دین مسلمان اور دعوت (۸)
محمد عمر فراہی
اسلامی دعوت کے تعلق سے میری اپنی سوچ ہمیشہ یہی رہی ہے کہ کسی کو براہ راست زبانی اور تحریری طور پر اسلام سے متعارف کرنے کی بجاۓ ان عوامل اور عناصر پر محنت کی جاۓ جس کے ذریعے مسلمانوں کا اخلاق کردار اور معاشرہ نمایاں ہو کر سامنے آۓ اور لوگ اسلام کی طرف اسی طرح مائل ہوں جیسے تتلیاں خوبصورت اور خوشبودار پھولوں اور باغوں کی طرف راغب ہوتی ہیں ۔
درج ذیل لنک میں جاکر دیکھ سکتے ہیں:
اسی تناظر میں کسی پاکستانی خاتون کا ایک مختصر ویڈیو نظر سے گزرا کہ لوگوں سے وہ سوال نہ کرو جو خدا کو اپنے بندوں سے کرنا ہے یعنی تمہارا مذہب کیا ہے ۔تم نے عبادت کی یا تم نے روزہ رکھا یا نہیں بلکہ ان سے وہ سوال کریں جو انسانوں کو انسانوں سے پوچھنا چاہئے ۔یعنی تم نے کھانا کھایا کہ نہیں ۔تمہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں یا تمہیں کوئی پریشانی تو نہیں ۔
اس وائرل ویڈیو کے بعد مجھے میرے ایک کیرالا کے ہندو دوست جس کا نام راجن تھا اس کا واقعہ یاد آیا جو کتابوں کے مطالعے کا تو بہت شوقین تھا مگر ناستک تھا ۔شروع شروع میں تخلیق اور خالق کے وجود کے تعلق سے میری اکثر اس سے بحث ہو جاتی تھی لیکن بعد میں ہم صرف ایک دوسرے کے پراعتماد دوست اور اپنے کام کے تعلق سے ہی سنجیدہ رہے ۔ اس کی ایک لڑکی جب کسی لڑکے کے ساتھ فرار ہو گئی تو اس نے بے عزتی کے ڈر سے یہ بات اپنے کسی رشتہ دار کو بھی نہیں بتائی مگر مجھ پر اس کا اتنا اعتماد تھا کہ ایک دن وہ مجھے یہ بتا کر رونے لگا کہ کاش میں نے اسے شروع سے موبائل نہ دیا ہوتا یا اتنا آزاد خیال نہ بنایا ہوتا ۔ایک دن بارش کے مہینے میں اچانک میرا اس کے گھر جانا ہوا تو دیکھا کہ اس کے چھوٹے سے روم میں دو فٹ پانی بھرا ہوا ہے اور وہ اسی پانی میں ایک اسٹول پر بیٹھ کر کام کر رہا ہے اور بیوی کیچن کے اوپر مالے پر بیٹھی ہے ۔میں نے کہا بھائی زمین کی بھرنی کروا لو ایسا کب تک چلے گا ۔اس نے کہا کام ٹھیک نہیں چل رہا ہے اس لئے بارش تک تکلیف اٹھا لیتا ہوں ۔میں نے اسے کچھ پیسے دئیے کہ وہ روم میں بھرنی کروالے ورنہ کبھی پانی میں کرنٹ بھی اتر سکتا ہے ۔وہ اتنا غیرت مند تھا کہ پیسے لینے کو تیار نہیں ہوا لیکن میں نے جبرا اس کی جیب میں یہ کہہ کر ڈال دیا کہ میرا کام کر کے میرا قرض اتار دینا ۔وہ بہت اچھا لکڑے کا pattern maker تھا اور مجھے کبھی کبھی اپنے مشینوں کے پارٹس کی ڈھلائی کیلئے اس کی ضرورت پڑتی تھی ۔
یہاں پر اس کی مدد کرتے وقت میرے ذہن میں سواۓ انسانیت کے کوئی نظریاتی یا دعوتی فلسفے کا عنوان بالکل نہیں تھا لیکن ایک شخص جو اپنے ہندو سماج سے متنفر ہو کر لا دینیت کی طرف مائل تھا اس کے ذہن میں میرا کردار ایک مسلمان کی حیثیت سے ہی نمائندگی کر رہا تھا ۔
شاید اسی لئے ایک دن اچانک اس نے مجھ سے ایک گفتگو کے دوران کہا کہ عمر بھائی مجھے ہندی کا قرآن لا کر دے دو ۔میں نے مزاقا کہا قرآن ناستک لوگوں کیلئے نہیں ہے ۔وہ ہنسا اور بولا میں بھی خرید سکتا ہوں لیکن آپ بہتر ترجمے والی قرآن دے سکتے ہو ۔میں نے اسے قرآن دے دیا لیکن یہ بھی کہا کہ اگر کہیں کچھ سمجھ میں نہ آۓ تو پوچھ لینا ۔اس نے کہا ضرور ۔اس کے بعد میری اس کی کئی بار ملاقات ہوئی لیکن میں نے کبھی جان بوجھ کر اس سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ قرآن پڑھ رہا ہے یا نہیں ۔یہ ایک اتفاق تھا کہ کچھ مصروفیت کی وجہ سے میں کئی مہینے اس سے مل نہیں سکا ۔ایک دن میں اس کے علاقے سے گزرا تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے وطن گیا ہوا ہے ۔کچھ مہینے کے بعد دوبارہ اس کے گھر گیا تو کسی پڑوسی نے کہا کہ اس پر فالج کا حملہ ہوا ہے اور وہ گاؤں میں ہی ہے ۔اس کا نمبر بدل جانے کی وجہ سے پچھلے چار سالوں سے میں اس سے رابطہ نہیں کر سکا اور ممکن ہے میرا نمبر بھی اس کے پاس سے ڈلیٹ ہو گیا ہو ۔
خیر میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس وقت ہم ہندوستان کے جس ماحول میں رہ رہے ہیں جہاں مسلمانوں کے خلاف کچھ ہندوؤں میں نفرت اور غلط فہمی پائی جارہی ہے اور کچھ لوگ منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کی شبیہ کو خراب کر کے پیش بھی کر رہے ہیں ,خود مسلمانوں کی اپنی اکثریت کا کردار اور اخلاق بھی اتنا اچھا نہیں رہا کہ عام برادران وطن کی نگاہ میں اسلامی تعلیمات نمایاں طور پر ابھر کر آۓ مسلم تنظیموں اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ہنگامی طور پر دینی اور اخلاقی تربیت پر دھیان دیں اور اپنے معاشرے کی وہ تصویر پیش کریں جو غیروں سے بہتر پرسکون اور مختلف ہو تاکہ وہ غیر مسلم آبادی جو خود اپنے سماج اور معاشرے سے بدظن اور بیزار ہے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرنے پر مجبور ہو ۔بدقسمتی سے ایک زمانے سے ہو یہ رہا ہے کہ چند مسلمان اگر غیروں کے معاشرے میں اپنے مذہب کی خوبصورت شبیہ کو پیش کرتے بھی ہیں تو بھی مسلمانوں کی اکثریت کا کردار اور مزاج اس کے برعکس ہوتا ہے اور پھر جو لوگ کچھ قریب آ بھی چکے ہوتے ہیں ان کیلئے پھر سے دور جانے میں وقت نہیں لگتا ۔تاریخ کی بہت ہی معروف شخصیات جیسے کہ ونسٹن چرچل اور امبیڈکر جو کہ اپنے مطالعے کی بنیاد پر اسلام سے متاثر رہے ہیں جب وہ اسلام کے قریب آ کر دور جا سکتے ہیں تو غیر مسلموں کا عام طبقہ مسلمانوں کے موجودہ معاشرے کو دیکھ کر اپنا مذہب اور دین بدلنے کا حوصلہ کیسے کر سکتا ہے ۔ویسے یہ بھی ایک المیہ ہی ہے کہ جب ہم مسلمانوں کی اکثریت خود اپنے آباؤاجداد کا مسلک نہ بدل کر اصل دین کی طرف مائل ہونے کو تیار نہ ہوں تو غیروں سے مذہب بدلنے کی توقع رکھنا بھی فضول ہے۔
اب علامہ نے کچھ غلط بھی نہیں کہا تھا کہ
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
مزید قسطوں کے مطالعہ کے لیے یہاں کلک کریں: