از قلم: محمد عمر فراہی
حالاں کہ شادیوں میں جس طرح اب دکھاوا اور اصراف کا ماحول ہوتا ہے ان میں شرکت سے بھی کراہیت ہوتی ہے ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شہری مسلمان روزی روزگار میں اتنا مصروف ہو چکا ہے کہ عام رشتہ داروں سے ملاقات اور رابطہ بھی صرف شادی یا میت کے موقع پر ممکن ہے۔ اسی طرح سیکولر ریاستوں میں لارڈ میکالے کے مادہ پرستانہ نظریات پر مبنی مخلوط تعلیمی نظام جو کہ بچوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرکے انہیں دین اور ایمان سے متنفر کر رہا ہے اگر احتیاط کے ساتھ بچوں کو ان اسکولوں اور کالجوں میں نا بھیجا جاۓ تو مسلمانوں کیلئے دوسری قوموں سے بہت پیچھے ہو جانے کا اندیشہ ہے ۔مخلوط تعلیمی نظام اور دیگر معاشرتی برائیوں اور فتنہ ارتداد کے تعلق سے آج جو عنوان بحث کا موضوع بنا ہوا ہے مولانا مودودی نے ان حالات کی پیشن گوئی تقسیم ہند کے دوران ہی اپنی کتاب تحریک آزادی ہند اور مسلمان میں کر دی تھی اور جس ایک بات کا تذکرہ انہوں نے اس کتاب میں کیا ہے میرے اندر بھی اتنی جرات نہیں کہ میں یہاں اس کا حوالہ دے سکوں !
اس مضمون میں میں نے جس مسلم معاشرے کے خرافات کو عنوان بنایا ہے اس کا تعلق بھی اسی فتنہ ارتداد سے ہے اور اس برائی پر مسلمان آسانی کے ساتھ قابو تو پاسکتا ہے لیکن سواۓ جماعت اسلامی یا مولانا مودودی کے نظریات پر کام کرنے والی دیگر تحریکوں کے کسی دوسری ملی تنظیم کے لوگوں میں عملی بیداری نہیں پائی جاتی ۔ سوال یہ ہے کہ بمشکل ایک فیصد سے کم ان تحریکی افراد کی بیداری سے فتنہ ارتداد اور تیس سے پینتیس سال تک کنواری رہ جانے والی بچیوں کے نکاح کو آسان کیسے بنایا جاسکتا ہے ۔

میرے اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں کا حلقہ اگر بہت بڑا نہیں تو چھوٹا بھی نہیں لیکن مجھے ایسا شاید ہی دیکھنے کو ملا ہو کہ کسی نے بہت ہی سادگی سے شادی کر لی ہو ۔پچھلے ڈیڑھ سالوں میں مجھے تین ایسی شادیوں میں شریک ہونے کا موقع ملا ہے جن کا تین الگ الگ مکتبہ فکر سے تعلق رہا ہے ۔پہلی شادی ایک ایسے امیر تاجر کی بیٹی کی تھی جن کا تعلق مسلک اہل حدیث ہے ۔اس شادی میں لڑکی کے باپ نے لڑکے کو چھبیس لاکھ کی گاڑی، تقریبا تیس لاکھ روپئے نذرانہ ،اسی تولہ سونا اور تین ہزار مہمانوں کے کھانے میں اسٹارٹر کے طور پر جو پاپلیٹ مچھلی کھانے کے میز پر تھی صرف اس مچھلی پر ہی آٹھ لاکھ کا خرچ بتایا گیا ۔باقی کھانے اور سجاوٹ کا خرچ الگ ۔نکاح اہل حدیث کے ایک بڑے مولانا نے پڑھایا لیکن پڑھانے سے پہلے انہوں نے اتنا ضرور کہا کہ اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا کہ یہ اس طرح کی تقریب ہوگی تو میں نہیں آتا اور پھر انہوں نے لڑکی والوں کو پھٹکار بھی لگائی کہ سماج میں غریب بچیاں بھی ہیں جن کے والدین اپنی بیٹیوں کو دو پانچ تولہ سونا بھی نہیں دے سکتے اور کتنی ہی کنواری بچیاں شادی کے انتظار میں بیٹھی ہوئی ہیں کیا آپ لوگوں کو ان بچیوں کا خیال نہیں ۔مگر جب ہماری یہی بچیاں غیر مسلموں کے ساتھ فرار ہو جاتی ہیں تو آپ لوگ شور مچاتے ہیں کہ فلاں کے والدین کی تربیت میں کمی تھی ۔تعجب ہے کہ اس طرح کی مہنگی شادیاں انجام دیکر آپ لوگ جس معاشرے کی تخلیق اور تربیت کر رہے اور جو رواج تخلیق پارہی ہے کیا یہ کسی ناسور سے کم ہے ۔سب نے بے غیرت کی طرح مولانا کی نصیحت سن لی اور شادی ہو گئی ۔دوسری شادی جو ہمارے ایک بریلوی رشتہ دار نے کی اس میں لڑکے والوں کو چھ لاکھ کی گاڑی اور تقریبا پچیس لاکھ روپئے دئیے گئے ۔اس کے علاوہ شادی کے کھانے اور سجاوٹ میں تقریبا بیس لاکھ کا خرچ کا اندازہ الگ سے لگایا جاسکتا ہے ۔ تیسری شادی ہمارے ایک دیوبندی دوست نے اپنی بیٹی کی کی جو رہتا تو چال میں ہے لیکن اندازہ ہے کہ اس نے بھی پچاس لاکھ سے کم نہیں خرچ کیا ہوگا ۔میں یہ نہیں کہتا کہ معاشرے کو ان خرافات سے پاک کرنے کیلئے ایک دم سے اچانک پانچ لوگوں سے نکاح کی رواج جاری کر دی جاۓ لیکن جس نے تین ہزار مہمانوں پر چالیس لاکھ صرف کھانے اور سجاوٹ میں خرچ کیا وہ اس تقریب کو پانچ سو لوگوں کے کھانے کے ساتھ بھی تو انجام دے سکتا تھا ۔ذرا سوچیں کہ جس طرح لوگوں کی دیکھا دیکھی شادیوں میں بے تحاشہ پیسے خرچ ہو رہے ہیں کیا عام مسلمانوں کے مالی حالات اتنے مضبوط ہیں کہ وہ اپنی بچیوں کی دھوم دھام سے شادی کر سکیں ۔مسلمانوں کا نوے فیصد معاشرہ جب اس لعنت میں مبتلا ہوگا اور جس کے گھر چار چار پانچ بیٹیاں ہوں گی اگر ان کی بیٹیاں ناامیدی کے حالات میں غلط قدم اٹھا بیٹھیں تو اس کا قصوروار کون ہے ۔

چلئے ہم مان لیتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس الگ سے بچیوں کے اسکول اور کالج کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے مخلوط تعلیمی ماحول میں جدید تعلیم حاصل کروانا مجبوری ہے لیکن یہ جو شادیوں میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کیا جارہا ہے یہ کیا ہے ۔جبکہ بھارت کے بہت سے شہروں میں مسلمانوں کے ایسے نرسنگ ہوم بھی نہیں ہیں جہاں ان کی پردہ نشین عورتوں کی خاتون ڈاکٹروں کی نگرانی میں زچگی کا عمل انجام دیا جاسکے ۔میں نے دیکھا ہے کچھ علاقوں میں عورتوں کی زچگی مرد ڈاکٹر ہی انجام دیتے ہیں اور مرد حضرات کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہوتا ۔اس کے علاوہ ہم میں سے کتنے لوگوں کو یہ بات پتہ ہے کہ جو ماڈرن اور تعلیم یافتہ مسلم آبادی ہندو علاقوں میں رہتی ہے اور ان کی سو فیصد آبادی خاندانی منصوبہ بندی کے تحت کاپرٹی کا استعمال کرتی ہے ان میں سے کچھ فیصد کو چھوڑ کر عورتوں کی اکثریت یہ کاپرٹی اکثر مرد ڈاکٹر سے ہی لگواتی ہیں ۔مسلم لڑکیوں کی ایک بہت بڑی آبادی شادی وغیرہ میں سج دھج کر جانے کیلئے بیوٹی پارلروں کا بھی رخ کرتی ہیں ۔شہر کے بیشتر بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی عورتیں لڑکیوں کی دلال ہوتی ہیں ۔وہ بچیاں جو اکیلے جاتی ہیں یہ عورتیں انہیں سجانے اور سنوارنے کے دوران خوبصورت پیکج کا لالچ دے کر ان کی ذہن سازی کرتی ہیں ۔کتنی لڑکیاں جن کے گھر کے حالات اچھے نہیں ہوتے یا ان کے والدین شادیوں میں جہیز کا بندوبست نہیں کر سکتے وہ ان عورتوں کے جھانسے میں آ کر فحاشی کے دلدل میں بھی قید ہو جاتی ہیں ۔یہ ہےوہ سیکولر معاشرے کا عذاب جس کا انتخاب ہم نے جمہوریت کے نام پر کیا ہے اور اب مسلمانوں کے پچھتر سال پہلے کے اکابرین بھی زندہ ہو کر واپس لوٹ آئیں تو وہ بھی مسلم معاشرے کو اس دلدل اور بچھاۓ گئے جال اور فتنے سے باہر نہیں نکال سکتے ۔
مزید اقساط :