اکیسویں صدی کے ثمود
✍️محمد رافع اعظمی
____________________
کون کہتا ہے کہ مسلمانوں نے کوئی کام نہیں کیا، مسلمانوں نے ایک کام کیا ہے کہ یہ جہاں بستے ہیں یا بسائے جاتے ہیں اینٹ گارے ، چونے پتھر اور اسٹیل و آہن کی بانکی سجیلی نئی نویلی اونچی نیچی عمارتیں کھڑی کردیتے ہیں، جس کو کبھی دودھیا رنگ میں نہلایا جاتا ہے تو کبھی چمپئی کبھی سرمئی کبھی کریم کبھی ارغوانی کبھی ہلکا آسمانی رنگ دیا جاتا ہے اور نہ جانے کیسے کیسے جاذب دل و نگاہ رنگوں، بیل بوٹوں اور نقش و نگار سے سجایا جاتا ہے، شیشوں اور گلاسز سے ڈھکی کشادہ اور بلند و بالا کوٹھیاں اور حویلی نما شاندار مکانات تعمیر کیے جاتے ہیں کہ جنہیں ان دیکھا نہیں کیا جاسکتا، نگاہیں خود بخود اٹھتی ہیں اور خوبصورت سراپے پر جم سی جاتی ہیں، جنہیں دیکھ کر ذرا دیر کے لیے سہی ننگے بھوکے انسانوں کی دم توڑ چکی امیدیں چمک اٹھتی ہوں گی، جنہیں دیکھ کر رشک کم حسد کی آگ سینے میں بھڑک جاتی ہے، مسلمانوں کے ملکوں کا حال بھی آج اس سے مختلف نہیں، نیز ان کے کسی علاقے یا ان کے قصبات و قریات سے گزر جائیے ہر قدم پر عالی شان کئی کئی منزلہ پختہ اور سامان تعیش سے مالامال مکانات بلکہ ٹاور آپ کو مل جائیں گے جن سے صرف نظر کرنا آسان نہ ہوگا، بطور خاص جس علاقے اور شہر میں میں مقیم ہوں اس کے بارے میں تو میں یقین اور مشاہدے کی روشنی میں برملا کہ سکتا ہوں کہ ضرورت سے زیادہ تعمیرات اور فضول مکانات کی تعمیر و توسیع وہ شعبہ ہے جس میں بلا تفریق عالم و عامی اور فرد وجماعت ہر سطح پر لوگ بڑھ چڑھ کر اپنی دولت لٹا رہے ہیں، میں یہ تک کہنے کی جسارت کرسکتا ہوں کہ غیروں میں بھی اب اونچی اور شاندار بلڈنگیں بنانے کا جو شعور بیدار ہوا ہے اس کی پشت پر مسلمانوں کا ہی یہ شاہجہانی ذوق تعمیر کار فرما ہے، وہ انہیں دیکھ کر اب سیکھ رہے ہیں کہ گھر مکانات قوم ثمود و عاد کی طرز پر نہایت عالی شان ہی بنانے چاہئیں جن میں رہنا خواہ چند ہی دن کے لیے ہو یا مطلق رہنا ہی نہ ہو۔
مسلم قوم نے دولت کا صحیح مصرف بالآخر ڈھونڈ ہی لیا، اینٹ گارے میں پیسہ خرچ کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہاں عقل استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، بس آپ کے پاس فالتو رقم ہونی چاہیے، اس کے علاوہ دوسری مدوں میں خرچ کرنے میں بڑی دشواریاں بھی ہیں اور عقل بھی کچھ فالتو ہونی چاہیے اور پھر حساب بھی لینا ضروری ہوتا ہے مثلاً دس روپے کسی مدرسے میں چندہ دیجیے تو یہ تو پوچھنا ہی بنتا ہے کہ مدرسہ میں چل کیا رہا ہے، کسی مسجد میں چندہ دیجیے تو اس کے انتظام و انصرام میں بھی دخل دینا ہی پڑتا ہے، البتہ اینٹ گارے میں جتنی چاہو دولت صرف کردو یہاں کوئی حساب نہ دینا ہے نہ لینا ہے میری نظر میں یہ سب سے بڑا فائدہ ہے۔
کروڑوں روپے لگا کر عالی شان محل بنالیا لیکن رہنے والا کوئی نہیں یا سال چھ مہینے میں کبھی کوئی ادھر ہوا کے بے چین اور جلد باز جھونکے کی طرح گزر گیا، بیسیوں کمروں میں سے کسی ایک یا دو کمرے ہی کی ضرورت رہی، باقی کمرے اپنے مکینوں کے منتظر ہی رہے لیکن یہاں حساب لینے والا کوئی نہیں۔
سال دو سال گزرے اب پرانے نقشے کو بدلا جارہا ہے اور اس کی جگہ نئے نقشے سے مکان کو سجایا جارہا ہے، فرنٹ کی ڈیزائن بدلی جارہی ہے، لان کو نئے نقشے کے مطابق ڈیزائن کیا جارہا ہے لیکن نہ حساب دینا ہے اور نہ کوئی حساب لینے ہی والا ہے۔
افسوس آج بہت سے ایسے شعبے ہماری بے اعتنائی اور بے ضمیری کی حد تک بے پروائی کے ہاتھوں ٹھپ پڑے ہیں جنہیں سرمایہ کاری کی فوری اور بڑی ضرورت ہے جن سے مسلم سماج کی فلاح وبہبود اور اس کے تحفظ و بقا کا مسئلہ وابستہ ہے۔ اس جانب ہماری توجہ نہیں۔
قرآن و حدیث میں خرچ کے جتنے مصارف بیان کیے گئے ہیں ان میں بلا ضرورت یا ضرورت سے زیادہ تعمیرات میں پیسہ خرچ کرنے کا کوئی مصرف مذکور نہیں ہے، جہاں مسجد و مدرسہ کے قبیل کی کسی چیز کی تعمیر کا ذکر آیا ہے تو وہاں گارے چونے میں پیسہ خرچ کرنے کا کوئی ذکر نہیں۔ وہاں بھی جس چیز پر زور دیا گیا ہے وہ ہے تقوی، ذکر الہی، ایمان و یقین، اخلاص و للہیت ۔
اللہ نے اگر مال دیا ہے، مبدء فیاض نے نوازا ہے تو خیر کے بہت سے کام ہیں جن میں مال کو خرچ کیا جانا چاہیے۔ چونے اور گارے میں ضایع کیے گئے مال سے حسرت وافسوس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا، بہت جلد حساب لینے والا روز جزا کا مالک ایک ایک پائی کا حساب لے کر رہے گا والی اللہ المشتکی وعلیہ التکلان۔