) تک کی لغات پر مشتمل ایک کتاب معین اللغات کے نام سے تالیف کی ہے،جو بحمداللہ چھپ چکی ہے،لوگ اسے کافی پسند بھی کر رہے ہیں مگر بدنصیبی سے میرا تعلق ایسے علاقے سے ہے جہاں کتب خانے اور مطابع بالکل ناپید ہیں،میں جہاں تک مجھ سے ہو رہا ہے اپنے توسط سے اس کتاب کا ابلاغ کر رہا ہوں،میری دلی خواہش ہے کہ وہ کتاب دیوبندجیسی مرکزی جگہ سے چھپے،تاکہ اس کا فیض عام و تام ہو“۔
یہ ساری باتیں میں نے آپ سے بنا رکے ایک ہی سانس میں کہہ ڈالی،اس پر حضرت نے کافی حوصلہ افزائی کی،اور کہا کہ ”ہاں اس کام کی ضرورت تھی،اس سے پہلے اس پر مفصل کام بھی ہوا تھا مگر وہ کام گوشۂ گمنامی کا مکین بنا رہا اب آپ نے اس کا بیڑا اٹھایا ہے تو ان شاء اللہ امت کے نونہالوں کے لئے فائدے سے خالی نہیں ہوگا“اس کے بعد حضرت نے کہا کہ اچھا آپ ایک نسخہ بھیجئے میں دیکھ کر آگے کی کارروائی سے آپ کو آگاہ کروں گا،مگر میری کسل مندی کے کیا کہنے کہ آج تک وہ نسخہ آپ کو ارسال نہ کر سکا اور آج کو کل پر ٹالتا رہا اور رات یہ اندوہناک خبر آئی کہ اس مجسم کردار،سراپا اخلاق،حسن مجسم،علم و کمالات کے جامع اور بحرِ تصنیف کے ماہر شناور کا بندھن اس فانی زندگی سے سدا کے لئے ٹوٹ گیا،اور یوں میرا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔
آج مولانا کے دیار غیر میں انتقال سے پورا ملک سوگ و الم میں ڈوبا ہوا ہے،ملک کا ذرہ ذرہ آپ کی جدائی سے ماتم کناں ہے،اور ہونا بھی چاہیے کہ ملک نے اپنے ایک مایہ ناز سپوت کو کھویا ہے، ایسے سپوت ملک و و طن کے لئے مایۂ ناز اور سرمایہ افتخار ہوا کرتے ہیں،ملک کی قسمت ایسے قیمتی سرمایے اور جوہر پر سدا نازاں رہتی ہے،مجھے تو آج کھل کر اپنے اوپر افسوس آ رہا ہے کہ میں قیام دیوبند کے دوران آپ کی قدر و منزلت سے نا آشنا رہا اور سمندر کے قریب ہوتے ہوئے بھی اس کے قطروں سے اپنی خشک دامنی کو تر نہ کرسکا۔
اللہ پاک حضرت مولانا کی بھرپور مغفرت فرمائے آپ کے لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق بخشے۔ آمین یا رب العالمیں