Slide
Slide
Slide

کشن گنج میں گری راج کا نفرت انگیز بیان: سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنے کی سازش

کشن گنج میں گری راج کا نفرت انگیز بیان: سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنے کی سازش

محمد شہباز عالم مصباحی

سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال

___________________

ضلع کشن گنج، جو ہمیشہ سے اپنی سماجی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ ہم بستگی کے لیے جانا جاتا ہے، حالیہ دنوں میں نفرت انگیز سیاست کی زد میں آ گیا ہے۔ "ہندو سوابھی مان یاترا” کے دوران مرکزی وزیر گری راج سنگھ کا ایک اشتعال انگیز اور نفرت آمیز بیان سامنے آیا ہے۔ ان کے الفاظ نے نہ صرف یہاں کی پُر امن فضا کو زہر آلود کیا ہے، بلکہ فرقہ وارانہ تعلقات کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ایسے بیانات ہندوستان کی جمہوری اقدار کے منافی ہیں اور ایک ایسے خطے میں فرقہ وارانہ تصادم کو ہوا دیتے ہیں، جو ہمیشہ مذہبی رواداری اور بھائی چارے کی علامت رہا ہے۔

گری راج کا نفرت انگیز بیان اور اس کی سنگینی:

گری راج سنگھ نے کشن گنج میں اپنے خطاب کے دوران مسلمانوں پر سنگین الزامات عائد کیے اور انہیں "گھس پیٹھیا”، "بنگلہ دیشی”، اور "روہنگیائی” سے موسوم کیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ مسلمان ہندوؤں کے مندروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ان کے ساتھ بدتمیزی کر رہے ہیں، اور لو جہاد جیسی بے بنیاد باتوں کا الزام بھی عائد کیا۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ انہوں نے ہندوؤں کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا اور کہا کہ اگر کوئی مسلمان ہندو کو ایک تھپڑ مارے تو جواب میں سو تھپڑ مارے جائیں۔

یہ بیان نہ صرف قانونی اور اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ ملک کے امن و استحکام کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔ گری راج سنگھ جیسے رہنماؤں کی جانب سے اس قسم کی زبان کا استعمال ایک انتہائی خطرناک روش ہے، جو سماجی تانے بانے کو پارہ پارہ کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں کئی مثالیں ملتی ہیں جہاں اسی قسم کی اشتعال انگیزی نے فرقہ وارانہ فسادات کو جنم دیا اور ہزاروں بے گناہ لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔

تاریخی حقائق کا مسخ:

گری راج سنگھ نے اپنے بیان میں یہ دعویٰ کیا کہ سیمانچل کے علاقے میں رہنے والے مسلمان بنگلہ دیشی ہیں، جو غیر قانونی طور پر یہاں آ کر آباد ہو چکے ہیں۔ تاہم، یہ بیان تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی بدترین کوشش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 1971 میں پاکستان اور بنگلہ دیش کی جنگ کے دوران بڑی تعداد میں ہندو پناہ گزین بنگلہ دیش سے سیمانچل اور اتر دیناج پور میں آئے تھے، جنہیں مسلمانوں نے اپنی زمین پر خوشدلی سے رہنے کی اجازت دی تھی۔ آج بھی انہیں مقامی طور پر "ریفیوجی” اور "بنگلہ دیشی” کہا جاتا ہے، لیکن اس حقیقت کے باوجود ان کے خلاف کبھی کسی قسم کا تشدد یا بد سلوکی نہیں کی گئی۔ وہ سالوں سے امن و امان کے ساتھ یہاں کے مسلمانوں کے درمیان رہ رہے ہیں، اور ان کے ساتھ یا ان کے مندروں اور بہو بیٹیوں کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں ہوئی۔

گری راج سنگھ کی جانب سے اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کرنا اور الٹا مسلمانوں کو "بنگلہ دیشی” اور "روہنگیائی” کہہ کر ان کے خلاف نفرت پھیلانا ایک منظم سازش ہے، جس کا مقصد علاقے میں فرقہ وارانہ فسادات کو بھڑکانا ہے۔ یہ کہنا کہ بنگلہ دیش یا روہنگیا سے مسلمان یہاں غیر قانونی طور پر آ کر آباد ہو گئے ہیں، ایک بے بنیاد اور بے سروپا الزام ہے۔ اگر واقعی ایسا ہوتا، تو یہاں مسلمانوں کی تعداد کم اور ہندوؤں کی تعداد زیادہ ہوتی۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، جو خود بتاتی ہے کہ کون یہاں کا اصل باشندہ ہے اور کون باہر سے آیا ہے۔

مارواڑی تاجروں کا کردار اور ان کا اقتصادی بائیکاٹ:

گری راج سنگھ کے اس نفرت انگیز بیان کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ انہیں کشن گنج میں مارواڑی تاجروں نے گرمجوشی سے خوش آمدید کہا۔ یہ تاجروں کا طبقہ ایک اہم اقتصادی طاقت رکھتا ہے اور اگر ان کا اس طرح کے فرقہ وارانہ عناصر کی حمایت کرنا ثابت ہوتا ہے، تو سیمانچل کے مسلمانوں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلم برادری کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے پر امن اور مؤثر طریقے اپنانا ہوں گے، جس میں مارواڑی تاجروں کا تجارتی بائیکاٹ ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔ اقتصادی بائیکاٹ ہمیشہ ایک طاقتور ہتھیار رہا ہے، جو کسی بھی طبقے کو اپنے غلط فیصلوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

نفرت انگیزی کے خلاف ذمہ دارانہ اقدام:

گری راج سنگھ جیسے سیاستدانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہندوستان کی بقا اور ترقی کا راز اس کی سماجی ہم آہنگی اور کثرت میں وحدت کی بنیاد پر قائم ہے۔ نفرت اور اشتعال انگیزی پر مبنی سیاست وقتی طور پر کسی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، لیکن طویل مدت میں یہ ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ سیاستدانوں کو اپنی ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے ایسے بیانات دینے سے باز رہنا چاہیے، جو سماجی تفریق کو بڑھاوا دیں اور ملک کی عوام کو تقسیم کریں۔

سیمانچل کے مسلمانوں کو اس موقع پر محتاط اور دانشمندانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اس سازش کا حصہ بننے سے بچنا ہوگا اور ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو پر امن ہوں اور سماجی انصاف کے حصول کے لیے مفید ثابت ہوں۔ مارواڑی تاجروں کا بائیکاٹ ہو یا معاشرتی طور پر بیداری پھیلانا، انہیں یہ دکھانا ہوگا کہ وہ اس نفرت انگیز سیاست کا حصہ نہیں بنیں گے، اور ہر قیمت پر اپنی سر زمین اور شناخت کا تحفظ کریں گے۔

آخر میں، حکومت اور عوام کو مل کر ایسے سیاستدانوں کی نفرت انگیز بیانات کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے تاکہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھا جا سکے اور ہندوستان کی جمہوری روح کو محفوظ رکھا جا سکے۔ سیمانچل کے عوام کو ماضی کی طرح اپنے امن اور بھائی چارے کو برقرار رکھنا ہوگا اور ان سازشی عناصر کے عزائم کو ناکام بنانا ہوگا جو ان کے درمیان تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: