Slide
Slide
Slide
مولانا محمد اعظم ندوی

تجاہل عارفانہ: ایک کامیاب حکمت عملی

تجاہل عارفانہ: ایک کامیاب حکمت عملی

📝ڈاکٹر محمد اعظم ندوی

( استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد)

_____________________

ادب وبلاغت میں’تجاہل عارفانہ٬ ایک نہایت لطیف صنعت ہے، جس کا مطلب بہ ظاہر سادہ مگر انتہائی عمیق ہے، لغوی اعتبار سے یہ ترکیب ’عمداً غفلت برتنے‘ یا’جان بوجھ کر انجان بننے٬ کے معنی رکھتی ہے، عربی ادب میں اس صنعت کو "تجاهل العارف” کہتے ہیں، جو علم بلاغت کی ایک شاخ بدیع کے تحت آتی ہے اوراسی کی ایک قسم’ المحسّنات المعنویۃ٬ ( تحسین معنوی کے ذرائع) کی مثالوں میں شمار ہوتی ہے، اس کا مقصد کسی معلوم حقیقت کو اس طرح پیش کرنا ہوتا ہے گویا وہ غیر معلوم ہو،یوسف سکّاکی(و:۶۲۶ھ) اس صنعت کی تشریح یوں کرتے ہیں:”سوق المعلوم مساق غیره” ( ایک معلوم حقیقت کو اس انداز میں پیش کرنا کہ وہ غیر معلوم محسوس ہو) (مفتاح العلوم، یوسف السکاکي، دار الكتب العلمية، بيروت، ۱۹۸۷، ص۴۲۷)، اور ایسا کسی خاص مقصد سے کیا جاتا ہے جیسے زجر وتوبیخ یا چھپے ہوئے انداز میں اظہار ناراضگی وغیرہ، تجاہل اور تغافل کا ذکر ہماری کلاسیکی شاعری میں خوب ہے کہ محبوب کو عاشق کی بے قراری اور دوری ومہجوری کے سبب دردو کرب کی پوری خبر ہے، پھر بھی وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسے کچھ پتہ ہی نہیں، گویا اصطلاح میں تجاہل عارفانہ سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی شے یا حقیقت سے خوب واقف ہونے کے باوجود شعوری طور پر اس طرح لاعلمی کا اظہار کرے، جیسے وہ حقیقت اس کی نگاہ میں پوشیدہ ہے، یہ ایک ایسی تکنیک ہے جس کے ذریعہ انسانی احساسات کو پردۂ غفلت میں چھپا کر ایک مختلف انداز میں بیان کیا جاتا ہے، غالبؔ کا مشہورِ زمانہ شعر اس کی ایک بہترین مثال ہے:

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا!

یہاں غالبؔ اپنی شناخت سے بخوبی آگاہ ہیں، مگر شعوری طور پر لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ذات کو اس قدر گہرائی میں چھپا دیتے ہیں کہ گویا ان کی حقیقت کو بیان کرنا ممکن نہیں، وہ اپنے وجود کی پیچیدگی کو مخاطب کے سامنے اس طرح رکھتے ہیں کہ ان کی شخصیت کی وسعتوں کا ادراک کوئی اور کرے، یہی تجاہل عارفانہ کا کمال ہے کہ ایک معروف اور جیتی جاگتی حقیقت کو اس طرح پیش کیا جائے جیسے وہ پوشیدہ اور خاموش ہو بالکل اس طرح جیسے ایک روشن شمع کسی فانوس میں روپوش ہو۔

لیکن یہاں ہماری مراد تجاہل عارفانہ سے وہ کیفیت ہے جسے عربی میں "تغافل” اور "تغاضي” کہا جاتا ہے، اردو میں اسے چشم پوشی یا اغماض نظر بھی کہ سکتے ہیں، اور انگریزی میں Strategic Ignorance کہا جا سکتا ہے، یہ ایک ایسی تربیتی اور سماجی حکمت عملی ہے جس کے تحت انسان دانستہ طور پر دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظرانداز کرتا ہے اور ان پر گرفت کرنے سے گریز کرتا ہے، یہ رویہ معاشرتی تعلقات کو بہتر بنانے اور ذہنی سکون کو برقرار رکھنے میں مددگار ہوتا ہے، اس رویہ کو عموماً اساتذہ، والدین، بڑوں اور دوستوں کے مثبت کردار اور حکیمانہ رہنمائی کے تناظر میں استعمال کیاجاتا ہے، بلخ کے ایک بڑے عالم اور صاحب دل بزرگ حاتم الاصم(و:۲۳۷ھ) تھے، جن کو اس امت کا لقمان حکیم کہتے تھے،ان کے پاس ایک خاتون کسی مسئلہ کی بابت کچھ دریافت کرنے آئی، عورت سے دوران گفتگو غفلت میں طبعی آواز نکل گئی، انہوں نے کہا: کیا کہہ رہی ہو! زور سے کہو؛ تاکہ وہ سمجھے کہ ان کی توجہ گفتگو پر ہے، کسی اور جانب نہیں، اور انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں، جب وہ اس کی گفتگو نہیں سن سکے تو کوئی اور آواز کہاں سنی ہوگی؟ اس نے سکون کی سانس لیتے ہوئے کہا: یہ تو ’’أصمّ‘‘ (بہرے) ہیں یا اونچا سنتے ہیں، جب کہ انہوں نے دانستہ اس کو سبکی اور شرمندگی سے بچا لیا تھا(طبقات الأولياء، ابن الملقن، مكتبة الخانجي، مصر، ۱۹۹۴، ص۱۷۸) ان کا یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ کبھی کبھی دوسروں کی غلطیوں اور خود ان کو آپ شرمسار کرنے والی حرکتوں پرتجاہل عارفانہ کا رویہ ان کی عزت نفس کا تحفظ کرتا ہے، حضرت حسن بصریؒ (و:۱۱۰ھ) فرماتے ہیں: "ما استقصی کریمٌ قط”( کوئی شریف النفس انسان کسی سے استفسار میں یا اپنے گردو پیش کی باتوں میں بال کی کھال نہیں نکالتا) (تفسير البغوي، دار طيبة للنشر والتوزيع، ۱۹۹۷، ج۸،ص۱۶۴)۔

تربیت کے میدان میں تجاہل عارفانہ ایک بہترین طریقہ ہے، بچوں کی فطرت ہے کہ وہ دنیا کو تجربات کے ذریعہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس عمل میں اکثر خطائیں سرزد ہو جاتی ہیں، اگر ہر غلطی پر فوری گرفت کی جائے تو بچہ کی خود اعتمادی متاثر ہو سکتی ہے اور وہ سیکھنے کی صلاحیت کھو سکتا ہے، ایک طرز تربیت تھا جس کوہیلی کاپٹری پرورش Helicopter parenting کہتے ہیں، جس میں والدین بچوں کے مسائل پر کافی قریبی توجہ دیتے ہیں، یعنی ہیلی کاپٹر کی طرح تعاقب یا نگرانی کرتے ہیں، جس میں اولاد کی زندگی کے ہر واقعہ کا مسلسل احاطہ کرنا شامل ہوتا ہے، اس کے بالمقابل وہ والدین جو چھپے ہوئے حرکیاتی والدین ہوتے ہیں، اس دور میں وہ زیادہ موثر ہیں؛ کیوں کہ ان کا یہ معمول ہوتا ہے کہ وہ معمولی باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور سنگین نوعیت کے تربیتی مسائل کے سلسلہ میں فوری حرکت میں آجاتے ہیں، یہ اصول بچوں کی تربیت میں کارگر ثابت ہوتا ہے، جب والدین یا اساتذہ بچوں کی معمولی غلطیوں کو نظر انداز کرتے ہیں، تو اس سے بچوں کو اپنی غلطیوں پر غور کرنے کا موقع ملتا ہے اور ان کی خود احتسابی کی صلاحیت بڑھتی ہے۔

معاشرتی تعلقات کو مضبوط رکھنے کے لیے تجاہل عارفانہ ایک لازمی رویہ ہے، روزمرہ کی زندگی میں ناخوشگوار یا بار خاطر ہونے والی باتوں کا پیش آنا ایک عام بات ہے، اگر ہم ہر چھوٹی بات پر اعتراض کریں یا فوری ردعمل دیں، تو اس سے رشتے خراب ہو سکتے ہیں اور تعلقات میں دراڑیں پڑ سکتی ہی؛ اس لیے یہی طرز تغافل اختیار کرنا پڑتا ہے، امام احمد بن حنبلؒ کا قول ہے: "العافية ‌عشرة أجزاء، كلها في التغافل” (عافیت کے دس حصے ہیں، اور وہ سب تغافل میں پوشیدہ ہیں) (شعب الإیمان، بیہقي، مکتبۃ الرشد، ممبئی، ۲۰۰۳ء، ج۱۰، ص۸۰۲۸) یعنی اچھے اخلاق کا زیادہ تر حصہ یہی ہے کہ چھوٹی باتوں کو نظر انداز کیا جائے، عربی شاعر نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:

لولا التّغافلُ عَن أشياءَ نَعْرِفُها
ما طابَ عَيشٌ ولا دامت مَوَدَّاتُ

یعنی اگر ہم بعض ایسی باتوں کو نظر انداز نہ کریں جنہیں ہم جانتے ہیں، تو نہ زندگی کا لطف ممکن ہے اور نہ ہی محبتیں قائم رہ سکتی ہیں۔

لیکن اگر بے خبری اور تغافل کی عادت بنالی جائے تو بسا اوقات تعلقات میں بدمزگی پیدا ہوجاتی ہے، بیخود دہلوی (و:۱۹۵۵)نے اس رویہ کی اسی نوعیت کو ان الفاظ میں بیان کیا:

انہیں تو ستم کا مزا پڑ گیا ہے
کہاں کا تجاہل! کہاں کا تغافل!

یہاں شاعر ایک طنزیہ انداز میں معاشرتی رویہ کو پیش کرتا ہے جہاں تجاہل اور تغافل کے پردہ میں دانستہ ظلم اور حق تلفی کو عادت بنالیا جاتا ہے، اس شعر میں تجاہل عارفانہ کے مثالی رویہ کے بجائے شعوری ستم کا ذکر ہے، جو اس عمل کے کسی مفید پہلو تک رسائی کے برعکس انسانی رشتوں کو مزید پیچیدہ بناتا ہے، دانستہ طور پر کسی کو نظر انداز کرنا، اس کے مسائل سے پہلو تہی اور غفلت، اور صرف اپنے مطلب کی حد تک روابط، یہ وہ تجاہل عارفانہ ہے جو ناقابل قبول اور منفی ہے، اور اصل مسئلہ سے بے تعلقی کی دلیل ہے، مثلاً تمام تر مسائل کے لیے وقت ہو لیکن امت کے جو اہم مسائل ہیں لیکن ان کو ڈیل کرنے میں رسک زیادہ ہے، ان پر سکوت یا لاعلمی کا اظہار ہو، یا دعوت واصلاح کی ذمہ داریوں سے غفلت کی حد تک کنارہ کشی اختیار کی جائے، یا اپنے ماتحتوں کے ساتھ انجانا سا رویہ رکھا جائے، خواہ وہ ایک ذمہ دار اور خدمت گزاروں کا مسئلہ ہو، استاد شاگرد اور امام مقتدی کا تعلق ہو یا ساس بہو کے مابین رشتہ ہو یا تعلقات کی اور جہتیں، یہ رویہ ناپسندیدہ ہے کہ:
ہر ایک بات کے یوں تو دیے جواب اس نے
جو خاص بات تھی ہر بار ہنس کے ٹال گیا

تجاہل عارفانہ نہ صرف معاشرتی تعلقات میں بہتری لاتا ہے، بلکہ یہ انسان کے ذہنی سکون اور جذباتی استحکام کا بھی ایک ذریعہ ہے، جب ہم دوسروں کی معمولی باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں، تو ہم غیر ضروری تنازعات اور ذہنی دباؤ سے بچ جاتے ہیں، اس طرح یہ ایک حکیمانہ انداز ہے، کسی صاحب نظر کا قول مشہور ہے: "العقل ثلثه فطنة وثلثاه تغافل” یعنی، عقل کا ایک تہائی حصہ ذہانت میں اور دو تہائی حصہ چشم پوشی میں ہے، حقیقیت ہے کہ جو لوگ چھوٹی اور غیر ضروری باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں وہ زیادہ متوازن اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں، اس سے آپسی احترام ومحبت میں بہتری آتی ہے، اور یہ ایمانی تقاضہ بھی ہے، ابن مبارک(و:۱۸۱ھ) فرماتے ہیں: "المؤمن يطلب المعاذير والمنافق يطلب العثرات”( مومن دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا ہے اوران کی طرف سے عذر ڈھونڈھتا ہے، جب کہ منافق دوسروں کی لغزشیں تلاش کرتا ہے) (إحياء علوم الدين، دار المعرفة، بيروت، ج۲، ص۱۷۷)، ایک صاحب منصب کے لیے یہ رویہ اور زیادہ ضروری ہے، عربی شاعر ابو تمام (و:۲۳۱ھ) نے کیا خوب کہا ہے:

لَيسَ الغَبِيُّ بِسَيِّدٍ في قَومِهِ
لَكِنَّ سَيِّدَ قَومِهِ المُتَغابي
( ایک نادان شخص اپنی قوم کا رہنما نہیں ہو سکتا، البتہ وہ شخص جو دانستہ طور پر چھوٹی باتوں سے چشم پوشی کا رویہ اختیار کرتا ہے، وہی قوم کی قیادت کا اہل ہوتا ہے) (الموازنة بين شعر أبي تمام والبحتري، حسن بن بشر الآمدي، دار المعارف، ومکتبۃ الخانجي، ۱۹۹۴، ج۳، ص۲۴۸) اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکمت اور بردباری سے معاملات کو سنبھالنے والا شخص ہی قوم میں عزت و مرتبہ پاتا ہے، کامیاب رہنما ہمیشہ اپنے ماتحتوں کی چھوٹی غلطیوں پر ردعمل دینے کے بجائے ان کی بڑی کامیابیوں اور کارکردگی پر توجہ دیتے ہیں اور غیر ضروری باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مقصد پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں، قرآن مجید بھی اس حکمت عملی کی تائید کرتا ہے، جیسا کہ سورۂ تحریم میں نبی کریم ﷺ کے بارے میں فرمایا گیا: "عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ” (التحریم:۳) یعنی نبی کریم ﷺ نے بعض باتوں کی وضاحت کی اور بعض باتوں کو نظرانداز کیا اور انہیں ٹال گئے، جب رسول اللہ ﷺ نے شہد نہ کھانے کی قسم کھائی تو حضرت حفصہؓ سے خواہش کی کہ اس کا کہیں ذکر نہ کرنا کہ اگر یہ خبر مشہور ہوئی اور حضرت زینبؓ کو معلوم ہوئی تو ان کو تکلیف ہوگی ؛ لیکن حضرت حفصہؓ نے اس کا تذکرہ حضرت عائشہؓ سے کردیا ، گویا پہلے تو ایسی تدبیر اختیار کی کہ حضور ﷺ شہد کے کھانے سے رُک جائیں اور پھر آپ نے جس بات کو راز رکھنے کا حکم دیا ، اس عہد کو بھی پورا نہیں کیا ؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس واقعہ سے مطلع فرمادیا ، اب اگر آپ یہ ساری باتیں حضرت حفصہؓ سے بتاتے کہ تم لوگوں نے حضرت زینبؓ کے یہاں شہد پینے سے روکنے کی کیا تدبیر کی، اور پھر تم نے اس راز کو کس کے پاس فاش کردیا ؟تو ان کو اور ندامت ہوتی ؛ اس لئے تنبیہ کی غرض سے وعدہ خلافی کا ذکر فرمایا اور دوسری باتوں کو ٹال دیا، حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ظلم وستم کا کون سا رویہ ان کے ساتھ روا نہیں رکھا! یہاں تک کہ شاہی پیالہ کے معاملہ میں بنیامین کوایک طے شدہ تدبیر کے طور پر روک لیا گیا تو بھائیوں نے حضرت یوسف کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ”إِن ‌يَسۡرِقۡ فَقَدۡ سَرَقَ أَخٞ لَّهُۥ مِن قَبۡلُۚ”(يوسف: ۷۷) (اگر اس نے چوری کی تو اس سے پہلے اس کے بھائی نے بھی چوری کی تھی)، لیکن حضرت یوسف نے اسے اپنے دل میں چھپائے رکھا اور ان پر ظاہر نہیں کیا، قرآن کہتا ہے: "فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفۡسِهِۦ وَلَمۡ يُبۡدِهَا لَهُمۡۚ” (يوسف: ۷۷)، اس طرح یہ اخلاق کریمانہ کا بھی ایک بڑا مظہر ہے کہ حضرت یوسف اتنی بڑی بات پر ضبط کر گئے اور کچھ ظاہر نہیں کیا کہ میں ہی یوسف ہوں اور یہ کتنا بڑا بہتان ہے۔

تجاہل عارفانہ سے نہ صرف رشتوں میں قربت پیدا ہوتی ہے، بلکہ اس سے ایک مثبت اور خوش گوار ماحول بھی پیدا ہوتا ہے، اس طرح کا رویہ ایک پر سکون اور تعمیری ماحول کو فروغ دیتا ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ احترام اور اعتماد کے ساتھ رہ سکتے ہیں، تجاہل عارفانہ کا فائدہ سوشل میڈیا پر اٹھایا جاسکتا ہے کہ غیر ضروری کومنٹس سے گریز کرتے ہوئے اپنے روز مرہ کے اصل کاموں پر توجہ ہو، ہر اعتراض کا جواب دے کر بات کو طول نہ دی جائے، بس سمجھانے کی اپنی سی کوشش کرلی جائے، اور خصوصاً دوستوں کے معاملہ میں دار وگیر سے بچتے ہوئے آگے بڑھا جائے، اپنے دور کے امام الشعراء، پیدائشی طور پر بصارت سے محروم لیکن صاحب بصیرت شاعر بشار بن برد (و:۱۶۸ھ) نے کہا تھا:
إذَا كُنْتَ فِي كُلِّ الأُمُورِ مُعَاتِبًا خَلِيلَكَ لَمْ تَلْقَ الذي لا تُعَاتِبُهْ
فَعِشْ وَاحِدًا أَوْ صِلْ أخاكَ فإنَّهُ مُقَارِفُ ذَنْبٍ مَرَّةً وَمُجَانِبُهْ
إذَا أنْتَ لَمْ تَشْرَبْ مِرَارًا علَى القَذَى
ظَمِئْتَ وأَيُّ النَّاسِ تَصْفُو مَشارِبُهْ
(وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، ابن خلکان، دار صادر، بیروت، ج۱، ص۴۲۳)
(اگر تم ہر معاملہ میں اپنے دوست سے شکوہ کرتے رہو گے تو تمہیں کبھی ایسا دوست نہیں ملے گا جس سے شکوہ نہ کرنا پڑے؛لہٰذا، تنہا زندگی بسر کر لو یا اپنے بھائی کے ساتھ اچھی طرح نباہ لو؛ کیوں کہ وہ کبھی غلطی کرے گا اور کبھی اس سے بچا رہے گا،اگر تم گردوغبار کے ساتھ کبھی کبھی پانی نہیں پیو گےتو تم پیاسے رہ جاؤگے، اور کون ہے جس کا مشروب بالکل صاف ہو؟)۔

✨✨✨

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: